بدرِ صغریٰ ’’اے دشمنِ خدا، ہم انشاء اللہ ضرور آئندہ سال بدر کے میدان میں تیرا انتظار کریں گے۔‘‘ پیغمبرِ اسلامؐ کا یہ اعلان جو انہوں نے اُحد میں ابوسفیان کا
حضرت بلالؓ
بنو قینقاع اور بنونضیر کے شہر بدر ہونے کے بعد بنو غطفان، بنو ہذیل اور بنوقریظہ اندر ہی اندر مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ مدینے سے باہر پورے عربستان کی
اب یا کبھی نہیں یہودی ایک خدا کو ماننے والے تھے، انہیں اپنی کتابوں کے ذریعے ایک پیغمبر کے آنے کا انتظار بھی تھا۔ قرائن سے اُن پر یہ واضح بھی ہو چکا تھا کہ وہ
حیرتوں پر حیرت کا دن تھا اُحد کا یہ میدان کار زار۔ ابھی ایک حیرت ختم نہیں ہوئی تھی کہ مقتولین میں کسی نے ایک ایسے شخص کو پہچانا جسے ہم ایک عظیم یہودی عالم کی
اُحد میں کائنات کا سب سے قیمتی خون بہا۔ شیرِ نیستاں حمزہؓ نے شہادت پائی۔ ہند کے پاس ایک حبشی غلام تھا، میری طرح حبشہ کا رہنے والا۔ اُس کا نام وحشی تھا۔ وہ نیزہ
رسول اللہ ﷺ نے جنگ کا دائرہ محدود کرنے کے لئے بھی قواعد مرتب فرمائے اور اُن کے اعلان کے لئے میرا انتخاب فرمایا۔ سردیوں کی شام تھی اور فارس کی ہوا چل رہی تھی۔
ابتدا میں میری مشکل یہ تھی کہ آمدنی کے نہ ذرائع معین تھے نہ مقدار۔ یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ آمدنی کی صورت کب پیدا ہو گی۔ اُدھر خرچ کی مدیں مقرر تھیں۔ یہ لکھ
میں حسبِ حکم جوں توں کر کے اُس چھت پر چڑھ گیا مگر میں پھر بھی اطراف میں لگے ہوئے کئی کھجور کے درختوں سے نیچا تھا۔ سب سے بڑی مشکل یہ پیش آئی کہ عبداللہؓ کے
اتنے میں میں نے دیکھا کہ عبداللہ بن زیدؓ آہستہ آہستہ اپنی جگہ سے کھسکتے ہوئے آ گے آ رہے ہیں۔ عبداللہؓ انصار کی طرف سے مسجد کی تعمیر میں شامل تھے۔ میں نے انہیں
مواخات کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ مکے کے مہاجر اب اپنا سارا بوجھ مدینے والوں پر ڈال کر بے فکر ہو جائیں گے اور مفت خور مہمانوں کی طرح زندگی بسر کریں گے۔ مہمان
ایک دفعہ انہوں نے ایک چھوٹے سے بچے کو گود میں اُٹھا لیا جو ابھی ٹھیک طرح سے چل بھی نہیں سکتا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا پتھر دیا اور اپنے کندھے سے اونچا
سیّدالانبیاؐ قصواء سے اُترتے ہی اُس احاطے کے طول و عرض کو نہایت غور سے دیکھنے لگے۔ اُن کے ساتھ اُنہیں مدینے میں خوش آمدید کہنے والے مسلمانوں کا ایک ہجوم تھا
مدینے کی اسی جنوبی نواحی نگری میں تین دن کے قیام میں ہم سب نے مل کر ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کی۔ یہ اُس مختصر قیام کی دوسری حسین یاد ہے جو دل میں یوں جاگزیں ہے
اُن ہی دنوں نویں ہجری میں فتح مکہ سے کچھ عرصہ پہلے بحرین سے تیرہ چودہ آدمیوں کا ایک وفد رسالت مآبؐ سے ملنے مدینے حاضر ہوا تھا۔ اشج عبدالقیس نامی ایک چاق و
کھوجی چلتے چلتے غارِ ثور تک پہنچ گیا اور وہاں پہنچ کر بیٹھ گیا۔ اُس کا کام ختم ہو چکا تھا۔ کشت و خون کسی اور کا کام تھا۔ ابوجہل، میرا سابقہ آقا اُمیہ اور دیگر
تینوں سواروں نے مغرب کا راستہ لیا۔ اب بھی اُن کا رُخ مدینہ کی طرف نہیں تھا، بلکہ وہ بحیرۂ احمر کی طرف جا رہے تھے۔ دو دن میں تقریباً پچاس میل کی مسافت طے کر کے
کھوجی چلتے چلتے غارِ ثور تک پہنچ گیا اور وہاں پہنچ کر بیٹھ گیا۔ اُس کا کام ختم ہو چکا تھا۔ کشت و خون کسی اور کا کام تھا۔ ابوجہل، میرا سابقہ آقا اُمیہ اور دیگر
الوداع مکہ ہماری ہجرت کا ایک پہلو ایسا بھی تھا جس پر ہماری نظرنہ تھی۔ مکے سے چلے ہوئے ہمیں چھٹا دن تھا کہ صحرا میں ہماری ملاقات حمزہؓ سے ہوئی۔ انہوں نے ہمیں جو
اس وفد میں کئی نوجوان بھی تھے۔ معاذ بن عمروؓ، شہید احد عمرو بن جموحؓ کے بیٹے اور ایک اور نوجوان اُن کا نام بھی معاذؓ تھا۔ سترہ اٹھارہ سال کی عمر۔ کیا سجیلا
رسول کریمﷺ کی تبلیغ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ انہیں کسی اجتماع سے خطاب کرنے کی اجازت نہ تھی۔ یہ مشرکینِ مکہ کے سرداروں کا فیصلہ تھا۔ اس صورتِ حال میں وہ خود
سب سے بُرا دن رسول کریمﷺ کی تبلیغ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ انہیں کسی اجتماع سے خطاب کرنے کی اجازت نہ تھی۔ یہ مشرکینِ مکہ کے سرداروں کا فیصلہ تھا۔ اس صورتِ حال
اشرافِ مکہ غیرت کے پتلے تھے، حمیّت پر جان دیتے تھے مگر ابوجہل کی وجہِ شہرت یہ نہیں تھی۔ ایک دن محمدﷺ خانہ کعبہ کا طواف کرنے گئے۔ ابوجہل اپنے حواریوں سمیت حطیم
مسلمانوں سے اُس کا بیر بھی، جو اُس کی پہچان بن چکا تھا، محض اس لئے نہیں تھا کہ وہ اُس کے خداؤں کو جھٹلاتے تھے بلکہ اس لئے کہ داعئ اسلام، محمدﷺ خاندانِ عبد مناف
عمرؓ کے قبولِ اسلام کا تو میں چشم دید گواہ ہوں لیکن اُن کے پہلی مرتبہ آنے اور دوسری مرتبہ آنے کے درمیان ایک گھنٹے میں کیا معجزہ رونما ہوا، اس کی تفصیل مجھے بعد
ابنِ خطاّب حمزہؓ کے اسلام لانے کے بعد ابوجہل، ابولہب، اُمیہ ، عتبہ سب لوگ سناٹے میں آ گئے تھے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب مسلمانوں سے کیسے نمٹا جائے۔
جب ہم شہری زندگی سے کٹ کر وقت گزار رہے تھے تو ہمیں مکے کی بہت کم خبریں ملتی تھیں۔ چھپے چوری کسی سے مل لیتے تھے تو پتہ چلتا تھا کہ مکے میں جہاں ہمارے خلاف کئی
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جعفرؓ نے آیاتِ قرآنی اس خوب صورتی سے ادا کیں کہ بلال یاد آ گیا۔ یہ مجھے اس واقعے کے دس سال بعد خود عمرو بن العاص نے کہا تھا۔ بہرکیف میں
عمرو ہر قیمت پر یہ ملاقات رکوانا چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ نجاشی کے اہل مکہ سے تجارتی اور سیاسی تعلقات ضرور تھے لیکن دل ہی دل میں وہ انہیں کُفّار اور بُت
ولید اور اس کے گھڑ سواروں نے صحرا کا راستہ لیا اور کچھ دور جانے کے بعد انہیں اُن کے قدموں کے نشان مل گئے بلکہ ایک میل تک تو وہ اُن کے متوازی چلتے رہے لیکن اللہ
پہلی ہجرت اب تشدد کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔ پہلے سے کہیں زیادہ قساوت لئے ہوئے۔ قتل تک نوبت پہنچنے لگی۔ کوئی دن نہیں گزرتا تھا کہ ہم مسلمانوں پر کوئی نہ کوئی