عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگِ جاں سے
یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہیں ماں سے !
وہ وہ ماں کے کہنے پہ کچھ رعب مجھ پر رکھتا ہے
یہی وجہ ہے مجھے چومتے جھجکتا ہے !
وہ آشنا میرے ہر کرب سے رہے ہر دم
جو کھل کے رو نہیں پاتا مگر سسکتا ہے !
جڑی ہے اس کی ہر اک ہاں فقط میری ہاں سے
یہ بات سچ ھے میرا باپ کم نہیں ماں سے !
ہر ہر ایک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا ہے
تمام عمر وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا ہے !
وہ لوٹتا ہے کہیں رات دیر کو، دن بھر
وجود اس کا پسینہ میں ڈھل کر بہتا ہے !
گلے ہیں پھر بھی مجھے ایسے چاک گریبان سے
یہ بات سچ ھے میرا باپ کم نہیں ماں سے !
پرانا سوٹ پہنتا ہے کم وہ کھاتا ہے
،،، مگر کھلونے میرے سب خرید کے لاتا ہے !
وہ مجھ کو سوئے ہوئے دیکھتا ہے جی بھر کے
نجانے سوچ کے کیا کیا وہ مسکراتا ہے !
میرے بغیر ہیں سب خواب اس کے ویران سے
یہ بات سچ ھے میرا باپ کم نہیں ماں سے !