وہ دن گئے کہ جب محبت تھی جان کی بازی
کسی سے اب کوئی بچھڑے تو وہ مر نہیں جاتا
وسیم بریلوی
وسیم بریلوی
تو چھوڑ رہا ہے تو خطا اِس میں تِری کیا
ہر شخص مِرا ساتھ نبھا بھی نہیں سکتا
وسیم بریلوی
آتے آتے مرا نام سا رہ گیا اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا رات مجرم تھی دامن بچا لے گئی دن گواہوں کی صف میں کھڑا رہ گیا وہ مرے سامنے ہی گیا اور میں راستے کی
محبت نا سمجھ ہوتی ہے سمجھانا ضروری ہے جو دل میں ہے اسے آنکھوں سے کہلانا ضروری ہے اصولوں پر جہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے جو زندہ ہو تو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے
سب نے ملائے ہاتھ یہاں تیرگی کے ساتھ کتنا بڑا مذاق ہوا روشنی کے ساتھ شرطیں لگائی جاتی نہیں دوستی کے ساتھ کیجے مجھے قبول مری ہر کمی کے ساتھ تیرا خیال تیری طلب
وہ میرے گھر نہیں آتا میں اس کے گھر نہیں جاتا مگر ان احتیاطوں سے تعلق مر نہیں جاتا برے اچھے ہوں جیسے بھی ہوں سب رشتے یہیں کے ہیں کسی کو ساتھ دنیا سے کوئی لے کر