مجید امجد

نظم

رخصت

تھک گئیں آنکھیں، امیدیں سو گئیں، دل مر گیا زندگی! عزمِ سفر کر، موت! کب آئے گی تو؟ آنسوؤ! آنکھوں میں اب آنے سے شرماتے ہو کیوں؟ تھی تمہی سے میرے داغِ آرزو

نظم

پژمردہ پتیاں

بکھری ہیں صحنِ باغ میں پژمردہ  پیتاں دوشیزۂ بہار کے دامن کی دھجیاں! ہمدم! غمیں نہ ہو کہ یہ مٹتی نشانیاں اک آنے والی رت کی ہیں شیریں کہانیاں! ڈھیر ان کے یہ

نظم

گلی کا چراغ

تری جلن ہے مرے سوزِ دل کے کتنی قریب خدا رکھے تجھے روشن! چراغِ کوئے حبیب تو جانتا ہے مری زندگی کا افسانہ تو جانتا ہے میں کس شمع کا ہوں پروانہ لرز لرز گئی اکثر

نظم

خدا

خبر ہے تجھ کو کچھ، رلدو! مرے ننھے! مرے بالک! ترا بھگوان پرمیشر ہے اس سنسار کا پالک! کہاں رہتا ہے پرمیشر؟ ادھر آکاش کے پیچھے کہیں دور، اس طرف تاروں کی بکھری

نظم

بُندا

کاش میں تیرے بُنِ گوش میں بُندا ہوتا! رات کو بےخبری میں جو مچل جاتا میں تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول میرے کھو جانے

نظم

آوار گانِ فطرت سے

بتا بھی مجھ کو ارے ہانپتے ہوئے جھونکے! ارے او سینۂ فطرت کی آہِ آوارہ! تری نظر نے بھی دیکھا کبھی وہ نظارہ کہ لے کے اپنے جلو میں ہجوم اشکوں کے کسی کی یاد جب

نظم

صبحِ جدائی

اب دھندلی پڑتی جاتی ہے تاریکیِ شب، میں جاتا ہوں وہ صبح کا تارا ابھرا، وہ پو پھوٹی، اب میں جاتا ہوں جاتا ہوں، اجازت! جانے دو، وہ دیکھو اجالے چھانے کو ہیں سورج

نظم

شاعر

میں شاعر ہوں میری جمالیں نگہ میں ذرا بھی نہیں فرق ذرّے میں مہ میں جہاں ایک تنکا سا ہے میری رہ میں ہر اک چیز میرے لیے ہے فسانہ ہر اک ڈُوب سے سن رہا ہوں ترانہ

نظم

التماس

مری آنکھ میں رتجگوں کی تھکاوٹ مری منتظر راہ پیما نگاہیں مرے شہرِ دل کی طرف جانے والی گھٹاؤں کے سایوں سے آباد راہیں مری صبح تیرہ کی پلکوں پہ آنسو مری شامِ

نظم

لمحاتِ فانی

بہشتو! چاندنی راتیں تمہاری ہیں رنگیں، نقرئی، مخمور، پیاری مگر وہ رات، وہ میخانہ، وہ دور وہ صہبائے محبت کا چھلکنا وہ ہونٹوں کی بہم پیوستگی ۔۔۔ اور دلوں کا ہم

نظم

جوانی کی کہانی

نہ چھیڑ اے دل! جوانی کی کہانی کسی کی دلستانی کی کہانی وہ سوزِ زندگی افروز کا ذکر وہ دردِ جاودانی کی کہانی وہ دُکھ کی جاگتی راتوں کا قصہ وہ اشکوں کی روانی کی

Advertisement

ہمارا فیس بک پیج

Blog Stats

  • 81,422 hits

Advertisement

Advertisement

Advertisement