گوانتانا موبے کا جہنم،سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف پر امریکی مظالم کی کہانی۔۔۔ پندرہویں قسط

بدن کی گرمائش کے لیے چھلانگیں:

سخت سردی کی وجہ سے اکثر قیدی بیٹھ کر سوتے تھے۔ بیت الخلا بھی کھلا تھا اور پردے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ بدن کی گرمائش کیلیے قیدی اکثر چھلانگیں لگاتے تھے یعنی ایک جگہ کھڑے ہو کر جمپنگ کیا کرتے تھے۔واش روم میں ٹائلٹ پیپر ہوتا نہ پانی اس لیے اکثر قیدی پینے کا پانی اپنی صفائی کے لیے رکھ دیتے اور پانی اس لیے بھی کم پیتے تاکہ پیشاب نہ آئے اسی وجہ سے روٹی بھی کم کھاتے تاکہ لیٹرین کی ضرورت پیش نہ آئے۔ اس کیمپ میں پلیٹ کی بجائے ہاتھ میں کھانا دیا جاتا تھا۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں سے اسی طرح کی سلوک کی توقع رکھی جا سکتی تھی۔ مجھے اس کیمپ میں کم از کم ایک مہینہ رکھا گیا۔ جو قیدی فوجیوں کے ساتھ الجھتے ان کی قید میں پانچ مہینے توسیع کر دی جاتی تھی۔گوانتاناموبے میں ایک بلاک پاگلوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ جس میں تنگ آکر بعض قیدی خودکشی کر لیتے۔ خود کشی کے واقعات بڑھ گئے تو قیدیوں کو زنجیروں سے باندھ کر رکھا جانے لگا اور نشہ آور چیز کھلا کر یاانجکشن لگا کر ان کو بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا۔

ڈیلٹا کادوسرا اور تیسرا کیمپ:

بعد میں دو مزید کیمپ بن گئے۔ایک بہت سخت تھا جبکہ دوسرے میں زندگی نسبتا آسان تھی۔ ایک کیمپ کو فورتھ کا نام دیا گیا اور آخری کیمپ کو فیفتھ کہا گیا۔آخری کیمپ میں بہت سختیاں تھیںَ۔ یہاں زندگی گزارنے کے لیے پہاڑ جتنے حوصلے کی ضرورت تھی۔ اکثر قیدیوں کو اس کیمپ سے یا تو منتقل کر دیا جاتا یاپھر رہا کردیا جاتا۔ ایک فوجی کی میرے ساتھ گپ شپ تھی۔ اس نے بھی مجھ سے یہ بات چھپائی کہ ان قیدیوں کو کہاں منتقل کیا جاتا ہے۔جو بھائی پانچویں کیمپ سے واپس لایا جاتا تو وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیاہوتا۔ ہم اس کی شکل سے ڈرتے۔ اس کیمپ کو قیدی’’پانچویں قبر‘‘ کہتے تھے۔میں نے ایک مرتبہ بوسنیا کے شیخ جابر سے پوچھا کہ آپ کس کیمپ میں ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا ’’میں زندگی کی قبر میں ہوں۔‘‘

چوتھا کیمپ:

چوتھا کیمپ اس لیے بنایا گیاتھا تاکہ جن قیدیوں کو رہا کیا جاتا ہے تو یہاں رکھ کر ان کی صحت بحال کی جا سکے۔ شاید اسی مقصد کے لیے قیدیوں کو پورا کھانا اور وافر مقدار میں فروٹ دیا جاتا۔ اس کیمپ میں200افراد کی گنجائش تھی اور فوجیوں کا سلوک ٹھیک تھا۔ یہاں ہر کمرہ دس افراد کے لیے تھا۔ بلاکوں کے سامنے کھانے اور واک کرنے کی بڑی جگہیں تھیںَ باجماعت نمازپڑھنے اور ورزش کرنے کی یہاں اجازت تھی ہر کمرے میں دو دو پنکھے لگے ہوتے۔ چوبیس گھنٹوں میں ایک بار نمائشی فلم میں دکھائی جاتی اکثر قیدی فلم دکھانے اور دیکھنے کی مخالفت کرتے تھے۔ایک مرتبہ تو ایک عرب بھائی نے ٹی وی توڑ دیا تھا۔ ایک اسکول بھی کھولا گیا تھا اور اس اسکول کے بعض طلباء کی عمر70 سال سے زیادہ تھی۔ طبی چیک اپ کا نظام بھی اچھا تھا۔ فٹ بال، والی بال اور بیڈمنٹن کھیلنے کی اجازت تھی۔ جب کوئی وفد آتا تو کھیلوں کی سرگرمیاں منسوخ ہوجاتیں۔

50لاکھ ڈالر کی رشوت:

ایک دن ایک فرنچ کٹ ڈاڑھی والا تفتیش کار آیا اس نے مجھے کہا کہ آپ کیلیے خصوصی طور پر واشنگٹن سے آیا ہوں۔ مجھے وہ مداری لگتا تھا۔ قریب آیا اور میرے ہاتھ ہاؤں ایسے دیکھنے لگا جیسے کوئی ڈاکٹر ہو۔ میرے زخموں کے نشانات دیکھ کر افسوس کرنے لگا اور پوچھنے لگا کہ ان ظالموں (امریکیوں) نے آپ کو اتنا سخت باندھ کر رکھا؟ ان کو رحم کیوں نہ آیاْ کیوں کیوں کیوں؟ اس کے بعد اس نے میری طرف دیکھ کر کہا ’’میں آپ کے لیے بڑی خوشخبری لایا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم نے آپ کے لیے پانچ ملین ڈالر مختص کیے ہیں۔ آپ اپنا بینک اکاؤنٹ نمبر دیں۔ اس رقم پر صرف اور صرف آپ کا اختیار ہوگا آپ کے پاس گاڑی ہوگی اپنا ذاتی بنگلہ ہوگا اور آپ کاشمار کابل کے امیر ترین لوگوں میں ہوگا۔‘‘

مجھے یہ سن کر کابل میں مشہور بل اور چوہے کا لطیفہ یاد آگیا کہ اتنا مختصر سفر اور اتنا زیادہ فائدہ؟ ساتھ ہی اپنا بچپن بھی یاد آگیا جب ہم مٹی کے گھروندھے بناتے، محل بناتے، ان میں شادیاں کراتے اور اپنی سلطنت بناتے تھے۔ میں نے پوچھا ‘‘میرے اوپر اتنا احسان آپ کیوں کرنا چاہتے ہیں؟‘‘اس نے کہا ’’ہمارے لیے کام کرو۔ ہم جو کہیں ہو مانو پھر عیش کرو‘‘میں نے کہا ’’ میرے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا سب کچھ ہے۔ آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے بھی آپ کے سوالوں کا جواب سچ سچ دیا ہے اب بھی سچ ہی کہوں گا۔ مجھے اور کچھ نہیں صرف آزادی چاہئے اور بس ۔ دوسرا یہ کہ میرا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں ہے‘‘ اس طرح چار گھنٹے بحث کے بعد وہ چلا گیا۔ مجھے رہائی نصیب ہوئی اور نہ کوئی پیسہ ملا۔

اطاعت کرو گے تو زندگی آسان ہو جائے گی:

وفد کے لوگ آتے، ہماری اور کمروں کی تصاویر بناتے، ہمیں ان سے بات کرنے کی اجازت نہ تھی۔ ان میں اکثر امریکی سینیٹرز، صحافی اور سیاح ہوتے۔ اس کیمپ کا یونیفارم سفید رنگ کا تھا۔ زیر جامہ اور بنیان بھی دی جاتی یونیفارم کے تین جوڑے دیئے جاتے۔ جنہیں خود دھونے کی اجازت تھی۔ صابن اور شیمپو بھی دیا جاتا تھا۔ کوئی قیدی کیمپ کے ابتدائی حصے میں منتقل ہو جاتا تو اس کی رہائی کی بات پھیل جاتی۔ ہمیں بھی یقین ہوتا کہ اب اس کو رہا کر دیا جائے گا اور امریکی بھی کہتے کہ کیمپ کے اس حصے میں ایک مہینے سے زیادہ کسی کو قید نہیں رکھا جاتا اور اس کے بعد اس کو رہا کر دیا جاتا ہے۔ مگر بعض اوقات یہ ایک مہینہ برسوں میں تبدیل ہو جاتا۔ امریکیوں کی یہ وعدہ خلافی اور جھوٹ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہ تھی۔ہر بلاک کے دروازے پر قواعد و ضوابط یا ہدایت نامہ درج ہوتے تھے۔ ان میں لکھا ہوتا تھا کہ ہماری اطاعت کرو گے تو زندگی آسان ہوگی۔ امتیازی سلوک آپ کا حق نہیں مگر اطاعت کرنے والوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر مزید سختیوں کے لیے تیار رہو۔

گندمی رنگ والے امریکی فوجی:

گوانتاناموبے میں فوجیوں کے گروپ بدلتے رہتے تھے۔ ان میں اچھے لوگ بھی ہوتے اور برے بھی۔ ہر چھے مہینے بعد فوجی بدل جاتے۔ زیادہ تر فوجی ہماری حالت زار پر افسوس کرتے اور ہماری درد بھری داستانیں سن کر کہتے کہ امریکی حکومتی عہدیدار ہمیں صحیح استعمال نہیں کر رہے اور جھوٹ بول کر ہمیں دھوکہ دے رہیں۔ یہ فوجی وعدہ کرتے تھے کہ وہ متعصب امریکی وحشیوں کے سلوک سے میڈیا کو آگاہ کریں گے۔ ہو سکتا ہے کہ بعد میں انہوں نے ایسا کیا ہو۔ ایک دن ایک بڑے فوجی افسر نے امریکیوں کا وحشی سلوک دیکھا تو رو پڑا اور کہنے لگا کہ ہم ظالم ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ خود کو مجبور اور بے بس بھی کہتا رہا۔

امریکی فوجیوں کی قسمیں:

امریکی فوجیوں کے رنگ کے لحاظ سے تین گروپ تھے۔ گندمی رنگت کے حامل فوجیوں کا سلوک اچھا تھا۔ وہ متعصب نہیں تھے۔ کالی رنگت والے دنبوں کی طرح سست، کم عقل اور غلاموں کی طرح کی طبیعت کے مالک تھے ان پڑھ قسم کے تھے اور بے تحاشا کھانا کھاتے تھے ۔یہ کالے فوجی امریکی گورے فوجیوں کے خلاف بہت شکایتیں کرتے تھے۔ ان کو گالیاں دیتے اور ان کو خود غرض اور ظالم کہتے تھے۔ کالے فوجی جب ہم سے بات کرتے تو انتہائی احتیاط سے کام لیتے تھے ہمیں کوئی چیز دیتے تو ادھر ادھر دیکھ کر چھپ کر دیتے تھے۔ سرخ امریکی فوجی فریبی اور دھوکے باز تھے۔ جھوٹ کے استاد تھے اور کالوں سے خود کو برتر محسوس کرتے تھے۔ تفتیش کار اکثر یہی سرخ امریکی ہوا کرتے تھے جبکہ چوتھے گروپ کے فوجیوں کی تعداد خاصی کم تھی۔ اس گروپ کے فوجیوں کو ’’انڈین‘‘ کہا جاتا تھا جو اصل امریکی ہیں اور امریکا دریافت ہونے سے قبل وہاں آباد تھے۔ ان کی تعلیمی سطح انتہائی کم تھی۔ اکثر فوجی نشہ کرنے والے تھے دیگر امریکی فوجی اپنے ہی ملک کے ان فوجیوں پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔ یہ فوجی بھی دوسرے امریکی فوجیوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے اور ان کو بے رحم و ظالم کہتے تھے وہ ہمیں تسلی دیتے اور مظلوم کی نظر سے دیکھتے۔

گوانتاناموبے میں امریکی فوجیوں کے مختلف گروپ :

گوانتاناموبے میں فوجیوں کے تین گروپ تھے ایک گروپ کا نشان درخت تھا۔ دوسرے کا کبوتر، تیسرے کا ہلال تھا۔ درخت کا نشان رکھنے والا گروپ اچھا سلوک کرنے والے فوجیوں پر متشمل تھا۔ یہ فوجی پروگرام کے مطابق عمل کرتے تھے۔ متعصب نہیں تھے۔ پورا کھانا اور پھل دیتے تھے۔ مریضوں کا خیال رکھتے تھے۔ نیند کے اوقات میں تنگ نہیں کرتے تھے، بے وجہ تلاشی اور تفتیش نہیں کرتے تھے۔ غسل اور چہل قدمی کا پورا وقت دیتے تھے اپنے افسروں کو جھوٹی رپورٹیں نہیں دیتے تھے ہمارے کپڑوں کا بھی خیال رکھتے تھے۔ ہتھکڑیاں اور بیڑیاں احتیاط سے پہناتے تھے ہمارے ساتھی بھی اس گروپ کے فوجیوں کے لیئے کوئی مسئلہ نہیں بناتے تھے اگر کوئی دل برداشتہ ہو کر اس گروپ کے فوجیوں سے سخت لہجے میں بات کرتا تو ہم اسے سمجھاتے کہ یہ اچھے لوگ ہین۔

کبوتر کا نشان رکھنے والے فوجی مختلف مزاج کے تھے۔ شیڈول کے مطابق کام کرتے تھے مگر نیم متعصب تھے ۔کھانے میں نا انصافی سے کام لیتے تھے اور قیدیوں کو بار بار سزائیں دیتے تھے رات کو پریشان کرتے اور پوری نیند نہ لینے دیتے مگر ان میں بھی بعض فوجیوں کا رویہ ٹھیک تھا۔ جس گروپ کا نشان ہلاک تھا اس کے فوجی پرلے درجے کے متعصب تھے ان کا اخلاقی درجہ صفر تھا قیدیوں کو ہمیشہ بھوکا رکھتے تھے۔ ان کو گندے کپڑے دیتے تھے۔ نیند کے وقت بلیوں اور کتوں کی طرح آوازیں نکال کر پریشان کرتے اور قیدیوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرکے ان کو غصہ دلاتے تھے۔ ان میں بعض فوجی ایسے تھے جن میں بعض اوقات انسانوں والی نشانیاں دیکھنے کو مل جاتی تھیں۔

ان کے علاوہ بھی تین چھوٹے گروپ تھے ان میں چابی والا گروپ، ہسپانوی گروپ اور نائن فور نامی گروپ تھا۔ ہسپانوی گروپ کے فوجیوں میں تعصب نہیں تھا ان میں بلا کی انسانی ہمدردی تھی وہ ہم سے کہتے تھے کہ ہمارے آباؤ اجداد مسلمان تھے۔ اسی وجہ سے وہ نماز کا احترام کرتے تھے قرآن کریم کی بے حرمتی نہیں کرتے تھے اور اضافی روٹی کیساتھ ساتھ پانی، شیمپو اور صابن بھی دیتے تھے۔ اس گروپ کے فوجی انتہائی مختصر مدت کے لیے وہاں رہے کیونکہ بعد میں امریکیوں کو شک ہوگیا تھا کہ وہ قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں ۔ مجھے ایک ہسپانوی فوجی نے ہٹائے جانے سے قبل بیس دن قبل کہا تھا کہ امریکی حکام ہمیں یہاں رہنے نہیں دیں گے اور کسی دوسری جگہ منتقل کر دیں گے۔

چابی والے گروپ کے فوجیوں کو انسانیت چھو کر بھی نہیں گزری تھی تعصب ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ہر وقت بداخلاقی کے مظاہرے کرتے رہے اور ہماری مذہبی شعائر کا احترام نہ کرتے تھے۔ اپنے اعلیٰ حکام کو جھوٹی رپورٹیں ارسال کرتے اور قیدیوں کو سخت سزائیں دلواتے۔ قرآن مجید کی بار بار بے حرمتی کرتے، قیدیوں کو مشتعل کرتے ان کو تشدد کا نشانہ بناتے اور رات کے وقت بے جا تلاشی لیتے اور جب قیدی محو خواب ہو جاتے تو فرش کے ساتھ اپنے بھاری بوٹ مار مار کر شور مچاتے۔ تاہم ان میں سے بھی بعض فوجی قیدیوں کی خدمت کرتے نظر آجاتے۔ 94گروپ کے فوجیوں میں شیطانی خصلتیں تھیں۔

وہ تمام کے تمام وحشی اور مغرور تھے۔ قیدیوں کی تکلیف میں خوشی محسوس کرتے تھے اور ان کو جتنی تلیف دے سکتے دیتے تھے۔ ٹیڑھے منہ بات کرتے اور اگر کوئی قیدی تکلیف سے مر بھی رہا ہوتا تو یہ اس کے قریب نہ جاتے۔ ڈاکٹروں کو مریضوں کی رپورٹ بروقت نہ دیتے تھے۔ بغیر کسی وجہ کے سزائیں دیتے تھے۔ ہر بات پر گالی دیتے تھے۔ ان کا رویہ اتنا خراب تھا کہ قیدیوں نے باقاعدہ مزاحمت شروع کر دی جس پر ان فوجیوں کووہاں سے منتقل کر دیا گیا۔ ہمارا شک تھا کہ وہ یہودی تھے اور اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے۔

جنرل ملر کا ایکو کیمپ:

یہ امریکی جنرل بہت ظالم اور متعصب تھا۔ اس نے فوجیوں کو قیدیوں کے ساتھ وحشی سلوک کرنے کی مکمل اجازت دے رکھی تھی۔ بعد میں اس کوعراق تبدیل کر دیا گیا۔ ایکو کیمپ بھی اسی نے بنایا تھا جس میں 24گھنٹے اندھیرا چھایا رہتا۔ اس کیمپ میں الگ الگ چھوٹے چھوٹے کمرے ہوتے تھے جن میں قیدی تنہا ہوتے تھے۔ یہاں قید بھائیوں کو اندھرے کے باعث دن اور ات کا پتہ نہ چلتا تھا۔ یہاں رہ کر بہت سے قیدی نفسیاتی مریض بن گئے تھے۔ قیدی یہاں پر چیختے لیکن ان کے چیخنے کی آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی تھی۔ ریموٹ کنٹرول کیمرے جگہ جگہ نصب تھے جن کے ذریعے قیدیوں کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی۔

برطانوی شہریت رکھنے والا ہمارا ایک بھائی اس کیمپ میں تین سال گزارنے کی وجہ سے شدید ڈپریشن کا مریض بن گیاتھا۔ احمد دینی تعلیم حاصل کرنے پاکستان گیا تھا مگر حکومت پاکستان نے اس کو پکڑ کر امریکا کے حوالے کر دیا۔ میرا قندھار قیدی کیمپ میں بھی پڑوسی تھا۔ انگلش روانی سے بولتا تھا۔ احمد کو بعد میں اتنے امراض لاحق ہوگئے تھے کہ وہ بالکل بے حس ہو کر رہ گیا تھا کوئی بات اس کے سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ہر وقت اپنے آپ سے باتیں کرتا رہتا ۔ گوانتاموبے میں کبھی کبھار رات کو اٹھ کر نعتیں پڑھتا اور تلاوت کرتا۔ اکثر قرآنی آیات غلط پڑھتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ مہدی علیہ السلام آرہے ہیں اس بات سے خود کو تسلی دیتا۔

یمن کے طارق عبدالرحمن، المعرف ڈاکٹر ایمن سعید آرتھو پیڈک سرجن تھے۔ ویزہ لے کر افغانستان آئے تھے۔ کابل میں الفلاح نامی این جی او میں ملازمت اختیار کرلی تھی۔ طب کے شعبے سے منسلک افراد کو قید میں نہیں رکھا جا سکتا مگر ڈاکٹر ایمن سعید کو گرفتار کرکے گوانتاناموبے پہنچا دیا گیا ان کو اتنا ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیاکہ آخر میں پاگل ہوگئے ان کی طرح اور بھی بہت سے قیدی پاگل ہوگئے تھے مگر انکو سزا باقاعدگی سے دی جاتی تھی حالانکہ پاگل اللہ تعالیٰ کے حساب کتاب سے بھی مستثنیٰ ہیں۔

افغانستان کا وفد:

ایک دن مجھے اکیلے تفتیش کے نام پر ایسی جگہ لے جا کر باندھا گیا جو میں نے پہلے نہیں دیکھی تھی۔ میں کسی تفتیش کار کا انتظارکرنے لگا مگر دیکھا کہ چند افغان باشندے آئے۔ سلام کیا اور ادھر ادھر پڑی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے اپنا تعارف افغان حکومت کے نمائندوں کے طورپر کرایا۔ ان میں قندھار اور جلال آباد سے تعلق رکھنے والے دو پختون، باقی پنج شیری تھے۔ قندھاری نے پانی کا گلاس دیاپھر سوالات پوچھناشروع کر دیئے۔سوالات وہی تھے جو امریکی پوچھتے تھے جبکہ میرے جوابات میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس دوران ایک امریکی عورت آگئی جو بار بار ان افراد کے کان میں سرگوشی کرتی اور ان کو کچھ لکھا ہوا دیتی۔ میں نے حقیقت جاننا چاہی اور ان سے پوچھا کہ آپ کے آنے کا مقصد کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم آپ کی رہائی چاہتے ہیں۔

میں نے کہا کہ آپ کا عمل اور رویہ یہ ثابت نہیں کرتا کہ آپ میری رہائی چاہتے ہیں۔ جواباً وہ سب خاموش رہے۔ میں بھی سمجھ گیا کہ وہ بے بس ہیں کیونکہ بات کرتے وقت بھی وہ چوروں کی طرح ادھر ادھر دیکھتے تھے۔ میں نے ان پر اعتماد بھی نہیں کیا کہ یہ ہمارے ملک کے حکومتی نمائندے ہوں گے کیونکہ ان کی صلاحیتیں انتہائی کم معلوم ہوتی تھیں۔ ان کے بارے میں دوسرے قیدیوں کے بھی میری طرح کے تاثرات تھے۔ بعض قیدی تو ان کے سوالوں کا جواب گالیوں کی صورت میں دیتے تھے۔ وہ تفتیش میں امریکیوں سے بھی سخت تھے اور خود کو لاعلم ظاہر کرتے تھے۔ چونکہ امریکیوں کے لیے کام کرتے تھے اس لیے قیدی بھی ان کے ساتھ نرمی نہیں برتتے تھے۔ چند دن بعد16جون2004ء کو مجھے واپس چوتھے کیمپ منتقل کر دیا گیا جہاں مجھے ایک سال اور چند مہینے رکھا گیا۔

چشم دید واقعات:

مجھے تین سال چھ مہینے تک مختلف کیمپوں اور قید خانوں میں رکھا گیا۔ اس دوران ایسے ایسے واقعات دیکھے جو دل دہلا دینے والے تھے اور جنہیں اب بھی یاد کرتا ہوں تو رونا آجاتا ہے۔ امریکی فوجی قیدیوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھتے تھے، وہ مسلمہ انسانی و بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی تھی۔ 2003ء میں رمضان المبارک میں دو دن باقی تھے، امریکی آئے اور کہا کہ رمضان المبارک کے احترام میں آپ کو دگنا کھاتا دیا جائے گا۔ افطاری کے وقت جوس اور کھجوریں بھی دی جائیں گی۔ یہ ہمارے لیے بہت خوشی کی بات تھی مگر ان کی یہ بات اعلانات تک محدود رہی۔

رمضان پیکج کی واپسی:

صبح ہوئی تو ان کا سلوک اور بھی برا ہوگیا۔ بلاک کے آخری حصے میں تین قیدیوں نے فوجیوں کے ساتھ لڑائی کی۔ ایک قیدی نے فوجی پر پانی ڈالا۔ اس کی سزا پورے کیمپ کے قیدیوں کو رمضان پیکج واپس لے کر دی گئی اور فوجیوں نے مزید وحشیانہ سلوک شروع کر دیا۔ہم نے بارہا امریکی فوجی افسروں سے کہا کہ صرف ایک شخص کی سزا باقی تمام قیدیوں کو کیوں دی جا رہی ہے؟ آپ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور رمضان المبارک کا احترام ممکن بنائیں۔ جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم فوجی ہیں اور ہمارا قانون یہ ہے کہ ایک آدمی کی سزا سب کو دیتے ہیں۔ یہ ایسا جھوٹ تھا جسے ہم خوف کے بارے جھوٹ نہیں کہہ سکتے تھے۔

قرآن کریم کی بے حرمتی اور بائیکاٹ:

ایک مرتبہ ایک بدشکل خاتون فوجی نے قیدیوں کی تلاشی کے دوران قصداً دو مرتبہ قرآن مجید کو زمین پر پھینکا۔ قیدیوں نے اسے بے حرمتی پر خاتون فوجی کو سزا دینے کا مطالبہ کیا مگر امریکی فوجی حکام نے اس مطالبے پر کان نہیں دھرا۔پہلے کیمپ کے قیدیوں نے اس ظلم پر ہڑتال شروع کر دی جس کا دوسرے اور تیسرے کیمپ کے قیدیوں نے بھی ساتھ دیا۔ قیدیوں نے نہانے کی جگہ جانے ، کپڑے بدلنے اور کھیل و تفریح کے اوقات میں باہر نکلنے کا بائیکاٹ کر دیا۔ جس پر بارہ امریکی فوجیوں نے قیدیوں پر یلغار کر دی۔ وہ قیدیوں کو پکڑ پکڑ کر ان کی مونچھیں، ڈاڑھی اور ابرو صاف ک ر دیتے۔ کسی کی آدھی ڈاڑی چھوڑ دیتے اور کسی کی ایک مونچھ۔ اس ظلم و زیادتی پر باقی قیدی اللہ اکبر کے نعرے لگاتے جبکہ بعض فوجیوں کو گالیوں اور بدعاؤں سے نوازتے۔

(نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی امن پسندقیادت کوبھی چن چن کر تحقیقات کے نام پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں انہیں جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کیاگیا تاہم ان میں سے اکثر قیدی بے گناہ ثابت ہوئے ۔ملا عبدالسلام ضعیف افغان حکومت کے حاضر سفیر کے طور پر پاکستان میں تعینات تھے لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹراور سفارت کے تمام آداب و اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو مجبور کرکیااور انکو گرفتارکرکے گوانتانہ موبے لے جاکر جس بیہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کوروا رکھا اسکو ملاّ ضعیف نے اپنی آپ بیتی میں رقم کرکے مہذب ملکوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیاتھا ۔انکی یہ کہانی جہاں خونچکاں واقعات ، مشاہدات اور صبر آزما آزمائشوں پر مبنی ہے وہاں ملاّ صاحب کی یہ نوحہ کہانی انسانیت اورامریکہ کا دم بھرنے والے مفاد پرستوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔دورحاضر تاریخ میں کسی سفیر کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ حیوانی سلوک اقوام متحدہ کا شرمناک چہرہ بھی بے نقاب کرتا ہے۔)

مزید پڑھیں: گوانتانا موبے کا جہنم،سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف پر امریکی مظالم کی کہانی۔۔۔ آخری قسط

مزید پڑھیں: گوانتانا موبے کا جہنم،سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف پر امریکی مظالم کی کہانی۔۔۔ چودہویں قسط

نوٹ: ادبستان میں چھپنے والی تحاریر سے ادارے کا متفق ہوناضروری نہیں ۔