وسیم بریلوی

غزل

آتے آتے مرا نام سا رہ گیا

آتے آتے مرا نام سا رہ گیا اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا رات مجرم تھی دامن بچا لے گئی دن گواہوں کی صف میں کھڑا رہ گیا وہ مرے سامنے ہی گیا اور میں راستے کی

غزل

محبت نا سمجھ ہوتی ہے سمجھانا ضروری ہے

محبت نا سمجھ ہوتی ہے سمجھانا ضروری ہے جو دل میں ہے اسے آنکھوں سے کہلانا ضروری ہے اصولوں پر جہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے جو زندہ ہو تو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے

غزل

سب نے ملائے ہاتھ یہاں تیرگی کے ساتھ

سب نے ملائے ہاتھ یہاں تیرگی کے ساتھ کتنا بڑا مذاق ہوا روشنی کے ساتھ شرطیں لگائی جاتی نہیں دوستی کے ساتھ کیجے مجھے قبول مری ہر کمی کے ساتھ تیرا خیال تیری طلب

Advertisement

ہمارا فیس بک پیج

Blog Stats

  • 80,094 hits

Advertisement

Advertisement

Advertisement