وہ گیا تو ساتھ ہی لے گیا، سبھی رنگ اُتار کے شہر کا کوئی شخص تھا میرے شہر میں، کسی دُور پار کے شہر کا چلو کوئی دل تو اُداس تھا، چلو کوئی آنکھ تو نم رہی چلو کوئی
احمد فراز
وہ گیا تو ساتھ ہی لے گیا، سبھی رنگ اُتار کے شہر کا کوئی شخص تھا میرے شہر میں، کسی دُور پار کے شہر کا چلو کوئی دل تو اُداس تھا، چلو کوئی آنکھ تو نم رہی چلو کوئی
ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود
آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا
احمد فراز
ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮ ﮐﯿﻮﮞ ﺩﺍﺩِ ﺟﻔﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ ﺑﺴﻤﻞ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻗﺎﺗﻞ ﮐﻮ ﺩﻋﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ ﻭﺣﺸﺖ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺭﻭﺯﻥِ ﺯﻧﺪﺍﮞ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻣﮩﺮ ﻭ ﻣﮧ ﻭ ﺍﻧﺠﻢ ﮐﻮ ﺑﺠﮭﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ ﺍﮎ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ کچھ تو مرے پندار محبت کا بھرم رکھ تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لیے آ پہلے سے مراسم نہ
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں سنا ہے
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ کچھ تو مرے پندار محبت کا بھرم رکھ تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لیے آ پہلے سے مراسم نہ