سرخئ چشم سے تصویرِ نمو کھینچتا ہوں

سرخئ چشم سے تصویرِ نمو کھینچتا ہوں
سرجھکا کر نمِ گریہ سے لہو کھینچتا ہوں

شیشۂ اشک میں حل کرتا ہوں خاکسترِ دل
اس صراحی کو بہ ہنگامِ وضو کھینچتا ہوں

عیشِ وحشت ہے مجھے سوزنِ بخیہ کی چبھن
ریشۂ زخم سے بھی تارِ رفُو کھینچتا ہوں

عاجزی رمز و اشارت ہے مرے قامت کا
اس کنائے سے میں تشبیہِ عُلو کھینچتا ہوں

اپنے ہی ڈھنگ سے لڑتا ہوں لڑائی اپنی
برّشِ تیغ پہ رکھتا ہوں گُلو! کھینچتا ہوں

اپنے حجرے میں پلاتا ہوں فقیروں کو شراب
نشّہ چڑھ جائے تو اک نعرۂ ہُو کھینچتا ہوں

جب نظر آتے نہیں اپنے خد و خال مجھے
اپنی جانب نگہِ آئینہ رُو کھینچتا ہوں

عارف امام

موضوعات