ہَمیں جَب کہ اَپنا بَنا لِیا، تو ہے رَبط کِس لِئے ہَم سے کَم یہ حِجاب کیا، یہ گُریز کیوں، رَہیں سامنے تو وہ کَم سے کَم غَمِ آرزُو، غَمِ جُستجُو، غَمِ اِمتحاں،
نصیر الدین نصیر
ﺁﭖ ﺍِﺱ ﻃﺮﺡ ﺗﻮ ﮨﻮﺵ ﺍُﮌﺍﯾﺎ ﻧﮧ ﮐﯿﺠﯿﺌﮯ ﯾﻮﮞ ﺑﻦ ﺳﻨﻮﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﯾﺎ ﻧﮧ ﮐﯿﺠﯿﺌﮯ ﯾﺎ ﺳَﺮ ﭘﮧ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﻮ ﺑﭩﮭﺎﯾﺎ ﻧﮧ ﮐﯿﺠﯿﺌﮯ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﻧﻈﺮ ﺳﮯ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﮔِﺮﺍﯾﺎ ﻧﮧ ﮐﯿﺠﯿﺌﮯ ﯾُﻮﮞ ﻣَﺪﮪ ﺑﮭﺮﯼ
بس یہی سوچ کے پہروں نہ رہا ہوش مجھے کر دیا ہو نہ کہیں تُو نے فراموش مجھے تیری آنکھوں کا یہ میخانہ سلامت ساقی مست رکھتا ہے ترا بادہ ء سرجوش مجھے ہچکیاں موت کی
رہنے لگی وہ زلفِ گرہ گیر سامنے ہر وقت اب تو ہے یہی زنجیر سامنے آتے ہیں خیر سے وہ نظر اب کبھی کبھی آنے لگی ہے خواب کی تعبیر سامنے ہو جائے گا مُحاسَبہ دشمن کا
میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی،، وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی،،، ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی،، ہمیں
عکسِ روئے مصطفے(ﷺ) سے ایسی زیبائی ملی کِھل اُٹھا رنگِ چمن ، پُھولوں کو رعنائی ملی سبز گنبد کے مناظر دیکھتا رہتا ہوں میں عشق میں چشمِ تصور کو وہ گیرائی ملی جس