ہوا کو حکم نہ تھا ہاتھ کو دعا ہی نہیں کواڑ کھول کے دیکھا تو کوئی تھا ہی نہیں میں دل نکال کے لایا ہوں کیا کروں یہ لو تمہارے بعد کوئی پھول تو کھلا ہی نہیں مرا
فرازاحمد علوی
بدن میں کب کوئی آنکھیں اتارتا ہے یار مجھے شکیب کا اک شعر مارتا ہے یار وجود کانپتا رہتا ہےاسکی چیخ کے بعد مجھے پکارے تو ایسا پکارتا ہے یار یہ کون صحرا میں اتنا