رخصت

تھک گئیں آنکھیں، امیدیں سو گئیں، دل مر گیا

زندگی! عزمِ سفر کر، موت! کب آئے گی تو؟

آنسوؤ! آنکھوں میں اب آنے سے شرماتے ہو کیوں؟

تھی تمہی سے میرے داغِ آرزو کی آبرو!

اے کسی کے آستاں کو جانے والے راستے!

بخش دینا! میرا پائے شوق تھا سیماب خو

یہ ترا کتنا بڑا احسان ہے بادِ سحر!

عمر بھر کھیلی مری آہوں کے انگاروں سے تو

اے زمانے کے حسیں صیاد! کیا کہنا ترا

جاں گسل ہیں تیرے دامِ خوشنما کے تار و پو

آہ میری روح کو ڈسنے لگی ہے سانس سانس

اب میں رخصت چاہتا ہوں اے جہانِ رنگ و بو!

مجید امجد

موضوعات