کہیں سے نیلے کہیں سے کالے پڑے ہوئے ہیں
ہمارے پیروں میں کتنے چھالے پڑے ہوئے ہیں
ہماری خاطر بھی فاتحہ ہو برائے بخشش
ہم آپ اپنے پہ خاک ڈالے پڑے ہوئے ہیں
ہماری آنکھوں میں جب سے اترا ہے چاند کوئی
ہماری آنکھوں کے گرد ہالے پڑے ہوئے ہیں
یقیں نہیں ہے خود اپنے ہونے کا ہم کو ورنہ
کئی مثالیں کئی حوالے پڑے ہوئے ہیں
ہمارے کمرے میں اس کی یادیں نہیں ہیں فاضل
کہیں کتابیں کہیں رسالے پڑے ہوئے ہیں
فاضل جمیلی
تبصرے کیجئے