چارہ گر، اےدلِ بے تاب! کہاں آتے ہیں

چارہ گر، اےدلِ بے تاب! کہاں آتے ہیں
مجھ کو خوش رہنے کے آداب کہاں آتے ہیں

میں تو یک مُشت اُسے سونپ دُوں سب کچھ، لیکن
ایک مُٹّھی میں ، مِرے خواب کہاں آتے ہیں

مُدّتوں بعد اُسے دیکھ کے، دِل بھر آیا
ورنہ ،صحراؤں میں سیلاب کہاں آتے ہیں

میری بے درد نِگاہوں میں، اگر بُھولے سے
نیند آئی بھی تو ، اب خواب کہاں آتے ہیں

تنہا رہتا ہُوں میں دِن بھر ،بَھری دُنیا میں قتؔیل
دِن بُرے ہوں، تو پھر احباب کہاں آتے ہیں….!!

قتیل شفائی

موضوعات