شامِ غم جب بکھر گئی ہوگی

شامِ غم جب بکھر گئی ہوگی
جانے کس کس کے گھر گئی ہوگی؟

اِتنی لرزاں نہ تھی چراغ کی لَو
اپنے سائے سے ڈر گئی ہوگی

چاندنی ایک شب کی مہماں تھی
صبح ہوتے ہی مَر گئی ہوگی

دیر تک وہ خفا رہے مجھ سے
دُور تک یہ خبر گئی ہوگی

جس طرف وہ سفر پہ نکلا تھا
ساری رونق اُدھر گئی ہوگی

میری یادوں کی دھوپ چھاؤں میں
اُس کی صورت نکھر گئی ہوگی

یا تعلّق نہ نبھ سکا اس سے
یا طبیعت ہی بھر گئی ہوگی

تیری پل بھر کی دوستی
اُس کو بدنام کر گئی ہوگی

محسن نقوی

موضوعات