داستان ایمان فروشوں کی ۔۔۔ نویں قسط

ساتویں لڑکی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
صلیب ٹوٹ جائے گی ۔ ہم اپنی عصمت کے شیشے توڑ دیتی ہیں تاکہ صلیب نہ ٹوٹے۔ ہمیں ٹریننگ دی گئی ہے کہ ایک مسلمان سربراہ کو تباہ کرنے کے لیے دس مسلمانوں کے ساتھ راتیں بسر کرنا جائز اور کارِ ثواب ہے ۔ مسلمانوں کے ایک مذہبی پیشوا کو اپنے جسم سے ناپاک کرنے کو ہم ایک عظیم کارِ خیر سمجھتی ہیں ۔

” تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم صلیب کی بقاء کے لیے مجھے استعمال کر رہی ہو ” ۔ بالیان کے احساسات آہستہ آہستہ جاگنے لگے……”کیا تم مجھے صلیب کا محافظ بنانا چاہتی ہو ؟”

” کیا تم ابھی تک شک میں ہو ؟” موبی نے کہا …… ” تم نے صلیب کے ساتھ کیوں دوستی کی ؟”

” صلاح الدین ایوبی کی حکمرانی سے آزاد ہونے کے لیے ”۔ بالیان نے کہا …… ” صلیب کی حفاظت کے لیے نہیں ۔ میں مسلمان ہوں ، لیکن اس سے پہلے میں سوڈانی ہوں ”۔

” میں سب سے پہلے صلیبی ہوں ”۔ موبی نے کہا …… ” میں عیسائی ہوں اور اس کے بعد اُس ملک کی بیٹی ہوں جہاں میں پیدا ہوئی تھی ”۔ موبی نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا ……” اسلام کوئی مذہب نہیں ۔ اسی لیے تم اپنے ملک کو اس پر ترجیح دے رہے ہو۔ یہ تمہاری نہیں ، تمہارے مذہب کی کمزوری ہے۔ تم میرے ساتھ سمندر پار چلو تو میں تمہیں اپنا مذہب دکھائوں گی ۔ تم اپنے مذہب کو بھول جائو گے ”۔

” میں اس مذہب پر لعنت بھیجوں گا جو اپنی بیٹیوں کو غیر مردوں کے ساتھ راتیں بسر کرنے اور شراب پینے کو ثواب کا کام سمجھتا ہے ”۔ بالیان اچانک بیدا ہوگیا ۔ اس نے کہا ……” تم نے اپنی عصمت مجھ سے نہیں لُٹائی ، بلکہ میری عصمت لوٹی ہے۔ میں نے تمہیں نہیں ، بلکہ تم نے مجھے کھلونا بنائے رکھا ہے ”۔

” ایک مسلمان کا ایمان خریدنے کے لیے عصمت کوئی زیادہ قیمت نہیں ”۔ لڑکی نے کہا …… ” میں نے تمہاری عصمت نہیں لوٹی ، تمہارا ایمان خریدا ہے، مگر تمہیں راستے میں بھٹکتا ہوا چھوڑ کر نہیںجائو ں گی ۔ تمہیںایک عظیم روشنی کی طرف لے جا رہی ہوں ، جہاں تمہیں اپنا مستقبل اور اپنی عاقبت ہیروں کی طرح چمکتی نظر آئے گی ”۔

” میں اس روشنی میں نہیں جائو ں گا ”۔ بالیان نے کہا ۔

” دیکھو بالیان ! ” موبی نے کہا ……” مرد، جنگجو مرد وعدے اور سودے سے نہیں پھرا کرتے ۔ تم میرا سودا قبول کر چکے ہو۔ میں نے تمہارا ایمان خرید کر شراب میں ڈبو دیا ہے اورتمہیں منہ مانگی قیمت دی ہے۔ اتنے دِنوں سے میں تمہاری لونڈی اور بے نکاحی بیوی بنی ہوئی ہوں ۔ اس سودے سے پھرو نہیں ۔ ایک کمزور لڑکی کو دھوکہ نہ دو ”۔

” تم نے مجھے وہ عظیم روشنی یہیں دکھا دی ہے جو تم مجھے سمندر پار لے جا کر دکھانا چاہتی ہو ”۔ بالیان نے کہا ……” مجھے اپنا مستقبل اور اپنی عاقبت ہیروں کی طرح چمکتی نظر آنے لگی ہے ”…… موبی نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو بالیان نے گرج کر بولا ۔ ”

کہنے کی کوشش کی تو بالیان نے گرج کر بولا ۔ ” خاموش رہو لڑکی ! صلاح الدین ایوبی میرا دشمن ہو سکتا ہے ، لیکن میں اس رسول ۖ کا دشمن نہیں ہو سکتا جس کا صلاح الدین ایوبی بھی نام لیوا ہے۔ میں اس رسول ۖ کے نام پر مصر اور سوڈان قربان کر سکتا ہوں ۔ اس کے عظیم اورمقدس نام پر میں صلاح الدین ایوبی کے آگے ہتھیار ڈال سکتا ہوں ”۔

” میں تم کو کئی بار کہہ چکی ہوں کہ شراب کم پیا کرو ”۔ موبی نے کہا …… ” ایک شراب اور دوسرے رات بھر جاگنا اور میرے جسم کے ساتھ کھیلتے رہنا ۔ دیکھو تمہارا دماغ با لکل بے کا ہو گیا ہے ۔ تم یہ بھی بھول گئے ہو کہ میں تمہاری بیوی ہوں ”۔

” میں کسی فاحشہ صلیبی کا خاوند نہیں ہو سکتا ” ۔ اس کی نظر شراب کی بوتل پر پڑی ، اس نے بوتل اُٹھا کر پڑے پھینک دی اور اُٹھ کھڑا ہوا ۔ اس نے اپنے دوستوں کو بلایا ۔ وہ دوڑتے ہوئے آئے ۔ اُس نے کہا ۔ ” یہ لڑکیاں اور یہ لڑکی بھی تمہاری قیدی ہیں ، انہیں واپس قاہرہ لے چلو ”۔

” قاہرہ ؟ ” ایک نے حیران ہو کرکہا ۔ ”آپ قاہر ہ جانا چاہتے ہیں ؟”

”ہاں !”اس نے کہا …… ” قاہرہ ! حیران ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اس ریگزار میں کب تک بھٹکتے رہو گے ؟ کہاں جائو گے ؟ چلو ۔ گھوڑوں پر زینیں کسو اور ہر لڑکی کو ایک ایک گھوڑے کی پیٹھ پر باندھ کر لے چلو ”۔

٭ ٭ ٭

صحرا میں اونٹ کا سفر بے آواز ِپا ہوتا ہے۔گھوڑوں کے پاپو ئوں کی ہلکی ہلکی آوازیں سنائی دیتی ہیں ، لیکن اونٹ کے پائوں خدا نے ایسے بنائے ہیں کہ ہلکی سی آواز بھی پیدا نہیں ہوتی ۔ بالیان جس وقت موبی کے ساتھ باتیں کر رہا تھا ، اسے محسوس تک نہ ہوا کہ ایک اونٹ ایک چھوٹے سے ریتلے ٹیلے کی اوٹ میں کھڑا اِن دونوں کو اور چھ لڑکیوں کو اور چھ آدمیوں کو دیکھ رہا ہے ۔ وہ صلیبی کمانڈو پارٹی کا ایک آدمی تھا ۔ اس پارٹی کا کمانڈر عقل مند آدمی تھا ۔ بالیان کے ڈیرے سے تقریباً نصف میل دُور اس نے پڑائو کیا تھا ۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کا شکار اُس سے نصف میل دُور ہے ۔ اس نے فوجی دانش مندی سے کام لیتے ہوئے رات کو تین آدمیوں کو یہ ڈیوٹی دی تھی کہ وہ اونٹوں پر سوار ہو کر دُور دُور تک گھو م آئیں اور جہاں انہیں کوئی خطرہ یا کام کی کوئی چیز نظر آئے ، آکر اطلاع کریں ۔ اس کام کے لیے اونٹ ہی موزوں سواری تھی ، کیونکہ اس کے پائوں کی آواز نہیں ہوتی ۔ تینوں سوار مختلف سمتوں کو چلے گئے تھے ۔ یہ سارا علاقہ ایسا تھا کہ پڑائو کے لیے نہایت اچھا تھا ، اس لیے کمانڈر نے سوچا تھا کہ یہاں کسی اورنے بھی ڈیرے ڈال رکھے ہوں گے۔

ایک شتر سوار کو روشنی سی نظر آئی تو و اس طرف چل پڑا ۔ یہ ایک چھوٹی مشعل تھی جو بالیان کے عارضی کیمپ میں جل رہی تھی ۔ شتر سوا رآگے گیا تو ایک ٹیلے کے پیچھے ہو گیا ۔ یہ اتنا ہی اونچا تھا کہ اونٹ پر سوار ہو کر آگے دکھا جا سکتا تھا ۔ اونٹ اور سواراس کے پیچھے چھپ گئے تھے ۔ اسے ہلکی ہلکی روشنی میں لڑکیاں نظر آئیں جو بالیان کے فوجی دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگا رہی تھیں ۔ اُن سے کچھ دُور ایک اور لڑکی ایک آدمی کے ساتھ باتیں کر تی نظر آئی ۔ ذرا پرے بہت سے گھوڑے بندھے ہوئے تھے ۔ ان میں وہ گھوڑے بھی تھے جو اِن لوگوں نے قیدیوں کے محافظوں کو قتل کر کے حاصل کیے تھے۔

صلیبی شتر سوا ر نے اونٹ کو موڑا ۔ کچھ دُور تک آہستہ آہستہ چلا اور پھر اونٹ دوڑا دیا ۔ اونٹ کے لیے نصف میل کا فاصلہ کچھ بھی نہیں تھا ۔ سوا نے اپنی پارٹی کو خوش خبری سنائی کو شکار ہمارے قدموں میں ہے ۔ کمانڈر نے ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا ۔ شتر سوا ر سے ہدف کی تفصیل پوچھی اور پارٹی کو پیدل چلا دیا ۔ گھوڑوں کے قدموں کی آواز سے شکار کے چوکنا ہوجانے کا خطرہ تھا …… جس وقت یہ پارٹی بالیان کے ڈیرے تک پہنچی ، بالیان حکم دے چکا تھا کہ ایک ایک لڑکی گھوڑے کی پیٹھ پر باندھ دو ۔ اس کے دوست حیرت ذدہ ہو کہ بالیان کو دیکھ رہے تھے کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے ۔ انہوں نے اس کے ساتھ بحث شروع کر دی اور وقت ضائع ہوتا رہا ۔ بالیان نے انہیں بڑی مشکل سے قائل کیا وہ جو کچھ کہہ رہا ہے ، ہوش ٹھکانے رکھ کر کہہ رہا ہے اور قاہرہ چلے جانے میں ہی عافیت اور مصلحت ہے ۔

لڑکیاں پریشانی کے عالم میں اسے دیکھ رہی تھیں۔بالیان کے آدمیوں نے گھوڑوں پر زینیں ڈالیں اور لڑکیوں کو پکڑ لیا ۔ اچانک اُن پر آفت ٹوٹ پڑی ۔بالیان نے بلند آواز سے بار بار کہا ……” ہم ہتھیار ڈالنا چاہتے ہیں ۔ لڑکیوں کو قاہر ہ لے جا رہے ہیں ”……وہ حملہ آوروں کو سلطان ایوبی کے فوجی سمجھ رہا تھا ، لیکن ایک خنجر نے اس کے دِل میں اُتر کر اُسے خاموش کر دیا ۔ اس کے دوست اتنے زیادہ آدمیوں کے ایسے اچانک حملے کا مقابلہ نہ کر سکے ۔ سنبھلنے سے پہلے ہی ختم ہو گئے ۔ صلیبیوں کا چھاپہ کامیاب تھا ۔ لڑکیاں آزاد ہو چکی تھیں۔ چھاپہ مار انہیں فوراً اپنی جگہ لے گئے ۔ انہوں نے کمانڈر کو پہچان لیا ۔ وہ بھی ان کی پارٹی کا جاسوس تھا ۔ انہوں نے رات وہیں بسر کرنے کا فیصلہ کیا اور پہرے کے لیے دو سنتری کھڑے کر دئیے جو ڈیرے کے ارد گرد گھومنے لگے ۔

سلطان ایوبی کے بھیجے ہوئے سوار ، اس جگہ سے ابھی دُور تھے ، جہاں قیدی لڑکیاں بالیان کے آدمیوں نے رہا کرائیں تھیں ۔ رات کو بھی چلے جا رہے تھے ۔ وہ تعاقب میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ راہنما اُن کے ساتھ تھا ۔ وہ راستہ اور جگہ بھولا نہیں تھا ۔ وہ انہیں اس جگہ لے گیا جہاں اُن پر حملہ ہوا تھا ۔ ایک مشعل جلا کردیکھا گیا ، وہاں رابن اور اس کے ساتھیوں کی لاشیں اور اُن کے محافظوں کی لاشیں پڑی تھیں ۔ یہ چیری پھاڑی اور کھائی ہوئی تھیں ۔ اُس وقت بھی صحرائی لومڑیاں اور گیڈر انہیں کھا رہے تھے ۔ سواروں کو دیکھ کر یہ درندے بھاگ گئے۔ دن کے وقت انہیں گدھ کھاتے رہے تھے ۔ محافظ اپنے کمانڈر کو اُس جگہ لے گیا جہاں سے اس نے گھوڑا کھولا تھا ۔ وہاں سے مشعل کی روشنی میں زمین دیکھی گئی تھی۔ گھوڑوں کے قدموں کے نشان نظر آرہے تھے اور سمت کی نشان دہی کر رہے تھے ، جدھر یہ گئے تھے ، مگر رات کے وقت ان نشانوں کو دیکھ دیکھ کر چلنا بہت مشکل تھا ۔ وقت ضائع ہونے کا اور بھٹک جانے کا ڈر تھا ۔ رات کو وہیں قیام کیا گیا۔

صلیبی پارٹی کے کیمپ میں سب جاگ رہے تھے ۔ وہ بہت خوش تھے ۔ کمانڈر نے فیصلہ کیا تھا کہ سحر کی تاریکی میں بحیرئہ روم کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔ اس وقت میگناناماریوس نے کہا کہ مقصد ابھی پورا نہیں ہوا ۔ صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنا باقی ہے۔ کمانڈر نے کہا کہ یہ اُس صورت میں ممکن تھا کہ وہ لڑکیوں کے پیچھے قاہرہ چلے جاتے ۔ اب وہ قاہرہ سے بہت دور ہیں ، اس لیے قتل کی مہم ختم کی جاتی ہے ۔

” یہ میری مہم ہے ، جسے موت کے سوا کوئی ختم نہیں کر سکتا ”۔ میگنا ناماریوس نے کہا …… ‘ ‘ میں نے صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنے کا حلف اُٹھایا تھا۔ مجھے ایک ساتھی اور ایک لڑکی کی ضرورت ہے ”۔

” یہ فیصلہ مجھے کرنا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے ” …… کمانڈر نے کہا …… ” سب پر فرض ہے کہ میرا حکم مانیں ”۔

” میں کسی کے حکم کا پابند نہیں ” ۔ میگنا ناماریوس نے کہا ۔” تم سب خدا کے حکم کے پابند ہو ”۔

کمانڈر نے اُسے ڈانٹ دیا ۔ میگنا ناماریوس کے پاس تلوار تھی ۔ و ہ اُٹھ کھڑا ور کمانڈر پر تلوار سونت لی ۔

میں کسی کے حکم کا پابند نہیں ” ۔ میگنا ناماریوس نے کہا ۔” تم سب خدا کے حکم کے پابند ہو ”۔

کمانڈر نے اُسے ڈانٹ دیا ۔ میگنا ناماریوس کے پاس تلوار تھی ۔ و ہ اُٹھ کھڑا ور کمانڈر پر تلوار سونت لی ۔ اُن کے ساتھی درمیان میں آگئے ۔ میگنا ناماریوس نے کہا …… ‘ ‘ میں خدا کا دھتکارا ہوا انسان ہوں ۔ میں گناہ اور بے انصافی کے درمیان بھٹک رہا ہوں ۔ کیا تم جانتے ہو ، مجھے تیس سالوں کے لیے قید خانے میں قید کیوں کیا گیا تھا ؟ پانچ سال گزرے میری ایک بہن جس کی عمر سولہ سال تھی ، اغوا کر لی گئی تھی ۔ میں غریب آدمی ہوں ، میرا باپ مر چکا ہے ، ماں اندھی ہے ، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ، محنت مشقت کر کے میں ان سب کا پیٹ پالتا تھا ۔ میں نے گرجے میں صلیب پر لٹکے ہوئے یسوع مسیح کے بت سے بہت دفعہ پوچھا تھا کہ میں غریب کیوں ہوں ؟میں نے کبھی گناہ نہیں کیا ۔ میں دیانت داری سے اتنی محنت کرتا ہوں ، مگر میرے کنبے کے پیٹ پھر بھی خالی رہتے ہیں ۔ میری ماں کو خدا نے کیوں اندھا کیا ہے ؟ یسوع مسیح نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا اور جب کنوری بہن اغوا ہو گئی تو میں نے گرجے میں جا کر کنواری مریم کی تصویر سے پوچھا تھا کہ میری کنواری بہن کے کنوارے پن پر تجھے ترس کیوں نہیں آیا ؟وہ معصوم تھی ۔ اس پر خدا نے یہ ظلم کیا تھا کہ اسے خوبصورتی دے دی تھی ۔ مجھے یسوع مسیح نے بھی کوئی جواب نہیں دیا ۔مجھے کنواری مریم نے بھی کوئی جواب نہیں دیا ۔

” ایک روز مجھے ایک بہت ہی امیر آدمی کے نوکر نے بتایا کہ تمہاری بہن اس امیر آدمی کے گھر میں ہے۔ وہ عیاش آدمی ہے ۔ کنواریوں کو اغوا کرتا ہے ، تھوڑے دن اُس کے ساتھ کھیلتا ہے اور انہیں کہیں غائب کر دیتا ہے ، لیکن وہ آدمی بادشاہ کے دربار میں بیٹھتا ہے ۔ لوگ اس کی عزت کرتے ہیں ۔ بادشاہ نے اُسے رُتبے کی تلوار دی ہے ۔ گناہ گار ہوتے ہوئے خدا اس پر خوش ہے ۔ دُنیا کا قانون اُس کے ہاتھ میں کھلونا ہے ……میں اس کے گھر گیا اور اپنی بہن واپس مانگی۔ اس نے مجھے دھکے دیکر اپنے محل سے نکال دیا۔میں پھر گرجے میں گیا ۔یسوے مسیح کے بت اور کنواری مریم کی تصویر کے آگے رویا ۔خدا کو پکارا ۔مجھے کسی نے جواب نہیں دیا ۔میں گرجے میں اکیلا تھا۔ پادری آگیا۔اس نے مجھے ڈانٹ کر گرجے سے نکال دیا ۔کہنے لگا ………..یہاںسے دو تصویریں چوری ہو چکی ہیں ،نکل جائو ، ورنہ پولیس کے حوالے کر دوں گا ……….میں نے حیران ہوکر اس سے پوچھا ………کیا یہ خدا کا گھر نہیں ہے ؟ …………اس نے جواب دیا ………….تممجھ سے پوچھے بغیر خدا کے گھر میں کیسے آئے ۔اگر گناہوں کی معافی مانگنی ہے تو میرے پاس آئو ۔اپنا گناہ بیان کرو ۔میں خدا سے کہوں گا کہ تمہیں بخش دے ۔تم خدا سے براہِ راست کوئی بات نہیں کرسکتے ۔جائونکلو یہاں سے ………..اور میرے دوستو !مجھے خدا کے گھر سے نکال دیا گیا ۔

وہ ایسے لہجے میں بول رہا تھا کہ سب پر سناٹا طاری ہوگیا ۔لڑکیوں کے آنسو نکل آئے ۔صحرا کی رات کے سکوت میں اس کی باتوں کا تاثر سب پر طلسم بن کر طاری ہو گیا ۔

وہ کہہ رہا تھا ……” میں پادری کو ، یسوع مسیح کے بت کو ، کنواری مریم کی تصویر کو اور اُس خدا کو جو مجھے گرجے میں نظر نہیں آیا ، شک کی نظروں سے دیکھتا نکل آیا ۔ گھر گیا تو اندھی ماں نے پوچھا ۔ ” میری بچی آئی یا نہیں ؟ میری بیوی نے پوچھا ، میرے بچوں نے پوچھا ۔میں بھی بت اور تصویر کی طرح چپ رہا ، مگر میرے اندر سے ایک طوفان اُٹھا اور میں باہر نکل گیا۔ میں سارا دن گھومتا پھرتا رہا۔ شام کے وقت میں نے ایک خنجرخریدا اور دریا کے کنارے ٹہلتا رہا۔ رات اندھیری ہوگئی اور بہت دیر بعد میں ایک طرف چل پڑا ۔ مجھے اس محل کی بتیاں نظر آئیں جہاں میری بہن قید تھی ۔ میں بہت تیز چل پڑا اور اس محل کے پچھواڑے چلا گیا ۔ میں اتنا چالاک اور ہو شیار آدمی نہیں تھا ، لیکن مجھ میں چالاکی آ گئی ۔ میں پچھلے دروازے سے اندر چلا گیا۔ محل کے کسی کمرے میں شور شرابا تھا ۔ شاید کچھ لوگ شراب پی رہے تھے ۔ میں ایک کمرے میں داخل ہوا تو ایک نوکر نے مجھے روکا ۔ میں نے خنجر اس کے سینے میں رکھ دیا اور اپنی بہن کا نام بتا کر پوچھا کہ وہ کہاں ہے ۔ نوکر مجھے اندرکی سیڑھیوں سے اوپر لے گیا اور ایک کمرے میں داخل کرکے کہا کہ یہاں ہے۔ میں اندر گیا تو میرے پیچھے دروازہ بند ہوگیا۔ کمرہ خالی تھا ……

” دروازہ کھلا اور بہت سے لوگ اندر آگئے۔ اُن کے پاس تلواریں اور ڈنڈے تھے ۔ میں نے کمرے کی چیزیں اُٹھا اُٹھا کر اُن پر پھینکنی شروع کر دیں۔ بہت توڑ پھوڑ کی ۔ انہوں نے مجھے پکڑ لیا ۔ مجھے مارا پیٹا اور میں بے ہوش ہو گیا ۔ ہوش میں آیا تو میں ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا ۔ میرے خلاف الزام یہ تھے کہ میں نے ڈاکہ ڈالا ، بادشاہ کے درباری کا گھر برباد کیا اور تین آدمیوں کو قتل کی نیت سے زخمی کیا۔ میری فریاد کسی نے نہ سنی اور مجھے تیس سال سزائے قید دے کر قید خانے کے جہنم میں پھینک دیا ۔ ابھی پانچ سال پورے ہوئے ہیں ۔ میں انسان نہیں رہا۔ تم قید خانے کی سختیاں نہیں جانتے ۔ دن کے وقت مویشیوں جیسا کا م لیتے ہیں اور رات کوکتوں کی طرح زنجیر ڈال کر کوٹھریوں میں بند کر دیتے ہیں ۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میر ی اندھی ماں زندہ ہے یا مر چکی ہے ۔ بیوی بچوں کا بھی کچھ پتہ نہیں تھا ۔ مجھے خطرناک ڈاکو سمجھ کر کسی سے ملنے نہیں دیا جاتا تھا ……

” میں ہر رقت سوچتا رہتا تھا کہ خدا سچا ہے یا میں سچا ہوں۔ سنا تھا کہ خدا بے گناہوں کو سزا نہیںدیتا ، مگر مجھے خدا نے کس گناہ کی سزادی تھی ؟ میرے بچوں کو کس گنا ہ کی سزا دی تھی ؟ میں پانچ سال اسی اُلجھن میں مبتلا رہا ۔ کچھ دِن گزرے، فوج کے دو افسر قید خانے میں آئے ۔ وہ اس کا م کے لیے جس ہم آئے ہوئے ہیں ، آدمی تلاش کر رہے تھے ۔ میں اپنے آپ کو پیش نہیں کرنا چاہتا تھا ، کیونکہ یہ بادشاہوں کی لڑائی جھگڑے تھے۔ مجھے کسی بادشاہ کے ساتھ دلچسپی نہیں تھی ، لیکن میں نے جب سنا کہ چند ایک عیسائی لڑکیوں کو مسلمانوں کی قید سے آزاد کرانا ہے تو میرے دل میں اپنی بہن کاخیال آگیا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ مسلمان قابلِ نفرت قوم ہے۔ میں نے یہ ارادہ کیا کہ میں عیسائی لڑکیوں کو مسلمانوں کی قید سے آزاد کرائوں گا تو خدا اگر سچا ہے تو میری بہن کو اُس ظالم عیسائی کی پنجے سے چھڑا دے گا ، پھر فوجی افسروں نے کہا کہ ایک مسلمان بادشاہ کو قتل کرنا ہے تو میں نے اسے جزا کا کام سمجھا اور اپنے آپ کو پیش کر دیا ، مگر شرط یہ رکھی کہ مجھ اتنی رقم دی جائے جو میں اپنے کنبے کو دے سکوں ۔ انہوں نے رقم دینے کا وعدہ کیا اور یہ بھی کہا کہ اگر تم سمندر پار مارے گئے تو تمہارے کنبے کو اتنی زیادہ رقم دی جائے گی کہ ساری عمر کے لیے وہ کسی کے محتاج نہیں رہیں گے ”۔

اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف اشارہ کرکے کہا …… ” یہ دو میرے ساتھ قیدخانے میں تھے۔ انہوں نے بھی اپنے آپ کو پیش کر دیا ۔ ہم سے سینکڑوں باتیں پوچھیں گئیں ۔ ہم تینوں نے انہیں یقین دلادیا کہ ہم اپنی قوم اور اپنے مذہب کو دھوکہ نہیں دیں گے۔ میں نے دراصل اپنے کنبے کے لیے اپنی جان فروخت کر دی ہے ۔ قید خانے سے نکالنے سے پہلے ایک پادری نے ہمیں بتایا کہ مسلمانوں کا قتل عام تمام گناہ بخشوا دیتا ہے اور عیسائی لڑکیوں کو مسلمانوں کی قید سے آزاد کرائو گے تو سیدھے جنت میں جائو گے ۔ میں نے پادری سے پوچھا کہ خدا کہاں ہے ؟اس نے جو جواب دیا ، اس سے میری تسلی نہ ہوئی ۔ میں نے صلیب پر ہاتھ رکھکر حلف اُٹھایا۔ہمیں باہر نکالا گیا ، مجھے میرے گھر لے گئے ۔ میرے گھر والوں کوانہوں نے بہت سی رقم دی ۔ میں مطمئن ہو گیا۔ اب میرے دوستو ! مجھے اپنا حلف پورا کرنا ہے ۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ میرا خدا کہاں ہے ۔ کیاایک مسلمان بادشاہ کو قتل کر کے خدا نظر آ جائے گا ”۔

” تم پاگل ہو ” کمانڈر نے کہا ۔”تم نے جتنی باتیں کی ہیں ، ان میں مجھے عقل کی ذرا سی بھی بو نہیں آئی ”۔

” اس نے بڑی اچھی باتیں کیں ہیں ”۔اس کے ایک ساتھی نے کہا ۔”میں اس کا ساتھ دوں گا ”۔

” مجھے ایک لڑکی کی ضرورت ہے ” ۔ میگنا نا ماریوس نے لڑکیوں کی طرف دیکھ کر کہا ۔” میں لڑکی کی جان اور عزت کا ذمہ دار ہوں ۔ لڑکی کے بغیر میں صلاح الدین ایوبی تک نہیں پہنچ سکوں گا ۔ میں جب سے آیا ہوں ۔ سوچ رہا ہوں کہ صلاح الدین ایوبی کے ساتھ تنہائی میں کس طرح مل سکتا ہوں ”۔

موبی اُٹھ کر اس کے ساتھ جا کھڑی ہوئی اور بولی … … ” میں اس کے ساتھ جائوں گی ”۔

” ہم تمہیں بڑی مشکل سے آزاد کرا کے لائیں ہیں موبی !” کمانڈر نے کہا …… ” میں تمہیں ایسی خطرناک مہم پر جانے کی اجازت نہیں دے سکتا ”۔

مہم پر جانے کی اجازت نہیں دے سکتا ”۔

” مجھے اپنی عصمت کا انتقام لینا ہے ”۔ موبی نے کہا …… ” میں صلاح الدین ایوبی کی خواب گاہ میں آسانی سے داخل ہو سکتی ہوں ۔ مجھے معلوم ہے کہ مسلمان کا رُتبہ جتنا اونچا ہوتا ہے ، وہ خوبصورت لڑکیوں کا اتنا ہی شیدائی ہو جاتا ہے ۔ صلاح الدین ایوبی کو محسوس تک نہ ہوگا کہ وہ اپنی زندگی میں آخری لڑکی دیکھ رہا ہے ”۔

بہت دیر بحث اور تکرار کے بعد میگنا نا ماریوس اپنے ایک ساتھی اور موبی کے ساتھ اپنی پارٹی سے رخصت ہوا ۔ سب نے انہیں دعائوں کے ساتھ الوداع کہا ۔انہوں نے دو اونٹ لیے ۔ ایک پر موبی سوائی ہوئی اور دوسرے پر دونوں مرد ۔ اُن کے پاس مصر کے سکے تھے اور سونے کی اشرفیاں بھی ۔ دونوں مردوں نے چغے اوڑھ لیے تھے ۔ میگنا نا ماریوس کی داڑھی خاصی لمبی ہو گئی تھی ۔ قید خانے میں دھوپ میں مشقت کر کرکے اس کا رنگ اٹلی کے باشندوں کی طرح گورا نہیں رہا تھا ۔ سیاہی مائل ہوگیا تھا ۔اس سے اس پر یہ شک نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ یورپی ہے ۔ بھیس بدلنے کے لیے انہیں کپڑے دے کر بھیجا گیا تھا ، مگر ایک رکاوٹ تھی جس کا بظاہر کوئی علاج نہیں تھا ۔ وہ یہ کہ میگناناماریوس اٹلی کی زبان کے سوا اور کوئی زبان نہیں جانتا تھا ۔ موبی مصر کی زبان بول سکتی تھی ۔ دوسرا جو آدمی ان کے ساتھ گیاتھا ، وہ بھی مصر کی زبان نہیں جانتا تھا ۔ انہیں اس کا کو ئی علا ج کرنا تھا ۔

وہ رات کو ہی چل پڑے ۔ موبی راستے سے واقف ہو چکی تھی ۔ وہ قاہر ہ سے ہی آئی تھی ۔ میگنا نا ماریوس نے اس پر بھی ایک چغہ ڈال دیا اور اس کے سر پر دوپٹے کی طرح چادر اوڑھ دی ۔

٭ ٭ ٭

صبح کی روشنی میں سلطان ایوبی کے اُن سواروں کا دستہ جو اُن کے تعاقب میں گیاتھا ، گھوڑوں کے کھرے دیکھ کر روانہ ہوگیا ۔ یہ بہت سے گھوڑوں کے نشان تھے ، جو چھپ ہی نہیں سکتے تھے ۔ صبح سے پہلے صلیبیوں کے پارٹی لڑکیوں کو ساتھ لے کر چل پڑی ۔اُن کی رفتار خاصی تیز تھی ۔ ان کے تعاقب میں جانے والوں کا سفر رُک گیا ، کیونکہ رات کے وقت وہ زمین کو دیکھ نہیں سکتے تھے ، مگر صلیبیوں نے سفر جاری رکھا ۔ وہ آدھی رات کے وقت پڑائو کر نا چاہتے تھے ، وہ بہت جلدی میں تھے ۔

صبح کے دھندلکے میں صلیبی جو آدھی رات کے وقت رُکے تھے ، چل پڑے ۔ اُن کے تعاقب میں جانے والوں کی پارٹی صبح کی روشنی میں روانہ ہوئی ۔ میگناناماریوس نے عقل مندی کی تھی کہ وہ اونٹوں پر گیا تھا ۔ اونٹ بھوک اور پیاس کی پرواہ نہیں کرتا ۔ رُکے بغیر گھوڑے کی نسبت بہت زیادہ سفر کر لیتا ہے ۔ اس سے میگناناماریوس کا سفر تیز ی سے طے ہو رہا تھا ۔

سورج غروب ہونے میںابھی بہت دیر تھی ، جب انہیں لاشیں نظر آئیں ۔ علی بن سفیان کے نائب نے بالیان کی لاش پہچان لی ۔ اُس کا چہرہ سلامت تھا ۔ اُس کے قریب اس کے چھ دوستوں کی لاشیں پڑی تھیں ۔ گِدھوں اور درندوں نے زیادہ تر گوشت کھا لیا تھا ۔ سوار حیران تھے کہ یہ کیا معاملہ ہے ۔ خون بتا تا تھا کہ انہیں مرے ہوئے زیادہ دِن نہیں گزرے ۔ اگر یہ بغاوت کی رات مرے ہوتے تو خون کا نشان تک نہ ہوتا اور اُ ن کی صرف ہڈیاں رہ جاتیں ۔ یہ ایک معمہ تھا جسے کوئی نہ سمجھ سکا ، وہاں سے پھر گھوڑوں کے نشان چلے ۔ سواروں نے گھوڑے دوڑا دئیے ۔ نصف میل تک گئے تو اونٹوں کے پائوں کے نشان بھی نظر آئے ۔ وہ بڑھتے ہی چلے گئے ۔ سورج غروب ہوا تو بھی نہیں رُکے ، کیونکہ اب مٹی کے اونچے نیچے ٹیلوں کا علاقہ شروع ہو گیا تھا ، جس میں ایک راستہ بل کھاتا ہوا گزرتا تھا ۔ اس کے علاوہ وہا ں سے گزرنے کا اور کوئی راستہ نہیں تھا ۔

صلیبی اسی راستے سے گزرے تھے اور بحیرئہ روم کی طر ف چلے جا رہے تھے ۔ ٹیلوں کا علاقہ دُور تک پھیلا ہوا تھا ، وہاں سے تعاقب کرنے والے نکلے تو رُک گئے ، کیونکہ آگے ریتلا میدان آ گیا تھا ۔

صبح کے وقت چلے تو کسی نے کہا کہ سمندر کی ہوا آنے لگی ہے ۔ سمندر دُور نہیں تھا مگر صلیبی ابھی تک نظر نہیں آئے تھے ۔ راستے میں ایک جگہ کھانے کے بچے کھچے ٹکڑوں سے پتہ چلا کہ رات یہاں کچھ لوگ رُکے تھے ۔ گھوڑے بھی یہاں باندھے گئے تھے ۔ پھر یہ گھوڑے وہاں سے چلے ۔ زمین کو دیکھ تعاقب کرنے والوں نے گھوڑوں کوایڑ یں لگا دیں۔ سورج اپنا سفر طے کرتا گیا اور آگے نکل گیا ۔ گھوڑوں کو ایک جگہ آرام دیا گیا ۔ پانی پلایا اور یہ دستہ روانہ ہو گیا ۔ سمندر کی ہوائیں تیز ہوگئی تھیں اور ان میں سمندر کی بُو صاف محسوس ہوتی تھی ۔ پھر ساحل کی چٹانیں نظر آنے لگیں۔ زمین بتا رہی تھی کہ گھوڑے آگے آگے جا رہے ہیں اور یہ بے شمار گھوڑے ہیں ۔

ساحل کی چٹانیں گھوڑوں کی رفتار سے قریب آرہی تھیں ۔ تعاقب کرنے والوں کو ایک چٹان پر دو آدمی نظر آئے ۔ وہ اس طرف دیکھ رہے تھے ۔ وہ تیزی سے سمندر کی طرف اُتر گئے ۔ گھوڑے اور تیز ہو گئے ۔ چٹانوں کے قریب گئے تو انہیں گھوڑے روکنے پڑے ، کیونکہ کئی جگہوں سے چٹانوں کے پیچھے جایا جا سکتا تھا ۔ایک آدمی کو چٹان پر چڑھ کر آگے دیکھنے کو بھیجا گیا ۔ وہ آدمی گھوڑے سے اُتر کر دوڑتا گیا اور ایک چٹان پر چڑھنے لگا ۔ اوپر جا کر اس نے لیٹ کر دوسری طرف دیکھا اور پیچھے ہٹ آیا ۔ وہیں سے اس نے سواروں کو اشارہ کیا کہ پیدل آئو ۔ سوار گھوڑوں سے اُترے اور دوڑتے ہوئے چٹان تک گئے ۔ سب سے پہلے علی بن سفیان کا نائب اوپر گیا ۔ اس نے آگے دیکھا اور دوڑ کر نیچے اُترا۔ اس نے اپنے دستے کو بکھیر دیا اور انہیں مختلف جگہوں پر جانے کو کہا ۔

دوسری طرف سے گھوڑوں کے ہنہنانے کی آوازیں آرہی تھیں ۔ صلیبی وہاں موجود تھے ۔ یہ وہ جگہ تھی، جہاں سمندر چٹانوں کو کاٹ کر اندر آجاتا تھا ۔ اس پارٹی نے اپنی کشتی وہاں باندھی تھی ۔وہ گھوڑوں سے اُتر کر کشتی میں سوار ہو رہے تھے ۔ کشتی بہت بڑی تھی ۔ لڑکیاں کشتی میں سوار ہو چکی تھیں ۔ گھوڑے چھوڑ دئیے گئے تھے ۔ اچانک اُن پر تیر برسنے لگے ۔ تمام کو ہلاک نہیں کرنا تھا ۔ انہیں زندہ پکڑنا تھا ۔ بہت سے کشتی سے کود گئے اور کشتی کے چپو مارنے لگے ۔ پیچھے جو رہ گئے وہ تیروں کا نشانہ بن گئے تھے ۔ کشتی میں جانے والوں کو للکارا گیا ، مگر وہ نہ رُکے ، وہاں سمندر گہرا تھا ۔ کشتی آہستہ آہستہ جاری تھی ۔ اِدھر سے اشارے پر تیر اندازوں نے کشتی پر تیر برسا دئیے ۔ چپوئوں کی حرکت بند ہو گئی ۔ تیروں کی دوسری باڑ گئی ، پھر تیسری اور چوتھی باڑ لاشوں میں پیوست ہوگئی ۔ اُن میں اب کوئی بھی زندہ نہیں تھا ۔ کشتی وہیں ڈولنے لگی ۔ سمندر کی موجیں ساحل کی طرف آتیں اور چٹانوں سے ٹکڑا کر واپس چلی جاتی تھیں ۔ ذرا سی دیر میں کشتی ساحل پر واپس آگئی ۔ سوارو ں نے نیچے جا کر کشتی پکڑ لی ، وہاں صرف لاشیں تھیں ، بعض کو دو دو تیر لگے تھے ۔

کشتی کو باندھ دیا گیا اور سواروں کا دستہ محاذ کی طرف روانہ ہوگیا ۔ کیمپ دُور نہیں تھا ۔
میگنا نا ماریوس قاہرہ کی ایک سرائے میں قیام پذیر تھا ۔ اس سرائے کا ایک حصہ عام اور کمترمسافروں کے لیے تھا اور دوسرا حصہ امراء اور اونچی حیثیت کے مسافروں کے لیے ۔ اس حصے میں دولت مند تاجر بھی قیام کرتے تھے ۔ اُن کے لیے شراب اور ناچنے گانے والیاں بھی مہیا کی جاتی تھیں ۔ میگنا نا ماریوس اسی خاص حصے میں ٹھہرا ۔ موبی کو اُس نے اپنی بیوی بتایا اور اپنے ساتھی کو معتمد ملازم ۔ موبی کی خوبصورتی اور جوانی نے سوائے والوں پر میگنا نا ماریوس کا رعب طاری کر دیا ۔ ایسی حسین اور جوان بیوی کسی بڑے دولت مند ہی کی ہو سکتی تھی ۔ سرائے والوں نے اس کی طرف خصوصی توجہ دی ۔ موبی نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے صلاح الدین ایوبی کے گھر اور دفتر کے متعلق معلومات حاصل کر لیں ۔ اس نے یہ بھی معلوم کر لیا کہ سلطان ایوبی نے سوڈانیوں کو معافی دے دی ہے اور سوڈانی فوج توڑ دی ہے ۔ اسے یہ بھی پتہ چل گیاکہ سوڈانی سالاروں اور کمانداروںوغیرہ کے حرم خالی کر دئیے گئے ہیں اور یہ بھی کہ انہیں زرعی زمینیں دی جارہی ہیں ۔

یہ میگنا نا ماریوس کی غیر معمولی دلیری تھی یا غیر معمولی حماقت کہ وہ اس ملک کی زبان تک نہیںجانتاتھا ۔ پھر بھی انتے خطرناک مشن پر آگیا تھا ۔ اُسے اس قسم کے قتل کی اور اتنے بڑے رتبے کے انسان تک رسائی حاصل کرنے کی کوئی ٹریننگ نہیں دی گئی تھی ۔ وہ ذہنی لحاظ سے انتشار اور خلفشار کا مریض تھا ، پھر بھی وہ صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنے آیا، جس کے اردگرد محافظوں کا پورا دستہ موجود رہتا تھا۔ اس کے دستے کے کمانڈر نے اسے کہا تھا کہ تم پاگل ہو، تم نے جتنی باتیں کی ہیں ۔ ان میں ذرا سی بھی عقل کی بو نہیں آئی ۔ مظاہر میگنا نا ماریوس پاگل ہی تھا ۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بڑے آدمیوں کو قتل کرنے والے عموماً پاگل ہوتے ہیں ۔ اگر پاگل نہیں تو اُن کے ذہنی توازن میں کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہوتی ہے ۔ یہی کیفیت اٹلی کے اس سزا یافتہ آدمی کی تھی ۔ اس کے پاس ایک ہتھیار ایسا تھا جو ڈھال کا کام بھی دے سکتا تھا ۔ یہ تھی موبی ۔ موبی مصر کی صرف زبان ہی نہیں جانتی تھی ، بلکہ اُسے اور اس کی مری ہوئی چھ ساتھی لڑکیوںکو مصری اور عربی مسلمانوں کے رہن سہن، تہذیب و تمدن اور دیگر معاشرتی اونچ نیچ کے متعلق لمبے عرصے کے لیے ٹریننگ دی گئی تھی ۔ وہ مسلمان مردوں کی نفسیات سے بھی واقف تھی ۔ اداکاری کی ماہر تھی اور سب سے بڑی خوبی یہ کہ وہ مردوں کو انگلیوں پر نچانا اور بوقتِ ضرورت اپنا پورا جسم ننگا کرکے کسی مرد کو پیش کرنا جانتی تھی ۔

یہ تو کوئی بھی نہیں بتا سکتا کہ بند کمرے میں میگنا نا ماریوس ، موبی اور ان کے ساتھی نے کیاکیا باتیں کیں اور کیا منصوبہ بنایا ۔ البتہ ایسا ثبوت پرانی تحریروں میں ملتا ہے کہ تین چار روزسرائے میں قیام کے بعد میگنا نا ماریوس باہر نکلا ، تو اس داڑھی دُھلی دھلائی تھی ۔ اس کے چہرے کا رنگ سوڈانیوں کی طرح گہرا بادامی تھا ، جو مصنوعی ہو سکتا تھا ، لیکن مصنوعی لگتا نہیں تھا ۔ اس نے معمولی قسم کا چغہ اور سر پر معمولی قسم کا رومال اورعمامہ باند ھ رکھا تھا ۔ موبی سر سے پائوں تک سیاہ برقعہ نما لبادے میں تھی اور اس کے چہرے پر باریک نقاب اس طرح پڑا تھا کہ ہونٹ اور ٹھوڑی ڈھکی ہوئی تھی خ پیشانی تک چہرہ ننگا تھا۔ پیشانی پر اس کے بھورے ریشمی بال پڑے ہوئے تھے اور اس کا حسن ایسا نکھرا ہوا تھاکہ راہ جاتے لوگ رُک کر دیکھتے تھے۔ ان کا ساتھی معمولی سے لباس میں تھا ، جس سے پتہ چلتا تھا کہ نوکر ہے۔ سرائے کے باہر دو نہایت اعلیٰ نسل کے گھوڑے کھڑے تھے ۔ یہ سرائے والوں نے میگنا نا ماریوس کے لیے اُجرت پر منگوائے تھے ، کیونکہ اُس نے کہا تھا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ سیر کے لیے جانا چاہتا ہے ۔ میگنا نا ماریوساور موبی گھوڑوں پر سوار ہوگئے اور جب گھوڑے چلے تو ان کاساتھی نوکروں کی طرح پیچھے پیچھے چل پڑا ۔

صلاح الدین ایوبی اپنے نائبین کو سامنے بٹھائے سوڈانیوں کے متعلق احکامات دے رہا تھا ۔ وہ یہ کام بہت جلدی ختم کرنا چاہتا تھا ،کیو نکہ اُس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ سلطان زنگی کی بھیجی ہوئی فوج، مصر کی نئی فوج اور وفادار سوڈانیوں کو ساتھ ملا کر ایک فوج بنائے گا اور فوری طور پر یروشلم پر چڑھائی کرے گا ۔ بحیرئہ روم کی شکست کے بعد ، جبکہ سلطان زنگی نے فرینکوں کو بھی شکست دے دی تھی ، ایک لمبے عرصے تک صلیبیوں کے سنبھلنے کا کوئی امکان نہیں تھا ۔ ان کے سنبھلنے سے پہلے ہی سلطان ایوبی ان سے یروشلم چھین لینے کا منصوبہ بنا چکا تھا ۔ اس سے پہلے وہ سوڈانیوں کو زمینوں پر آباد کر دینا چاہتا تھا ، تا کہ کھیتی باڑی میں اُلجھ جائیں اور ان کی بغاوت کا امکان نہ رہے ۔

نئی فوج کی تنظیمِ نو اور ہزار سوڈانیوں کو زمینوں پر آباد کرنے کا کام آسان نہیں تھا ۔ ان دونوں کاموں میں خطرہ یہ تھا کہ سلطان ایوبی کی فوج اوراپنی انتظامیہ میں ایسے اعلیٰ افسر موجود تھے جو اُسے مصر کی امارت کے سرابراہ کی حیثیت سے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ سوڈانیوں کی فوج کو توڑ کربھی سلطان ایوبی نے اپنے خلاف خطرہ پیدا کر لیا تھا ۔ اس فوج کے چندایک اعلیٰ حکام زندہ تھے ۔ انہوں نے سلطان ایوبی کی اطاعت قبول کر لی تھی ، مگر علی بن سفیان کی انٹیلی جنس بتا رہی تھی کہ بغاوت کی راکھ میں ابھی کچھ چنگاریاں موجود ہیں ۔

انٹیلی جنس کی رپورٹ یہ بھی تھی کہ ان باغی سربراہوں کی اپنی شکست کا اتنا افسوس نہیں ، جتنا صلیبیوں کی شکست کا غم ہے ، کیونکہ وہ بغاوت دب جانے کی بعد بھی صلیبیوں سے مدد لینا چاہتے تھے اور مصرکی انتظامیہ اور فوج کے دو تین اعلیٰ حکام کو سوڈانیوں کی شکست کا افسوس تھا ، کیونکہ وہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ صلاح الدین ایوبی مارا جائے گا ییا بھاگ جائے گا ۔ یہ ایمان فروشوں کا ٹولہ تھا ، لیکن سلطان ایوبی کاایمان مضبوط تھا ۔ اس نے مخالفین سے واقف ہوتے ہوئے بھی اُن کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی ۔ اُن کے ساتھ نرمی اورخلوص سے پیش آتا رہا۔ کسی محفل میں اُس نے ان کے خلاف کوئی بات نہ کی اورجب کبھی اس نے ماتحتوں سے اور فوج سے خطاب کیا توایسے الفاظ کبھی نہ کہے کہ میں اپنے مخالفین کو مزہ چکھادوں گا۔ کبھی دھمکی آمیز یا طنزیہ الفاظ استعمال نہیں کیے ۔ البتہ ایسے الفاظ اکثر اس کے منہ سے نکلتے تھے ……” اگر کسی ساتھی کو ایمان بیچتا دیکھو تو اُسے روکو ۔ اسے یاد دلائو کہ وہ مسلمان ہے اور اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کرو تاکہ وہ دشمن کے اثر سے آزاد ہوجائے ” …… لیکن در پردہ مخالفین کی سر گرمیوں سے باخبر رہتا تھا ۔ علی بن سفیان کا محکمہ بہت ہی زیادہ مصروف ہوگیا تھا ۔ سلطان ایوبی کو زیرِ زمین سیاست کی اطلاعیں باقاعدگی سے دی جارہی تھیں ۔

اب اس محکمے کی ذمہ داری اور زیادہ بڑھ گئی تھی۔ محافظوں اور شتربانوں کے قتل کی اطلاع بھی قاہرہ آچکی تھی ۔ اس سے پہلے جاسوسوں کا گروہ جس میں لڑکیاں بھی تھیں ۔ محافظوں سے نا معلوم افراد نے آزاد کرالیا تھا ۔ ان دو واقعات نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ ملک میں صلیبی جاسوس اور چھاپہ مار موجود ہیں اور یہ بھی ظاہر ہوتا تھا کہ انہیں یہاں کے باشندوں کی پشت پناہی اور پناہ حاصل ہے ۔ ابھی یہ اطلاع نہیں پہنچی تھی کہ چھاپہ مار وں اور لڑکیوں کو عین اس وقت ختم کر دیا گیا ہے ، جب وہ کشتی میں سوار ہو رہے تھے ۔ چھاپہ ماروں کی سرگرمیوں کوروکنے کے لیے فوج کے دو دستے سارے علاقے میں گشت کے لیے گزشتہ شام روانہ کر دئیے گئے اور انٹیلی جنس کے نظام کو اور زیادہ وسیع کر دیاگیاتھا ۔

صلاح الدین ایوبی قدرے پریشان بھی تھا ۔ وہ کیا عزم لے کر مصر میں آیاتھا اور اب سلطنت اسلامیہ کے استحکام اور وسعت کے لیے اس نے کیا کیا منصوبے بنائے تھے ، مگر اُس کے خلاف زمین کے اوپرسے بھی اور زمین کے نیچے سے بھی ایسا طوفان اُٹھا تھا کہ اسکے منصوبے لرزنے لگے تھے ۔ اُسے پریشانی یہ تھی کہ مسلمان کی تلوار مسلمان کی گردن پر لٹک رہی تھی ۔ ایمان کا نیلام ہونے لگا تھا ۔سلطنت اسلامیہ کی خلافت بھی سازشوں کے جال میں اُلجھ کر سازشوں کا حصہ اور آلئہ کار بن گئی تھی ۔ زن اور زر نے عرب سر زمین کو ہلاڈالاتھا ۔ سلطان ایوبی اس سے بھی بے خبر نہیں تھا کہ اسے قتل کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں ، لیکن اس پر وہ کبھی پریشان نہیں ہواتھا ۔ کہا کرتا تھا کہ میری جان اللہ کے ہاتھ میںہے ۔ اس کی ذاتِ باری کوجب زمین پرمیرا وجود بیکار لگے گاتو مجھے اُٹھالے گا۔لہٰذا اس نے اپنے طور پر اپنی حفاظت کا کبھی فکر نہیں کیاتھا۔ یہ تو اُس کی فوجی انتظامیہ کا بندو بست تھا کہ کہ اسکے گرد محافظوں کے دستے اور انٹیلی جنس کے آدمی موجود رہتے تھے اور علی بن سفیان تو اس معاملے میں بہت چوکس تھا ۔ایک تو یہ اُس کی ڈیوٹی تھی ، دوسرے یہ کہ وہ سلطان ایوبی کو اپنا پیرو مُرشد ضرور سمجھتا تھا ۔

(جاری ھے)

(صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ داستان ایمان فروشوں کی سلطان صلاح الدین ایوبی کی جنگی مہمات پر لکھا گیا انتہای سحر انگیز ناول ہے، سلطان صلاح الدین یوسف بن ایوب ایوبی سلطنت کے بانی تھے سلطان 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔سلطان صلاح الدین نسلاً کرد تھے اور 1138ء میں کردستان کے اس حصے میں پیدا ہوۓ جو اب عراق میں شامل ہے ،شروع میں وہ سلطان نور الدین زنگی کے یہاں ایک فوجی افسر تھے۔ مصر کو فتح کرنے والی فوج میں صلاح الدین بھی موجود تھے اور اس کے سپہ سالار شیر کوہ صلاح الدین کے چچا تھے۔ مصر فتح ہو جانے کے بعد صلاح الدین کو 564ھ میں مصر کا حاکم مقرر کردیا گیا۔ اسی زمانے میں 569ھ میں انہوں نے یمن بھی فتح کرلیا۔ نور الدین زنگی کے انتقال کے بعد صلاح الدین حکمرانی پر فائز ہوۓ)

شئیر کریں جزاکم اللہ خیرا۔

مزید پڑھیں: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔۔ دسویں قسط
مزید پڑھیں: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔۔ آٹھویں قسط