گوانتانا موبے کا جہنم،سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف پر امریکی مظالم کی کہانی۔۔۔ آخری قسط

سعودی باشندے پر بہیمانہ تشدد:

اس دوران افواہ آئی کہ امریکی فوجیوں نے سعودی عرب کے مشعل نامی قیدی کو اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے جام شہادت نوش کر لیا یہ۔ اس افواہ سے حالات مزید سنگین ہوگئے۔ اب فوجی بڑے بڑے مضبوط ڈنڈے اٹھائے پھرتے تھے۔ ایسی گاڑیوں کا گشت مختلف کیمپوں میں شروع ہوا جن پر توپیں اور مشین گنیں نصب تھیں۔ عصر کا وقت تھا جب عربی، انگریزی اور اردو میں اعلان ہوا کہ مشعل کی حالت نازک ہے۔ ان کی صحت یابی کے لیے دعا کریں۔ اس اعلان سے قیدی بھی خاموش ہوگئے اور اس تجسس میں مبتلا ہوگئے کہ اصل حقیقت کیا ہے؟

اور پھر ہمارا ہم خیال ایک قیدی جو اسپتال سے آیا تھا نے بتایا کہ میں نے مشعل کو دیکھا ہے اس کی حالت واقعی خراب ہے اور پھر دو تین مہینے بعد پتہ چلا کہ مشعل پر فالج کا حملہ ہوگیا ہے اور اس کے تمام اعضاء شل ہوگئے ہیں۔ امریکی فوجیوں نے مشعل کو تشدد کا نشانہ کیوں بنایا تھا اس کا ہمیں آخر تک پتہ نہ چل سکا۔ مشعل نے دو سال چھ مہینے اسپتال میں گزارے ، اس کو وہیل چیئر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا تھا۔ اتنا معذور تھا کہ بغیر کسی سہارے کے نہ کھڑا ہو سکتا تھا اور نہ بیٹھ سکتا تھا۔ آخر میں اسے سعودی حکومت کے حوالے کر دیا گیا۔

چالیس دن تک سونے نہ دیا:

پہلے پہل ہر کیمپ میں کھانے اور پھل وغیرہ کی اچھی خاصی مقدار ملتی تھی۔ پھر ہر کیمپ کے انچارج نے عجیب رویہ اختیار کرنا شروع کر دیا۔ ہوا یوں کہ ایک فوجی بار بار ہر قیدی کے پاس جاتا اور کھانے کا مینو ، پسند نا پسند اور کمی بیشی کے بارے میں پوچھتا اور ایک نوٹ بک میں تحریر کرتا جاتا۔ نتیجہ اس عجیب کا یہ نکلا کہ کھانے پینے کی جو چیزیں قیدیوں کو پسند نہیں تھیں اس کی مقدار بڑھا دی گئی اور جس چیز کے بارے میں پسندیدگی کا اظہار کیا گیا اس کی مقدار کم کر دی گئی۔ خوراک کی اچھی چیزیں غائب ہوگئیں جبکہ ناکارہ اشیائے خوردنوش میں اضافہ کر دیا گیا۔ وقت کے ساتھ مشکلات بڑھتی گئیں۔

آغاز میں تفتیش یا ریڈ کراس والوں سے ملنے یا ڈاکٹر کے پاس لے جاتے وقت ایک پٹے سے باندھا جاتا جو بعد میں زنجیر میں تبدیل ہوگیا اور پھر زنجیر سے پاؤں اور ہاتھوں کو بھی باندھا جانے لگا۔ ہتھکڑی ایک کی بجائے تین تین پہنائی جانے لگیں۔ پہلے آنکھیں بند نہ کی جاتی تھیں۔ پانچویں کیمپ میں آنکھوں پر پٹی باندھنا اور کانوں میں روئی ٹھونسنا عام سی بات بن گئی تھی۔ پہلے مذہبی کتابوں پر کوئی پابندی نہیں تھی جو بعد میں عائد کر دی گئی۔ اقتصادیات، ریاضی، بیالوجی، سیاست، تاریخ اور جغرافیہ کے موضوع پر مبنی کتابیں بھی بند کر دی گئیں۔ نیند پوری نہ لینے دی جاتی۔ ملا اخوند کو40دن اور40رات تک نیند نہ کرنے دی گئی۔ ان کو سخت سردی میں بھی ائیرکنڈیشنڈ کمرے میں رکھا گیا۔

جنیوا جا کر اپنے حقوق حاصل کرو:

فوجی گھی کے خالی کنستر بجاتے تاکہ قیدی سو نہ سکیں۔ قیدیوں کو خصوصاً عرب قیدیوں کو موٹر لانچ میں بٹھا کر فل اسپیڈ کے ساتھ چلائی جاتی۔ رفتہ رفتہ علاج کی سہولتیں کم ہوتی گئیں۔ ڈاکٹر ابتدائی مراحل میں آزاد تھے اور مریض قیدیوں کو دوائیاں بھی دیتے تھے مگر رفتہ رفتہ ان پر بھی پابندیاں عائد ہوگئیں اور قیدیوں پر توجہ بالکل نہ دی جاتی۔ خون کے کینسر میں مبتلا قندھار کے ولی محمد نامی قیدی کی تکلیف سے چیخیں نکل جاتیں مگر اس کے پاس کسی معالج کو نہیں بھیجا گیا نتیجتاً اس کا سارا جسم سوج گیا۔ ہم مجبور ہوگئے کہ اس کے لیے احتجاج شروع کریں۔ ہم نے زور زور سے نعرہ تکبیر بلند کرنا شروع کر دیا اور قید خانے کی آہنی دیواروں کو مار مار کر شور مچانا شروع کر دیا جس سے فوجیوں کے اوسان خطا ہوگئے۔ فوجیوں نے اپنے افسروں کو بلایا۔ ترجمان کو لایا گیا پھر جا کر مریض کو کلینک لے جایا گیا جہاں اس کے مرض(بلڈ کینسر) کی تشخیص کی گئی۔ کینسر نے اس کے جگر کو بھی متاثر کیا تھا۔ اگر ولی محمد کا بروقت علاج ہوتا تو اس کا مرض اتنا نہ بڑھتا۔ ہم کبھی کبھار جنیوا کنونشن کے تحت اپنے حقوق یاد دلاتے تو امریکی فوجی کہتے کہ جنیوا جا کر اپنے حقوق حاصل کر لو، یہ امریکا ہے۔

مریکی فوجیوں کی صدر بش کو گالیاں:

ہم سے تفتیش کے دوران کوئی با مقصد جواب نہ پاتے اور تشدد کرکے تھک جاتے تو آخر میں خود اپنے صدر بش کو گالیاں دینا شروع کر دیتے۔ کبھی میڈیا کے لوگ یا حکومتی عہدیدار تماشا دیکھنے آتے تو سارے کیمپوں کا معائنہ کرانے کی بجائے ان کو صرف4th Campکا دورہ کرایا جاتا کیونکہ اس کیمپ کے حالات اچھے تھے۔ا یسے وفود کو دکھانے کے لیے نمائشی جگہیں بنائی گئی تھیں۔ اکثر مریضوں کو دورے کے اوقات میں نشہ دیا جاتا تھا تاکہ وہ سوئے رہیں اور امریکی وحشیانہ سلوک کا بھانڈا نہ پھوڑ سکیں۔ ایک مرتبہ چوتھے کیمپ کے دو قیدیوں نے ایک وفد کے ارکان کو بتایا کہ یہ نمائشی کیمپ ہے آپ اگر حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو پہلے دوسرے، تیسرے، پانچویں اور ایکو کیمپ کے قیدیوں اور مریضوں کا حال دیکھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم انصاف چاہتے ہیں ، ہم دہشت گرد نہیں ہیں۔ ہمیں عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ پتہ ل گے کہ کتنے بے گناہوں کو دہشت گردی کے کھاتے میں سخت ترین عذاب سے گزارا جا رہا ہے۔

امریکی فوج نے بعد میں شکایت کرنے والے بیس افراد کو سزا کا مستحق قرار دے کر ان کو چوتھے کیمپ سے باہر نکالا اور ساری مراعات اور سہولیات واپس لے لیں۔ گوانتاناموبے میں بوسنیا سے تعلق رکھنے والے شیخ جابر، ابو شیما محمد، مصطفی اور الحاج بھی قید تھے جو بہت ہی مظلوم تھے۔ ان کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ گوانتاناموبے کیوں لایا گیا اور جرم کیا ہے؟ ابو شیما کو تو سزا کے لیے پانچویں کیمپ میں بھی لے جایا گیا۔ شیخ جابر نے مجھے بتایا کہ ہم نے ہر تفتیش کار سے اپنا قصور پوچھا مگر کوئی جواب نہیں ملا۔ بعض کہتے کہ آپ امریکی مفادات کے لیے خطرہ ہیں۔ ہم ثبوت مانگتے تو کہتے کہ ثبوت ضروری نہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ نے ماضی میں کچھ کیا ہو۔ ہو سکتا ہے آپ مستقبل میں امریکی تنصیبات پر حملہ کریں اور امریکیوں کو نقصان پہنچائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان پانچوں بوسنیائی بھائیوں نے زندگی میں نہ کبھی افغانستان دیکھا تھا اور نہ کسی تنظیم سے ان کا تعلق تھا۔ ان کا گناہ صرف یہ تھا کہ انہوں نے سربوں کے خلاف جہاد کیا تھا۔

دو بے بس حکمران:

میں نے بحیثیت افغان سفیر کئی بار اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطہ کیا تھا کہ افغانستان میں طالبان قیدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا نوٹس لیا جائے اور بے گناہ افراد کو رہا کیا جائے۔ مجھے ہر بار یقین دہانیاں کرائی گئیں ۔ اپنی گرفتاری سے قبل حامد کرزئی اور جنرل پرویز مشرف دونوں سے مسلسل رابطہ رکھا اور ان سے مطالبہ کیا کہ افغانستان کے شمال میں جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان کو رہا کیا جائے اور ان سے وحشیانہ سلوک کو روکا جائے مگر دونوں بے بس نظر آتے تھے۔

پاکستانی اہلکاروں کا مک مکا:

غسان جو عرب تھا، نے بتایا کہ میں اپنے چند ساتھیوں سمیت لاہور کے ایک ہوٹل میں کرائے کے عوض کمرہ لے کر اس انتظارمیں بیٹھا تھا کہ کسی طریقے سے پاکستان سے باہر نکل سکوں۔ پاکستان سے باہر جانا آسان تھا مگر اس کے لیے رقم کی ضرورت تھی جو میرے پاس نہیں تھی۔ باہر بھجوانے کا کام پاکستانی اہلکار باقاعدہ مک مکا کرکے کرتے تھے۔ جب سودا طے نہ ہوا تو انہی اہلکاروں نے چھاپا مار کر گرفتار کر لیا۔ انہوں نے جب چھاپہ مارا تو ہمارے پاس سبزیاں کاٹنے والی چھریاں تھیں جبکہ ان کے پاس بھاری اسلحہ تھا۔ اس کے باوجود ہم نے خوب مزاحمت کی۔ ہماری مزاحمت دیکھ کر اہلکاروں نے کہا کہ ہم آپ کی مدد کر رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ نہیں آپ کے ساتھ امریکی ہیں اور ہم خود کو امریکا کے حوالے نہیں کریں گے۔

اہلکاروں نے کہا کہ آپ کو امریکا کے حوالے کرنے نہیں بلکہ پوچھ گچھ کرنے کے لیے گرفتار کیا جارہا ہے۔ ہم نے خدا اور رسولﷺ کے واسطے دیئے اور کہا کہ ہم مسلمان ہیں اور عرب مجاہدین ہیں مگر وہ نہیں مانے۔ محاصرہ کرکے جب انہوں نے ہمیں گرفتار کر لیا تو بااثر دکھائی دینے والے چند افراد آئے اور قسم اٹھا کر کہا کہ ہم لشکر طیبہ کے لوگ ہیں اور آپ کے ساتھی ہیں آپ مزاحمت نہ کریں۔ پھر ان پاکستانی اہلکاروں نے پہلے ہمیں لوٹا اور پھر امریکی فوجیوں کو لایا گیا کہ آئیں دیکھیں۔ ہم کس طرح آپ کے لیے مخلصانہ کوششیں کر رہے ہیں۔

امریکیوں کی تحقیق:

ایک دن مجھے تحقیق کے لیے لے جایا گیا ۔کچھ نئے تفتیش کار وہاں آئے ہوئے تھے جن کو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ایک ٹھگنی کالی خاتون بھی ساتھ تھی اور ایک پٹھان ترجمان بھی ساتھ تھا۔ میز پر پینے کا پانی رکھا ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک نقشہ میز پر رکھا جس کی ابتدا افغانستان سے ہوتی ہوئی امارات اور امارات سے سوڈان اور سوڈان سے یورپ اور انتہاء جنوبی امریکا تک پہنچتی تھی۔ مجھ سے کہا گیا کہ اس راستے افغانستان سے سونے کی غیر قانونی تجارت ہوتی رہی ہے اور آپ بھی اس میں شریک تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ افغانستان میں سونے کی کان اور افغانستان کی سونے کی برآمد ثابت کریں تو میں سب کچھ ماننے کے لیے تیار ہوں لیکن وہ بضد تھے اور باربار اصرار کرتے رہے کہ آپ اس دھندے میں (جس کا کوئی وجود نہیں) شامل تھے۔

ان کا ایک اور سوال یہ تھا کہ آپ ہر مہینے پشاور کس لیے جاتے تھے؟ یہ تفتیش کار خصوصی طور پر امریکا سے گوانتاناموبے آئے تھے لیکن بڑے بے عقل تھے جو مثبت و منفی سوال میں فرق تک نہیں کر سکتے تھے اور یا تو پھر وہ ہمیں بے وقوف اور بچے سمجھتے تھے اس لیے اس طرح کے بے ربط سوالات کرتے تھے۔ مجھ سے افغانستان کی تمام سیاسی مذہبی تنظیموں، معدنیات جیسے تیل، گیس ، کرومائیٹ، سنگ مرمر، ہیرے اور جواہرات نیز تمام دارس اور علما کے بارے میں پوچھا گیا۔ اسی طرح میرے سامنے مختلف ممالک میں علماء کی مجالس کی تصویریں لائی گئیں جس میں صد سالہ دارالعلوم دیو بند کانفرنس، پشاور میں قطبیہ کا جلسہ منصورہ میں اور لیبیا میں علماء کرام کے اتحاد اور جلسہ کی تصاویر نمایاں تھیں۔ مجھ سے ان تصویروں میں دکھائے گئے مقررین اور دیگر شریک علماء کے متعلق الگ الگ پوچھا گیا ۔

ان میں ایسے مدارس اور علماء بڑی تعداد میں موجود تھے جن کو میں نے کبھی نہ دیکھا نہ سنا اور نہ ہی ان مدارس کا نام معلوم تھا۔ یورینیم کی افزودگی کا سوال بھی بار بار مجھ سے کیا جاتا رہا۔ ’’مجبورستان‘‘ولی محمد صراف ، عبدالرحمن نورانی اور بعض دیگر ایسے بڑے بڑے تاجر جو پشاور یا اسلام آباد میں رہتے تھے اور بہت مالدار تھے سے پاکستانی اہلکاروں نے بھاری رقم لوٹی اور پھر امریکا کے ہاتھ فروخت کر دیا جو اب بھی گوانتاناموبے میں زندگی کی قبروں میں پڑے ہیں۔ عرب مجاہدین کے ساتھ جو سلوک پاکستان میں ہوا وہ گوانتاناموبے میں بھی نہیں ہوا۔ گوانتاناموبے کے قیدی پاکستان کو ’’مجبورستان‘‘ کہہ کر پکارتے۔

ہر روز نئے نئے سوال:

گوانتاناموبےمیں تفتیش کے مراحل بڑے عجیب تھے۔ تفتیش کا محور کوئی خاص ایشو نہیں تھا۔ نہ تفتیش کاروں کے ہدف کا پتہ چلتا اور نہ اس بات کا پتہ چلتا کہ ان کو تلاش کس کی ہے؟ ہر روز نئے نئے سوال پوچھے جاتے ۔ کبھی کبھی پرانے سوالات دہرائے جاتے۔ جرم کی باتیں پیچھے رہ جاتیں۔ ایک بار تفتیش کرنے والے نے کہا کہ یمن میں بحری جہاز تباہ کیا گیا تھا جس میں گیارہ امریکی عہدیدار ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے میں آپ کا ہاتھ تھا اور آپ اس وقت یمن میں موجود بھی تھے۔ میں نے کہا میں یمن کیسے گیا تھا؟ اور کس راستے سے گیا تھا؟ اس نے کہا کہ ایران سے قطر اور قطر سے یمن گئے تھے۔ میں نے کہا کہ آپ کو بحری جہاز کے آنے کا وقت اور جانے کا وقت معلوم تھا؟ انہوں نے کہا نہیں۔ میں نے کہا میں دھماکہ خیز مواد اپنے ساتھ لے کر گیا تھا یا نہیں؟ اس نے کہا معلوم نہیں۔ میں نے کہا کہ آپ کو بحری جہاز کے لنگر انداز ہونے کا وقت اور جگہ معلوم نہیں تو میں کس طرح نامعلوم بحری جہاز میں ایران ، قطر اور پھر یمن گیا؟ اگر کوئی یہ ثابت کرے کہ میں نے آج تک ایران، قطر یا یمن دیکھا ہے تو میں آپ کا ہر الزام تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوں۔

آپ کی یہ خواہش کبھی پوری نہ ہوگی:

شاید یہ سارے تفتیش کار ہم سب قیدیوں کو انتہائی سادہ سمجھتے تھے اور ہم سے ایسے پیش آتے جیسے ہم بچے ہوں۔ ایک دن چھوٹے قد کے موٹے شخص نے آکر انتہائی بدتمیزی سے بات شروع کی۔ میرے جوابات پر طنزیہ انداز میں مسکرا بھی دیتا اور آخر کار اس نے وہ سوال پوچھ ہی لیا جو اس کے دل میں معلوم نہیں کب سے جاگزیں تھا اس نے پوچھا یہ مسلمان آخر کب ہمارے سامنے سر تسلیم خم کریں گے؟ اس سوال سے میرا خون کھول اٹھا مگر میں نے حوصلہ کرکے جواب دیا کہ آپ کی یہ خواہش کبھی بھی پوری نہیں ہوگی۔ مسلمانوں کا ایک گروہ آپ کے خلاف امام مہدی(علیہ السلام) کے ظہور تک جہاد کرے گا اور آخر میں غلبہ مسلمانوں کا ہی ہوگا۔ اس نے پوچھا یہ گروہ کس کا ہوگا؟ طالبان کا یا القاعدہ کا؟ یا کسی اور کا؟ میں نے کہا کہ یہ مجھے معلوم نہیں مگر یہ یاد رکھیں کہ آپ اپنے اہداف تک اس قدر آرام سے نہیں پہنچیں گے۔ اس نے لمبی سانس لی اور کہا کہ کاش یہ امام مہدی جلد سامنے آئیں اور ہم ان سے نمٹیں تاکہ مسلمانوں کی یہ آخری امید بھی ختم ہو۔ میں نے کہا کہ ہمیں بھی ان کے ظہور کا شدت سے انتظار ہے۔

بھوک ہڑتال:

ایک مرتبہ قیدیوں نے بھوک ہڑتال شروع کر دی۔ بعض قیدی کھانا نہ کھاتے مگر پانی پیتے تھے بعض نے کھانا پینا دونوں ترک کر دیا۔ عرب بھائیوں نے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کی۔ اس طرح275افراد کھانے سے محروم تھے۔ وہ صرف اور صرف احترام انسانیت چاہتے تھے۔ بھوک ہڑتال 26روز سے جاری تھی۔ ہر پانچ میں سے چار قیدیوں نے بھوک ہڑتال میں حصہ نہیں لیا۔ کیمپ کے انچارج جنرل نے قیدیوں کو یقین دہانی کرائی کہ جنیوا کنونشن کی بعض شقوں کے تحت قیدیوں کو حقوق دیئے جائیں گے مگر اس کے لی شرط یہ ہے کہ قیدی بھوک ہڑتال ختم کر دیں۔ کیمپ کے انچارج سعودی عرب کے شیخ شاکر جن کے پاس برطانوی شہریت تھی اور جن کو انگلش زبان پر عبور حاصل تھا کو ہر قیدی کے پاس لے جاتے اور ان کے ذریعے قیدیوں کو یقین دہانیاں دے دے کر کھانا کھانے پر راضی کیا جاتا۔ قیدیوں نے ہڑتال ختم کی اور کھانا کھانا شروع کیا۔ قیدیوں کی جانب سے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جسے قیدیوں کے مطالبات ترتیب دینے اور امریکی حکام کے سامنے پیش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس کمیٹی میں شیخ شاکر، شیخ عبدالرحمن، شیخ غسان، شیخ جابر، شیخ ابوعلی اور میں (عبدالسلام ضعیف) شامل تھا۔

مذاکرات اور ابلیس شیطان:

مذاکرات کے لیے دو مرتبہ کوشش کی گئی مگر بار آور ثابت نہ ہو سکی۔ آخر کار تیسری مرتبہ 7اگست 2005ء کو کیمپ کے داخلی دروازے کے پاس اجلاس ہوا جس میں کمیٹی کے ہم چھ ارکان، کیمپ کے انچارج، بمب گارنر، ایک کمانڈر اور ایک دوسرا شخص شامل تھا۔ بمب گارنر بہت چالاک اور عیار تھا ، قیدیوں کو کہتا تھا کہ میں ابلیس(شیطان) ہوں۔ اس نے اجلاس کی ابتداء میں ہی کہا کہ میں کیمپ کو پرامن اور مسئلوں سے پاک دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں یہ جانتا ہوں کی قیدی آپ(کمیٹی کے چھ ممبران ) کی بات مانتے ہیں۔ میں آپ کے فیصلوں کا احترام کروں گا۔ میں نے امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ سے بات کی ہے تاکہ آپ کو جنیوا کنونشن کے مطابق حقوق دیئے جائیں البتہ اس بات کا فیصلہ ہم کریں گے کہ کون سے حقوق دیئے جائیں اور کون سے نہ دیئے جائیں۔

ہم نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مذہی شعائر کی بے حرمتی اور امریکی فوجیوں کے غیر قانونی اور غیر انسانی اقدامات کی شکایت کی۔ ہم نے کہا کہ چار سال تک دنیا کو ورغلایا گیا کہ گوانتاناموبے میں دہشت گردوں کو رکھا گیا ہے۔ یہ سلسلہ اب بند کیا جائے۔ خود کو شیطان کہنے والا کیمپ کا انچارج سب کچھ مانتا اور کہتا کہ جو ہوا سو ہوا۔ آئندہ آپ کے ساتھ انسانی سلوک کیا جائے گا مگر اس کے یہ سارے وعدے جھوٹ ثابت ہوئے۔ اجلاس میں شرکت کرنے والے قیدیوں کو باقی قیدیوں سے الگ کر دیا گیا اور ظلم و ستم کا سلسلہ مزید دراز کر دیا گیا۔ بھوک ہڑتال پھر شروع کر دی گئی تین سو سے زائد قیدی بھوک ہڑتال کے لیے تیار ہوئے۔ بیس قیدیوں نے تو پکا عزم ظاہر کیا کہ وہ تادم مرگ بھوک ہڑتال جاری رکھیں گے اور امریکیوں پر مزید اعتماد نہیں کریں گے۔ امریکا کے اوپر بداعتمادی کا یہ سلسلہ میری رہائی یعنی 11ستمبر2005ء تک جاری رہا۔

قیدیوں کی استقامت:

بھوک ہڑتال کے باعث ہسپتال مریضوں سے بھر گیا۔ ان کو بے ہوشی کی حالت میں دوا دی جاتی۔ قیدی ہوش میں آتے تو ڈرپ وغیرہ اتار کر پھینک دیتے اور دوائیں کھانے سے انکار کر دیتے۔ انتہائی جرات مندی کا مظاہرہ کرتے اورمرنے تک بھوک ہڑتال جاری رکھنے کا عزم ظاہر کرتے۔ پھر وہ مرحلہ بھی آیا جب پانچ ڈاکٹروں نے مل کر بے ہوش مریضوں کو نتھنوں میں پائپ لگا کر خوراک دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ سننے میں آرہا ہے کہ گوانتاناموبے میں حقوق کے لیے قیدیوں کی ہڑتال کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

طالبان کے شبہ میں پکڑے جانے والے افغانی:

امریکا نے ان معصوم افغانوں کو بھی طالبان اور القاعدہ کے کھاتے میں پکڑا تھا جن کا دونوں سے کوئی تعلق نہیں رہا تھا۔ مثلاً ان سب افغانوں کو پکڑا گیا جنہوں نے کسی طالب یا مجاہد کو پناہ دی۔ ان کو کھانا کھلایا یا کسی مشہور طالب مجاہد کا نام کسی نے لیا یا کسی نے دیکھا۔ ایک افغان کو اس لیے پکڑا گیا کہ اس نے مجاہدین جیسا کوٹ پہنا تھا۔ ایک کو جیب میں ٹیلی فون سیٹ رکھنے پر جبکہ ایک چرواہے کو دوربین رکھنے پر پکڑا گیا اور ان سب کو بعد میں جنگی مجرم ثابت کیا گیا۔

اکثر بھائی مجھے تفصیلی روئیداد بیان کرتے جس پر مجھے بہت افسوس ہوتا۔ افغان قیدیوں میں طالبان، مجاہدین، موجودہ افغان حکومت کے اہلکار، موچی، لوہار، چرواہے، صحافی، صراف، دکاندار، آئمہ مساجد حتیٰ کہ امریکا کے اپنے ترجمان بھی شامل تھے۔ عرب بھائیوں میں بھی ایسے تھے جو پاکستان کی طرح دوسرے ممالک سے امریکا کے عوض فروخت کیے تھے۔ پختون علاقوں کے وہ افراد جو عرب ممالک میں محنت مزدوری کرتے تھے اور وطن واپس آئے تھے ان کو بھی پکڑا گیا تھا۔ ان بے چاروں کے ویزوں کی مدت بھی ختم ہوگئی مگر ظالم امریکیوں نے ان کو نہیں چھوڑا۔

وہ جو امریکہ کے جاسوس بن گئے اور مرتد ہوئے:

بعض قیدی مجبور ہو کر امریکیوں کے لیے ہماری جاسوسی بھی کرتے تھے۔ جس پرہمارے ساتھی ان قیدیوں سے نفرت کا اظہار کرتے اور ان سے بات نہ کرتے۔ ان پر تھوکتے۔ ان میں سردار اور کنٹر کے انور شامل تھے جو بعد میں مرتد ہوگئے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور قرآن کریم کی بے حرمتی کیا کرتے تھے۔ یہ ثمود نامی کمانڈر کے لوگ تھے جو امریکیوں کے لیے کام کرتے تھے۔ تیسرے کیمپ میں عراق کیک علی، شاکر، ارقان، عبدالرحیم اور محمد ایسے ہی مشکوک لوگ تھے۔ تین افغانوں پر بھی جاسوسی کا شک تھا۔ یہ افغان اور عرب جب ہمارے قریب آتے تو ہم اپنی زبانوں پر کنٹرول کر لیتے۔ ان کی سرگرمیوں سے ہر قیدی تنگ تھا۔ یہ جب ہم سے دور ہوتے تو ہم اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے۔ آخر میں یہ لوگ بہت ذلیل ہوئے کیونکہ ان کی معلومات درست نہ تھیں اور امریکیوں کے لیے ناقابل اعتبار بن گئے۔ یہ جاسوس عیسائیوں کی طرح عبادت کرنے لگے پھر بھی امریکیوں کو ان پر یقین نہیں رہا۔

گوانتاناموبے میں دنیا کا کوئی قانون نہیں چلتا:

گوانتاناموبے میں وقت کے فرعون کے مظالم سہنے والا ہر شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ زندان ہر اس مسلمان کے لیے بنایا گیا ہے جو امریکی پالیسیوں کا مخالف ہے۔ جہاں امریکا جو چاہتا ہے کر سکتا ہے۔ دہشت گردی کے نام پر گرفتار ہونے والوں کے ساتھ امریکا ہر غیر قانونی سلوک کر سکتا ہے۔ کیونکہ گوانتاناموبے کے جزیرے میں دنیا کا کوئی قانون نہیں چلتا۔ وقت نے ثابت کر دیا کہ صدر بش نے دنیا کے سامنے جو جھوٹ بولا وہ محض دنیا کو دھوکہ دینے کے لیے تھا۔ یہ بھی ثابت ہوگیا کہ گوانتاناموبے کے اکثر قیدی بے گناہ ہیں۔ بہت سے ایسے ممالک جو امریکی اتحادی ہیں اپنے کیے پر پشیمان ہیں ان کے سامنے امریکا کا بھیانک چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے مگر مجبور ہیں۔ یہ ممالک اپنی مجبوری کے تحت امریکی مظالم پر خاموش ہیں۔

گوانتاناموبے کا امریکہ کو نقصان:

میں سوچتا ہوں۔ گوانتاناموبے کے بدنام زمانہ عقوبت خانوں کے قیام کا مقصد کیا ہے؟ اس سے امریکا کو کیا فائدہ ہے؟ میری نظرمیں فائدہ کوئی نہیں سراسر امریکا کا اپنا نقصان ہے۔ یہ گوانتاناموبے امریکی ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے مگر اس کا مکمل ادراک دنیا اور خود امریکی عوام کو مستقبل میں ہوگا۔ صدر بش نے ثابت کر دیا ہے کہ احترام آدمیت اور انسانی حقوق صرف طاقتور اقوام کے لیے ہیں اور مظلوم مسلمانوں کو کسی قسم کا حق حاصل نہیں۔امریکا نے مسلمانوں کو انسانی حقوق کا غاصب اور قانونی مجرم ثابت کرنے کی کوشش کی مگر خود گوانتاناموبے کی وجہ سے دنیا بھر میں امریکا کو انسانی حقوق کا غاصب خصوصاً مسلمانوں کا دشمن سمجھا گیا۔

دنیا نے جان لیا کہ امریکا ریاستی اور بین الاقوامی قوانین کو پاؤں تلے روندنے والا ملک ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں امریکا کی نفرت بڑھی ہے۔ یہ ایسے نکات ہیں جن کی وجہ سے ہرگزرتے دن کے ساتھ امریکی وقار کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ گوانتاناموبے کی وجہ سے امریکا نے یہاں کے ہر قیدی کو اپنا دشمن بنا لیا۔ قیدیوں میں سے ایسے بھی تھے جو امریکی پالیسیوں کے خلاف نہ تھے مگر جب امریکی مظالم انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تو وہ بھی امریکا کے سخت دشمن بن گئے۔

افغان حکومت کا ایلچی:

مئی2004ء رمضان المبارک کو مجھے تفتیش کے لیے لے جایا گیا۔ یہ جگہ میرے لیے نئی تھی جس کمرے میں مجھے بٹھایا گیا وہاں ائیر کنڈیشنڈ اور ٹی وی بھی لگا ہوا تھا۔ خلاف معمول میرے ہاتھ پاؤں کھولے گئے۔ وہاں دو امریکی تفتیش کار تھے جبکہ تیسرے نے امریکا کے افغانستان میں قائم سفارتخانے کے اہلکار کے طور پر اپنا تعارف کرایا۔ افغان باشندے نے خو دکو افغان حکومت کا ایلچی بتایا مگر مجھے یقین نہیں آیا باتیں شروع ہوئیں تو ان کا رویہ بڑا شائستہ تھا۔

مشروط رہائی کا حلف نامہ:

انہوں نے مجھے کھانا کھلایا جس کو میں صحیح معنوں میں کھانا کہوں گا جو چار سال بعد مجھے نصیب ہوا تھا۔ میں نے حد سے زیادہ کھانا کھایا۔ کھانے کے ساتھ فروٹ اور کولڈ ڈرنک بھی دی گئی۔ ان افراد نے وعدہ کیا کہ وہ میری رہائی کے لیے بھرپور کوشش کریں گے مگر اس کے بعد بھی ایک سال تک گوانتاناموبے میں رہا۔ میں رہا ہونا چاہتا تھا مگر مجھے شرائط معلوم نہ تھیں۔ یکم نومبر2005ء کو ایک تفتیش کار نے خوشخبری سنائی کہ الگے ہفتے آپ کو رہا کر دیا جائے گا مگر اس سے پہلے آپ کو کسی دوسری جگہ منتقل کیا جائے گا گھبرانا نہیں۔ دوسرا ہفتہ شروع ہوگیا پہلے ہی دن مجھے ایسی جگہ لے جایا گیا جس کو پہلے میں نے کبھی نہ دیکھا تھا یہ جگہ زندگی کی تمام سہولتوں سے آراستہ تھی۔ پہلی دفعہ میں نے اپنے لیے یہاں خود قہوہ پکایا جس کا مجھے بڑے عرصے سے ارمان تھا۔ دوسرے دن چار بجے کے قریب ایلچی آیا اور میرے ساتھ بیٹھ کر میرے گھر اور افغانستان کے حالات کے متعلق معلومات فراہم کیں۔

اور کہا کہ کل رات بارہ بجے آپ کی افغانستان کے لیے پرواز ہوگی۔ اس وقت تک آپ آرام کریں۔ تیسرے دن مجھے پھر اس جگہ لے جایا گیا جہاں پہلے سزا دی جاتی تھی مگر امید تھی کہ ریڈ کراس کے لوگ آئیں گے معمول تو یہی تھا کہ رہائی کے وقت ریڈ کراس کے لوگ قیدی سے ملتے مگر اچانک چند امریکی ویڈیو کیمروں کے ساتھ اندر آئے ان کے ساتھ ایک پشتو ترجمان بھی تھا ایک دو سیاہ کاغذات ان کے ہاتھ میں تھے جس پر انگریزی میں کچھ لکھا گیا تھا اور ساتھ میں پشتو ترجمہ بھی تھا۔ کاغذ میرے حوالے کیا گیا اور کہا گیا کہ اس پر دستخط کریں۔

کاغذ پر درج شقیں کچھ اس طرح تھیں:

  • قیدی اپنے جرم کا اقرار کرتا ہے یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکا سے معافی مانگتا ہے، امریکا کی طرف سے جرم کی معافی اور رہائی پر اس کا شکر گزار ہے۔۔
    قیدی القاعدہ اور طالبان کا ساتھی تھا۔ آئندہ دونوں کے ساتھ تعلق نہیں رکھے گا اور ان کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے۔۔
    قیدی آئندہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ نہیں لے گا۔ قیدی آئندہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کے خلاف کوئی کام نہیں کرے گا۔
    اگر قیدی نے ان شقوں کی خلاف ورزی کی تو اسے پھر گرفتار کیا جائے گا اور ساری عمر قید میں رکھا جائے گا۔

اس حلف نامے کو پہلے پڑھ کر سنایا گیا جسے ویڈیو کیمروں میں بھی محفوظ کیا گیا پھر مجھے دستخط کرنے کو کہا گیا۔ میں نے کاغذ انتہائی غصے سے دور پھینکا اور کہا’’میں مظلوم ہوں، مجرم نہیں ہوں، کبھی بھی اپنا ناکردہ جرم تسلیم نہیں کروں گا۔ کبھی معافی نہیں مانگوں گا۔ کبھی بھی اپنی رہائی پر امریکا کا شکریہ ادا نہیں کروں گا۔ میں نے کون سا جرم کیا ہے؟ مجھے کس قانون کے تحت مجرم ثابت کیا گیا ہے؟ میں طالب تھا، ہوں اور طالب رہوں گا۔ البتہ القاعدہ کا کبھی ساتھی نہیں رہا۔ کسی دہشت گردی کے واقعے میں میرا ہاتھ تھا مجھے بتائیے اگر آپ سچے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے دستخط نہیں کیے تو آپ رہا نہیں ہو سکتے مگر میں نے صاف انکار کر دیا اور کہا اگر مجھے ساری عمر بھی قید میں رکھا جائے پھر بھی میں یہ نہیں مانوں گا کہ میں مجرم ہوں۔ کئی مرتبہ وہ باہر نکلے۔ پھر اندر آئے کئی بار اصرار کیا مگر میں نے دستخط نہیں کیے۔ چوتھی بار اندر آئے تو کہا کہ اگر آپ کو کاغذ کی لکھی شقیں منظور نہیں تو کچھ اور لکھیں اور وہ لکھیں جو آپ چاہتے ہیں۔ مجبوری کے عالم میں قلم اٹھایا اور لکھنا شروع کر دیا:’’میں مجرم نہیں ہوں۔ کبھی کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا، ایک مظلوم مسلمان ہوں جس کے ساتھ پاکستان اور امریکا نے ظلم کیا ہے اور چار سال قید میں رکھا ۔میں یقین دلاتا ہوں کہ امریکا کے خلاف سرگرمیوں میں حصہ نہیں لوں گا۔ والسلام‘‘

رہائی کی خوشی اور سچی بات:

میں نے دستخط کرکے کاغذ ان کے حوالے کردیا اور گہری سوچوں میں غرق ہوگیا کہ میرا لکھا ہو مانیں گے بھی یا نہیں؟ اور میری تحریر میں وہ کوئی تحریف بھی کرسکتے ہیں۔ بہرحال کچھ دیر بعد ایلچی ریڈ کراس کے نمائندوں کے ساتھ آئے میرے ساتھ بیٹھے اور رہائی کی خوشخبری دی ریڈ کراس نے اپنے معاملات نمٹا لیے پھر واپس مجھے پانچویں کیمپ لے جایا گیا تاکہ اپنے بھائیوں سے رخصت لے سکوں۔ سب قیدیوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا گیا میں بھی ان کے ساتھ شامل ہوگیا اور ان کے ساتھ ڈیڑھ گھنٹہ گزارا سچی بات یہ ہے کہ اس وقت مجھے اپنے آپ سے شرم آرہی تھی اس لیے کہ میرے مسلمان بھائیوں نے ابھی مزید عذاب جھیلنا تھا۔ مجھے صرف افغان قیدیوں سے ملاقات کی اجازت دی گئی عربوں اور دیگر مسلمان بھائیوں سے ملنے کی اجازت نہیں دی ۔

ایک دن بعد کابل کے خواجہ روش ہوائی اڈے پر اترا۔ مجھے کابل اجنبی اجنبی لگا جگہ جگہ حفاظتی مورچے بنائے گئے تھے۔ مجھے پہلے سے مقرر کردہ جگہ منتقل کر دیا گیا۔ اب میں پچھلے دس ماہ سے کابل کے اس مکان میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہائش پذیر ہوں جہاں موجودہ حکومت کی جانب سے کرایے پر رہائش فراہم کی گئی ہے۔ میری حفاظت کا ذمہ موجودہ افغان حکومت نے ایک سال تک کے لیے لیا ہے ایک سال بعد معلوم نہیں کیا ہوگا؟تمام مظلوم مسلمان بھائیوں کے لیے میری دعا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ بخیرو عافیت تمام مصیبتوں سے اپنی حفاظت میں رکھے اور قیدی بھائیوں کو سلامتی کے ساتھ رہائی نصیب ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آزمائشوں سے بچائے اور ہر امتحان میں کامیابی سے سرخرو فرمائے۔ آمین۔

ختم شد

(نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی امن پسندقیادت کوبھی چن چن کر تحقیقات کے نام پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں انہیں جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کیاگیا تاہم ان میں سے اکثر قیدی بے گناہ ثابت ہوئے ۔ملا عبدالسلام ضعیف افغان حکومت کے حاضر سفیر کے طور پر پاکستان میں تعینات تھے لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹراور سفارت کے تمام آداب و اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو مجبور کرکیااور انکو گرفتارکرکے گوانتانہ موبے لے جاکر جس بیہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کوروا رکھا اسکو ملاّ ضعیف نے اپنی آپ بیتی میں رقم کرکے مہذب ملکوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیاتھا ۔انکی یہ کہانی جہاں خونچکاں واقعات ، مشاہدات اور صبر آزما آزمائشوں پر مبنی ہے وہاں ملاّ صاحب کی یہ نوحہ کہانی انسانیت اورامریکہ کا دم بھرنے والے مفاد پرستوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔دورحاضر تاریخ میں کسی سفیر کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ حیوانی سلوک اقوام متحدہ کا شرمناک چہرہ بھی بے نقاب کرتا ہے۔)

مزید پڑھیں: گوانتانا موبے کا جہنم،سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف پر امریکی مظالم کی کہانی۔۔۔ پندرہویں قسط

نوٹ: ادبستان میں چھپنے والی تحاریر سے ادارے کا متفق ہوناضروری نہیں ۔