کچھ نہ کچھ توڑتے رہتے ہیں بناتے ہوئے لوگ

کچھ نہ کچھ توڑتے رہتے ہیں بناتے ہوئے لوگ
کیا کریں حلقہءِ تعمیر میں آتے ہوئے لوگ

جیب میں صرف زرِ خوف ہے ، کیا خرچ کریں
قرض میں کٹتے ہوئے ، رنج کماتے ہوئے لوگ

کشتیاں مفت میسّر تھیں کہ معلوم ہوا
ایک گرداب ہیں یہ پار لگاتے ہوئے لوگ

میں نے تنہائی کے البم میں چھپا رکھے ہیں
رقص کرتے ہوئے اور شور مچاتے ہوئے لوگ

چھتریاں بیچنے آئیں گے یہی سود نفَس
آریاں تھامے ہوئے پیڑ گراتے ہوئے لوگ

اپنے ہاتھوں کو نہ پہچان سکیں گے اک دن
موت کے رقص میں کشکول بجاتے ہوئے لوگ

آ کسی خواب سے لے آتے ہیں منّت کر کے
گدگداتے ہوئے ، ہنستے ہوئے ، گاتے ہوئے لوگ

حمیدہ شاہین