داستان ایمان فروشوں کی ۔۔۔ آٹھویں قسط

ساتویں لڑکی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس کے بعد وہ فرار اور شادی کا پروگرام بنانے لگے ۔لڑکی نے اسے کہا … ” میں تم پر زور نہیں دیتی ، اچھی طرح سوچ لو ۔ میں صرف جاننا چاہتی ہوں کہ میرے دل میں تمہاری جو محبت پیدا ہوگئی ہے ، اتنی تمہارے دل میںبھی پیدا ہوئی ہے یا نہیں۔ اگر تم مجھے قبول کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہو تو سوچ لو اور کوشش کرو کہ قاہر ہ تک ہمارا سفر لمبا ہوجائے۔ ہم ایک بار وہاں پہنچ گئے تو پھر تم میری بو بھی نہیں سونگھ سکو گے ”۔

لڑکی کا مقصد صرف اتنا سا تھا کہ سفر لمبا ہو جائے اور تین دنوں کی بجائے چھ دن راستے میں ہی گزر جائیں ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رابن اور اس کے ساتھی فرار کی ترکیبیں سوچ رہے تھے۔ وہ اس کوشش میں تھے کہ رات کو سوئے ہوئے محافظوں کے ہتھیار اُٹھا کر انہیں قتل کیا جائے ۔ جو نا ممکن سا کام تھا یا اُن کے گھوڑچرا کر بھاگا جائے۔ ابھی تو پہلا ہی پڑائو تھا۔ اُن کی ضرورت یہ تھی کہ سفر لمبا ہو جائے تا کہ اطمینان سے سوچ سکیں اور عمل کر سکیں ۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اس لڑکی کو استعمال کیا ، وہ محافظوں کے کمانڈر کو قبضے میں لے لے ۔ لڑکی نے پہلی ملاقات میں ہی یہ مقصد حاصل کر لیا اورمصری کو منہ مانگی قیمت دے دی ۔ مصری کو ایسا بڑا رُتبے والا آدمی نہیں تھا ۔ معمولی سا عہدے دار تھا۔ اس نے کبھی خواب میں بھی اتنی حسین لڑکی نہیں دیکھی تھی ۔ کہاں ایک جیتی جاگتی لڑکی جو اس کے تصوروں سے بھی زیادہ خوبصورت تھی ، اس کی لونڈی بن گئی تھی ۔ وہ اپنا آپ، اپنا فرض اور اپنا مذہب ہی بھول گیا ۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی لڑکی سے الگ نہیں ہونا چاہتا تھا۔

اس پاگل پن میں اُس نے صبح کے وقت پہلا حکم یہ دیا کہ جانور بہت تھکے ہوئے ہیں ، لہٰذا آج سفر نہیں ہوگا ۔ محافظوں اور شتربانوں کو اس حکم سے بہت خوشی ہوئی ۔ وہ محاذ کی سختیوں سے اُکتائے ہوئے تھے۔ انہیں منزل تک پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں تھی ۔ وہ دن بھر آرام کرتے رہے۔گپ شپ لگاتے رہے اور انکاکمانڈر اس لڑکی کے پاس بیٹھا بدمست ہوتا رہا۔ دن گزر گیا ، رات آئی اور جب سب سو گئے تو مصر ی لڑکی کو ساتھ لیے دُور چلا گیا ۔ لڑکی نے اُسے آسمان پر پہنچا دیا ۔

صبح جب یہ قافلہ چلنے لگا تو مصری کمانڈر نے راستہ بدل دیا ۔ اپنے دستے سے اس نے کہا کہ اس طرف اگلے پڑائو کے لیے بہت خوبصورت جگہ ہے ۔ قریب ایک گائوں بھی ہے جہاں مرغیاں اور انڈے مل جائیں گے۔ اس کا دستہ اس پر بھی خوش ہوا کہ کمانڈر انہیں عیش کرا رہا ہے ۔ البتہ اس دستے میں دو عسکری ایسے بھی تھے جوکمانڈر کی ان حرکتوں سے خوش نہیں تھے ۔ انہوں نے اسے کہا کہ ہمارے پاس خطرناک قیدی ہیں ۔ یہ سب جاسوس ہیں ۔ انہیں بہت جلدی حکومت کے حوالے کر دینا چاہیے ۔ بلاوجہ سفر لمبا کرنا ٹھیک نہیں ۔ مصری نے انہیں یہ کہہ کر چپ کروادیا کہ یہ میری ذمہ داری ہے کہ جلدی پہنچوں یا دیر سے۔ جواب طلبی ہوئی تو مجھ سے ہوگی۔ دونوں خاموش ہوگئے ، لیکن وہ الگ جا کر آپس میں کھسر پسر کرتے رہے ۔

٭ ٭ ٭

دوپہر کے بعد انہیں دُور آگے بہت سے گدھ اُڑتے اور اُترتے نظر آئے ۔ یہ اس کی نشانی تھی کہ وہاںکوئی مُردار ہے۔وہ علاقہ مٹی اور ریت کے ٹیلوں کا تھا۔ صحرائی درخت بھی تھے۔ چلتے چلتے وہ ان ٹیلوں میں داخل ہوگئے ۔ راستہ اوپر ہوتا گیا اور ایک بلند جگہ سے انہیں ایک میدان نظر آیا جہاں گِد ھوں کے غول اُترتے ہوئے شور برپا کر رہے تھے ۔ ذرا اور آگے گئے تو نظر آیا کو لاشیں ہیں ، بدبو بھی تھی ۔ یہ اُن سوڈانیوں کی لاشیں تھیں جو بحیرئہ روم کے ساحل پر مقیم سلطان ایوبی کی فوج پر حملہ کرنے چلے تھے۔سلطان ایوبی کے جانباز سواروں نے راتوں کے ان کے عقبی حصے پر حملے کر کے یہ کشت و خون کیا اور سوڈانی فوج کو تتر بتر کر دیا تھا۔یہاں سے آگے میلوں وسعت پر لاشیں بکھری ہوئی تھیں ۔ سوڈانیوں کو اپنی لاشیں اُٹھانے کی مہلت نہیں ملی تھی ۔ قیدیوں اور محافظوں کا قافلہ چلتا رہا اور ذرا سا رُخ بدل کر لاشوں اور گدھوں سے ہٹ گیا ۔

قافلہ جب وہاں سے گزر رہا تھا تو انہوں نے دیکھا کہ لاشوں کے اردگرد اُن کے ہتھیار بھی بکھرے ہوئے تھے ۔ ان میں کمانیں اور ترکش تھے۔ بر چھیاں ، تلواریں اور ڈھالیں بھی تھیں ۔ قیدیوں نے یہ ہتھیار دیکھ لیے ۔ انہوں نے آپس میںباتیں کیں اور رابن نے اس لڑکی سے کچھ کہا جس نے مصری کمانڈر پر قبضہ کر رکھا تھا ۔ لاشیں اور ہتھیار دُور دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔ دائیں طرف ٹیلوں کے قریب سر سبز جگہ تھی ۔ پانی بھی نظر آرہا تھا ۔ سبزہ ٹیلوں کے اوپر تک گیا ہوا تھا ۔ لڑکی نے کمانڈر کو اشارہ کیا تو وہ اس کے قریب چلا گیا ۔ لڑکی نے کہا …” یہ جگہ بہت اچھی ہے ۔ یہیں رُک جاتے ہیں ”…مصری نے قافلے کا رُخ پھیر دیا اور سر سبز ٹیلے کے قریب پانی کے چشمے پر جا روکا۔ رات یہیں بسر کرنی تھی ۔سب گھوڑوں اور اونٹوں سے اُترے ، جانور پانی پر ٹوٹ پڑے۔ رات گزارنے کے لیے اچھی جگہ دیکھی جانے لگی ۔ دو ٹیلوں کے درمیان جگہ کشادہ بھی تھی اور وہاںسبزہ بھی تھا ۔ یہی جگہ منتخب کر لی گئی ۔

جب رات کا اندھیرا گہرا ہوا تو سب سو گئے ۔ مصری جگ رہا تھا اور لڑکی بھی جاگ رہی تھی ۔اس رات اسے خاص طور پر جاگنا اور مصری کمانڈر کو پوری طرح مدہوش کرنا تھا ۔ اسے جب خراٹوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں تو وہ مصری کے پاس چلی گئی ۔ اسی لڑکی کی خاطر وہ سب سے الگ اور دُور ہٹ کر لیٹا تھا ۔ لڑکی اسے ٹیلے کی اوٹ میں لے گئی اورر وہاں سے اور زیادہ دُور جانے کی خواہش ظاہر کی ۔ مصری اس کی خواہشوں کا غلام ہو گیا ۔ اسے احساس تک نہ ہوا کہ آج رات لڑکی اُسے ایک خاص مقصد کے لیے دور لے جارہی ہے ۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور لڑکی اسے تین ٹیلوں سے بھی پرے لے گئی ۔ وہ رُکی اور مصری کو بانہوں میں لے لیا ۔ مصری بے خود ہو گیا ۔

اُدھر رابن نے جب دیکھا کہ کمانڈر جا چکا ہے اور دوسرے محافظ گہری نیند سوئے ہوئے ہیں تو اس نے لیٹے لیٹے اپنے ایک ساتھی کو جگا یا۔ اس نے ساتھ والے کو جگایا ۔ اس طرح رابن کے چاروں ساتھی جاگ اُٹھے … محافظ اُن سے ذرا دُور سوئے ہوئے تھے ۔ مصری کمانڈر کو لڑکی نے اتنا بے پروا کر دیا تھا کہ رات کو وہ سنتری کھڑا نہیں کرتا تھا ۔ پہلے رابن پیٹ کے بل رینگتا ہوا محافظوں سے دور چلا گیا ۔ اس کے بعد اس کے چاروں ساتھی بھی چلے گئے ۔ ٹیلے کی اوٹ میں ہو کر وہ تیز تیز چلنے لگے اور لاشوں تک پہنچ گئے ۔ ٹٹول ٹٹول کر انہوںنے تین کمانیں اور ترکش اُٹھائے اور ایک ایک برچھی اُٹھالی ۔ اسی مقصد کے لیے انہوں نے لڑکی سے کہا تھا کہ وہ کمانڈر سے یہی کہے کہ یہاں پڑائو کیا جائے ۔ وہ ہتھیار لے کر واپس ہوئے ، اب وہ اکٹھے تھے ۔

وہ سوئے ہوئے محافظوں کے قریب جا کھڑے ہوئے ۔ رابن نے ایک محافظ کے سینے میں برچھی مارنے کے لیے برچھی ذرا اُوپر اُٹھائی ۔ باقی چاربھی ایک ایک محافظ کے سر پر کھڑے تھے ۔ یہ نہایت کامیاب چال تھی۔ وہ بیک وقت چار محافظوں کو ختم کر سکتے تھے اور باقی گیارہ کے سنبھلنے تک انہیں بھی ختم کرنا مشکل نہیں تھا۔ پیچھے تین شتربان تھے اور مصری کمانڈر ۔ وہ آسان شکار تھے ۔ رابن نے جونہی برچھی اُوپر اُٹھائی ، زناٹہ سا سنائی دیا اور ایک تیر رابن کے سینے میں اُتر گیا ۔ اس کے ساتھ ہی ایک تیر رابن کے ساتھی کے سینے میں لگا ، وہ ڈولے ۔ ان کے تین ساتھی ابھی دیکھ ہی رہے تھے کہ یہ کیا ہوا ہے کہ دو تیر اور آئے اور دو اور قیدی اوندھے ہوگئے ۔ آخری قیدی بھاگنے کے لیے پیچھے کو مُڑا تو ایک تیر اس کے پہلو میں اُترگیا ۔ یہ کام اتنی خاموشی سے ہوگیا کہ ان محافظوں میں سے کسی کی آنکھ ہی نہ کھلی جن کے سروں پر موت آن کھڑی ہوئی تھی ۔

تیر انداز آگے آگئے ۔انہوں نے مشعلیں روشن کیں۔ یہ دو محافظ تھے جنہوں نے اپنے کمانڈر سے کہا تھا کہ انہیں منزل پر پہنچنا چاہیے۔وہ دیانت دار تھے ۔وہ سوئے ہوئے تھے ، جب چاروں قیدی ان کے قریب سے گزرے تو اُن میں سے ایک کی آنکھ کھل گئی تھی ۔ اس نے اپنے ساتھی کو جگایا اور قیدیوں کا تعاقب دبے پائوں کیا ۔ انہوں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ اگر قیدیوں نے بھاگنے کی کوشش کی تو انہیں تیروں سے ختم کر دیں گے ، مگر اس سے پہلے وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ یہ کیا کرتے ہیں ۔ اندھیرے میں انہیں جو کچھ نظر آتا رہا ، وہ دیکھتے رہے ۔ قیدی ہتھیار اُٹھا کر واپس آئے تو دونوں محافظ آکر ٹیلے کے ساتھ چھپ کر بیٹھ گئے ۔ جونہیں قیدیوں نے محافظوں کو برچھیاں مارنے کے لیے برچھیاں اُٹھائیں ، انہوں نے تیر چلا دئیے ۔ پھر چاروں کو ختم کر دیا ۔ انہوں نے اپنے کمانڈر کو آواز دی تو اسے لا پتہ پایا۔ اس آواز سے لڑکیاں جاگ اُٹھیںاور باقی محافظ بھی جاگے۔ لڑکیوں نے اپنے آدمیوں کی لاشیں دیکھیں۔ ہر ایک لاش میں ایک تیر اُترا ہوا تھا۔ لڑکیاں خاموشی سے لاشوں کو دیکھتی رہیں۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ آدمی آج رات کیا کریں گے ۔

مصری کمانڈر وہاں نہیں تھا اور ایک لڑکی بھی غائب تھی ۔

محافظوں کو معلوم نہیں تھا کہ جب ان قیدی جاسوسوں کے سینوں میں تیر داخل ہوئے تھے ، بالکل اسی وقت اُن کے مصری کمانڈر کی پیٹھ میں ایک خنجر اُتر گیا تھا ۔ اُس کی لاش تیسرے ٹیلے کے ساتھ پڑی تھی اس رات صحرا کی ریت خون کی پیاسی معلوم ہوتی تھی ۔ مصری کمانڈر اپنے محافظ دستے اور قیدیوں سے بے خبر اس لڑکی کے ساتھ چلا گیا اور لڑکی اسے خاصا دور لے گئی تھی ۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے ساتھی ایک خونی ڈرامہ کھیلیں گے ۔ لڑکی مصری کو ایک ٹیلے کے ساتھ لے کے بیٹھ گئی ۔

اسی ٹیلے سے ذرا پرے بالیان اور اس کے چھ محافظوں نے پڑائو ڈال رکھا تھا ۔ اُن کے گھوڑے کچھ دور بندھے ہوئے تھے ۔ بالیان موبی کو ساتھ لیے ٹیلے کی طرف آگیا ۔ اس کے ہاتھ میں شراب کی بوتل تھی ۔ موبی نے نیچے بچھانے کے لیے دری اُٹھا رکھی تھی ۔ بالیان محافظوں سے دُور جا کر عیش و عشرت کرنا چاہتی تھا۔ اس نے دری بچھا دی اور موبی کو اپنے ساتھ بٹھا لیا ۔ وہ بیٹھے ہی تھے کہ رات کے سکوت میں انہیں قریب سے کسی کی باتوں کی آواز یں سنائی دیں ۔ وہ چونکے اور دم سادھ کر سننے لگے ۔آواز کسی لڑکی کی تھی ۔ بالیان اور موبی دبے پائوں اس طر ف آئے اور ٹیلے کی اوٹ سے دیکھا ۔ انہیں دو سائے بیٹھے ہوئے نظر آئے ۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ ایک عورت اور ایک مرد ہے ۔ موبی اور زیادہ قریب ہوگئی اور غور سے باتیں سننے لگی ۔ مصری کمانڈر کے ساتھ اس لڑکی نے ایسی واضح باتیں کیں کہ موبی کو یقین ہوگیا کہ یہ اس کی ساتھی لڑکی ہے اور یہ بھی واضح ہو گیا کہ اسے قاہرہ لے جایا جارہا ہے ۔

مصر ی نے جو حرکتیں اور باتیں کیں ، وہ تو بالکل ہی صاف تھیں ۔ کسی شک کی گنجائش نہیں تھی ۔ موبی جان گئی تھی کہ یہ مصری اس لڑکی کو اس کی مجبوری کے عالم میں عیاشی کا ذریعہ بنا رہا ہے۔ موبی نے یہ بالکل نہ سوچا تھا کہ اردگرد کوئی اور بھی ہوگا اور اس نے جو ارادہ کیا ہے ، اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ اس نے پیچھے ہٹ کر بالیان کے کان میں کچھ کہا …… ” یہ مصری ہے اور یہ میرے ساتھ کی ایک لڑکی کے ساتھ عیش کر رہا ہے ۔ اس لڑکی کو بچالو۔ یہ مصری تمہارا دشمن ہے اور لڑکی تمہاری دوست ”…… اس نے بالیان کو اور زیادہ بھڑکانے کے لیے کہا ۔” یہ بڑی خوبصورت لڑکی ہے ، اسے بچالو اور اپنے سفری حرم میں شامل کرلو

بالیان شراب پئے ہوئے تھا ۔ اس نے کمر بند سے خنجر نکالا اور بہت تیزی سے آگے بڑھ کر خنجر مصری کمانڈر کی پیٹھ میں گھونپ دیا۔ خنجر نکال کر اسی تیزی سے ایک اور وار کیا ۔ لڑکی مصری سے آزاد ہو کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ موبی دوڑی اور اُسے آواز دی ۔ وہ دوڑ کر موبی سے لپٹ گئی۔ موبی نے اس سے پوچھا کہ دوسری کہاں ہیں ۔ اس نے رابن اور دوسرے ساتھیوں کے متعلق بھی بتایا اور یہ بھی کہا کہ وہ پندرہ محافظوں کے پہرے میں ہیں ۔ بالیان دوڑتا گیا اور اپنے چھ ساتھیوں کو بلا لایا۔ اُن کے پاس کمانیں اور دوسرے ہتھیار تھے۔ اتنے میں قیدیوں کے محافظوں میں سے ایک اپنے مصری کمانڈر کو آوازیں دیتا اِدھر آیا۔ بالیان کے ایک ساتھی نے تیر چلایا اور اس محافظ کو ختم کر دیا ۔ وہ لڑکی انہیں اپنی جگہ لے جانے کے لیے آگے آگے چل پڑی ۔

بالیان کو آخری ٹیلے کے پیچھے روشنی نظر آئی ۔ اس نے ٹیلے کی اوٹ میں جا کر دیکھا ۔ وہاں بڑی بڑی دو مشعلیں جل رہی تھیں۔ ان کے ڈنڈے زمین میں گڑھے ہوئے تھے ۔ اس کے اوپر والے سروں پر تیل میں بھیگے ہوئے کپڑے لپٹے ہوئے تھے ، جو جل رہے تھے ۔ بالیان اپنے ساتھیوں کے ساتھ اندھیرے میں تھا ۔ اسے روشنی میں پانچ لڑکیاں الگ کھڑی نظر آرہی تھیں اور محافظ بھی دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے درمیان پانچ لاشیں پڑی تھیں ، جن میں تیر اُترے ہوئے تھے ۔ موبی اور دوسری لڑکی کی سسکیاں نکلنے لگیں۔ موبی کے اُکسانے پربالیان نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ تمہارا شکار ہے ، تیروں سے ختم کر دو ۔ ان کی تعداد اب چودہ تھی ۔ یہ اُن کی بد قسمتی تھی کہ وہ روشنی میں تھے۔

بالیان کے ساتھیوں نے کمانوں میں تیر ڈالے۔ تمام تیر ایک ہی بار کمانوں سے نکلے ۔ دوسرے ہی لمحے کمانوں میںچھ اور تیر آچکے تھے۔ ایک ہی با قیدیوں کے چھ محافظ ختم ہو گئے ۔ باقی ابھی سمجھ نہ سکے تھے کہ یہ تیر کہاں سے آئے ہیں ۔ چھ اور تیروں نے چھ اور محافظوں کر گرا دیا ۔ باقی دو رہ گئے تھے۔ اُن میں سے ایک اندھیرے میں غائب ہوگیا ۔ دوسرا ذرا سست نکلا اور وہ بھی سوڈانیوں کے بیک وقت تین تیروں کا شکار ہو گیا ۔ تین شتربان رہ گئے تھے، جو سامنے نہیں تھے۔ وہ اندھیرے میں کہیں اِدھر اُدھر ہوگئے ۔ مشعلوں کی روشنی میں اب لاشیں ہی لاشیں نظر آرہی تھیں۔ ہر لاش ایک ایک تیر لیے ہوئے تھی اورء ایک میںتین تیر پیوست تھے۔ موبی دوڑ کر لڑکیوں سے ملی ۔ اتنے میں ایک گھوڑے کی سرپٹ دوڑنے کی آوازیں سنائی دی ، جو دور نکل گئیں ۔ بالیان نے کہا …… ”یہاں رُکنا ٹھیک نہیں ۔ ان میں ایک بچ کر نکل گیا ہے ۔ وہ قاہرہ کی سمت گیا ہے ، فوراً یہاں سے نکلو ”۔

انہوں نے محافظوں کے گھوڑے کھولے اور اپنی جگہ لے گئے ، وہاں جا کر دیکھا ایک گھوڑا بمع زین غائب تھا ۔ اسے بچ کر نکل جانے والا محافظ لے گیا تھا ۔ وہ اپنے گھوڑوں تک نہیں جا سکا تھا ۔ چھپ کر اُدھر چلاگیا ، جہاں اسے آٹھ گھوڑے بندھے نظر آئے ۔ زینیں پاس ہی پڑی تھیں ۔ اُس نے ایک گھوڑے پر زین کسی اور بھاگ نکلا ۔ بالیان نے چودہ گھوڑوں پر زینیں کسوائیں ۔ سامان دو گھوڑوں پر لادا اور باقی گھوڑے ساتھ لیے اور روانہ گئے ۔ لڑکیوں نے موبی کو سنایا کہ اُن پرکیا بیتی ہے اور انہیں کہاں لے جایا رہا تھا ۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ رابن اور اس کے ساتھی لاشوں کے ہتھیار اُٹھا نے گئے تھے ، مگرمعلوم نہیں کہ وہ کس طرح مارے گئے ۔

موبی نے کہا …… ” ایوبی کے کیمپ میں میری اور رابن کی ملاقات اچانک ہوگئی تھی ۔ اس نے کہا تھا کہ مجھے یو ں نظر آرہا تھا کہ یسوع مسیح کو ہماری کامیابی منظور ہے ، ورنہ ہم اس طر ح خلافِ توقع نہ ملتے۔ آج ہماری ملاقات بالکل خلافِ توقع ہوگئی ہے ، لیکن میں یہ نہیں کہوں گی کہ یسوع مسیح کو ہماری کامیابی منظور ہے ۔خدائے یسوع مسیح ہم سے ناراض معلوم ہوتا ہے ۔ ہم نے جس کا م میں ہاتھ ڈالا وہ چوپٹ ہوا ۔ بحیرئہ روم میں ہماری فوج کو شکست ہوئی اور مصر میں ہماری دوست سوڈانی فوج کو شکست ہوئی ۔ اِدھر رابن اور کرسٹوفر جیسے دلیر اور قابل آدمی اور ان کے اتنے اچھے ساتھی مارے گئے ۔ معلوم نہیں ، ہمارا کیا انجام ہوگا ”۔

” ہمارے جیتے جی تمہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا ”۔ بالیان نے کہا ……” میرے شیروں کا کمال تم نے دیکھ لیا ہے ”۔

٭ ٭ ٭

جس وقت قیدیوں کا قافلہ لاشوں کے پاس ٹیلوں میں رُکا تھا ۔ اُس وقت ساحل پر سلطان ایوبی کی فوج کے

کیمپ میں تین آدمی داخل ہوئے ۔ وہ اٹلی کی زبان بولتے تھے۔ ان کا لباس بھی اٹلی کے دیہاتیوں جیسا تھا ، ان کی زبان کوئی نہیں سمجھتا تھا ۔ اٹلی کے جنگی قیدیوں سے معلوم کیا گیا ۔ انہوں نے بتایا کہ یہ اٹلی سے آئے ہیں اور اپنی لڑکیوں کو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں ۔ یہ یہاں کے سالار سے ملنا چاہتے ہیں ۔ انہیں بہائوالدین شداد کے پاس پہنچا دیا گیا ۔ صلاح الدین ایوبی کی غیر حاضری میں شداد کیمپ کمانڈر تھا ۔ اٹلی کا ایک جنگی قیدی بلایا گیا ۔ وہ مصر کی زبان بھی جانتا تھا ۔ اس کی وساطت سے ان آدمیوں کے ساتھ باتیں ہوئیں ۔ اِن تین آدمیوں میں ایک ادھیڑ عمر تھا اور دو جوان تھے۔ تینوں نے ایک ہی جیسی بات سنائی ۔ تینوں کی ایک ایک جوان بہن کو صلیبی فوجی اُن کے گھروں سے اُٹھا لائے تھے۔ انہیں کسی نے بتایا تھا کہ وہ لڑکیاں مسلمانوں کے کیمپ میں پہنچ گئی ہیں ۔ یہ اپنی بہنوں کی تلاش میں آئے ہیں

انہیں بتایا گیا تھا کہ یہاں سات لڑکیاں آئی تھیں ۔انہوں نے یہی کہانی سنائی تھی مگر ساتوں جاسوس نکلیں ۔ ان تینوں نے کہا کہ ہماری بہنوں کا جاسوسی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ہم توغریب اور مظلوم لوگ ہیں ۔کسی سے کشتی مانگ کر اتنی دور آئے ہیں۔ ہم غریبوں کی بہنیں جاسوسی کی جراأت کیسے کر سکتی ہیں۔ ہمیں اِن سات لڑکیوں کا کچھ پتہ نہیں ۔ معلوم نہیں، وہ کون ہوں گی ۔ ہم تو اپنی بہنوںکو ڈھونڈ رہے ہیں ۔

” ہمارے پاس اور کوئی لڑکی نہیں ”۔ شداد نے بتایا ۔” یہی سات لڑکیاں تھیں، جن میں سے ایک لاپتہ ہو گئی تھی اور باقی چھ کو پرسوں صبح یہاں سے روانہ کر دیا گیا ہے ۔ اگر انہیں دیکھنا چاہتے ہو تو قاہرہ چلے جائو ۔ ہمارا سلطان رحم دِل انسان ہے ، تمہیں لڑکیاں دکھا دے گا ”۔

”نہیں ”۔ایک نے کہا ……” ہماری بہنیں جاسوس نہیں ۔ وہ سات کوئی اورہوں گی۔ ہماری بہنیں سمندر میں ڈوب گئی ہوں گی یا ہمارے ہی فوجیوں نے انہیں اپنے پاس رکھا ہوا ہوگا ”۔

بہائو الدین شداد نیک خصلت انسان تھا۔ اُس نے ان دیہاتیوں کی مظلومیت سے متا ثر ہو کر اُن کی خاطر تواضع کی اور انہیں عزت سے رخصت کیا ۔ اگر وہاںعلی بن سفیان ہوتا تو ان تینوں کو اتنی آسانی سے نہ جانے دیتا۔ اس کی سراغ رساں نظریں بھانپ لیتیں کہ یہ تینوں جھوٹ بول رہے ہیں …… تینوں چلے گئے ۔ کسی نے بھی نہ دیکھا کہ وہ کہاں گئے ہیں ۔ وہ چلتے ہی چلے گئے اور شام تک چلتے ہی رہے ۔ کیمپ سے دُورکہاں کوئی خطرہ نہ تھا ، وہ چٹانوں کے اندر چلے گئے ۔ وہاں ان جیسے اٹھارہ آدمی بیٹھے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ ان تینوں میں جو اُدھیڑ عمر تھا ، وہ میگنا ناماریوس تھا ۔ یہ صلیبیوں کی وہ کمانڈو پارٹی تھی جسے لڑکیوں کو آزاد کرانے اور اگر ممکن ہو سکے تو سلطان ایوبی کو قتل کرنے کا مشن دیا گیا تھا ۔ان تینوں نے کیمپ سے کچھ اور ضروری معلومات بھی حاصل کرلی تھیں ۔ یہ بھی معلوم کر لیا تھا کہ صلاح الدین ایوبی یہاں نہیں قاہرہ میں ہے ۔ شداد کے ساتھ باتیں کرتے ، جہاں انہیں یہ معلوم ہوگیا تھا کہ لڑکیاں قاہرہ کو روانہ کر دی گئی ہیں ، وہاں انہوں نے یہ بھی معلوم کر لیا تھا کہ ان کے ساتھ پانچ مرد قیدی بھی ہیں ۔

یہ پارٹی ایک بڑی کشتی میں آئی تھی ۔ انہوں نے کشتی ساحل پرایک ایسی جگہ پر بانددی تھی جہاں سمندر چٹان کو کاٹ کر اندر تک گیا ہوا تھا ۔ ان لوگوں کو اب قاہرہ کے لیے روانہ ہونا تھا ، مگر سواری نہیں تھی ۔ یہ تین آدمی جو کیمپ میں گئے تھے ، یہ بھی دیکھ آئے تھے کہ اس فوج کے گھوڑے اور اونٹ کہاں بندھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دیکھاتھا کہ کیمپ سے جانور چوری کرنا آسان نہیں ۔ اکیس گھوڑے یااونٹ چوری نہیں کیے جاسکتے تھے۔ ابھی سورج طلوع ہونے میںبہت دیر تھی ۔ وہ پیدل ہی چل پڑے ۔ اگر انہیں سواری مل جاتی تو وہ قیدیوں کو راستے میں ہی جا لینے کی کوشش کرتے ۔ اب وہ یہ سوچ کر پیدل چلے کہ قاہر میں جا کر قیدیوں کو چھڑانے کی کوشش کریں گے۔ سب جانتے تھے کہ یہ زندگی اور موت کی مہم ہے ۔ صلیبی فوج کے سربراہوں اور شاہوں نے انہیں کامیابی کی صورت میں جو انعام دینے کا وعدہ کیا تھا ، وہ اتنا زیادہ تھا کہ کوئی کام کیے بغیر اپنے کنبوں سمیت ساری عمر آرام اور بے فکری کی زندگی بسر کر سکتے تھے ۔

میگناناماریوس کو جیل خانے سے لایا گیا تھا ۔ اُسے ڈاکہ زنی کے جرم میں تیس سال سزائے قید دی گئی تھی ۔ اس کے ساتھ دو اور قیدی تھے جن میں ایک کی سزا چوبیس سال اور دوسرے کی ستائیس سال تھی ۔ اُس زمانے میں قید خانے قصاب خانے ہوتے تھے ۔ مجرم کو انسان نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ بڑی ظالمانہ مشقت لی جاتی اور میویشیوں کی طرح کھانے کو بے کار خوراک دی جاتی تھی ۔ قیدی رات کو بھی آرام نہیں کر سکتے تھے ۔ایسی قید سے موت بہتر تھی ۔ ان تینوں کو انعام کے علاوہ سزا معاف کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا ۔۔ صلیب پرحلف لے کر انہیں اس پارٹی میں شامل کیا گیا تھا ۔ جس پادری نے اُن سے حلف لیا تھا ، اس نے انہیں بتایا تھا کہ وہ جتنے مسلمانوں کو قتل کریں گے ، اس سے دس گناہ ان کے گناہ بخشے جائیں گے اور اگر انہوں نے صلاح الدین ایوبی کو قتل کیا تو اُن کے تمام گناہ بخش دئیے جائیں گے اور اگلے جہان خدائے یسوع مسیح انہیں جنت میں جگہ دیں گے ۔

یہ معلوم نہیں کہ یہ تینوں قید خانے کے جہنم سے آزاد ہونے کے لیے موت کی اس مہم میں شامل ہوئے تھے یا اگلے جہاں جنت میںداخل ہونے کے لیے یا انعام کا لالچ انہیں لے آیا تھا یا وہ نفرت جو اُن کے دِلوں میں مسلمانوں کے خلاف ڈالی گئی تھی ۔ بہر حال وہ عزم کے پختہ معلوم ہوتے تھے اور اُن کا جوش و خروش بتا رہا تھا کہ وہ کچھ کر کے ہی مصر سے نکلیں گے یا جانیں قربان کردیں گے ۔ اقی اٹھارہ تو فوج کے منتخب آدمی تھے ۔ انہوں نے جلتے ہوئے جہازوں سے جانیں بچائی تھیں اور بڑی مشکل سے واپس گئے تھے۔ یہ مسلمانوں سے اس ذلت آمیز شکست کا انتقام لینا چاہتے تھے۔ انعام کا لالچ تو تھا ہی …… یہی جذبہ تھا جس کے جوش سے وہ اَ ن دیکھی منزل کی سمت پیدل ہی چل پڑے ۔

دوپہر کے وقت ایک گھوڑا سوار صلاح الدین ایوبی کے ہیڈ کواٹر کے سامنے جا رُکا ۔ گھوڑے کا پسینہ پھوٹ رہا تھا اور سوار کے منہ سے تھکن کے مارے بات نہیں نکل رہی تھی ۔ وہ گھوڑے سے اُترا تو گھوڑے کاسارا جسم بڑی زور سے کانپا ۔ گھوڑا گر پڑا اور مر گیا ۔ سوار نے اسے آرام دئیے بغیر اور پانی پلائے بغیر ساری رات اور آدھا دن مسلسل دوڑایا تھا ۔ سلطان ایوبی کے محافظوں نے سوار کو گھیرے میں لے لیا ۔ اُسے پانی پلایا اور جب وہ بات کرنے کے قابل ہوا تو اس نے کہا کہ کسی سالار یا کماندار سے ملا دو …… سلطان ایوبی خود ہی باہر آگیا تھا ۔ سوار اُسے دیکھ کر اُٹھا اور سلام کرکے کہا ……” سلطان کا اقبال بلند ہو ۔ بُری خبر لایا ہوں ”…… سلطان ایوبی اسے اندر لے گیا اور کہا ……” خبر جلدی سے سنا ئو ”۔

”قیدی لڑکیاں بھاگ گئی ہیں ۔ ہمارا پورا دستہ مارا گیا ہے ” ۔ اس نے کہا ……” مرد قیدیوں کو ہم نے جان سے مار دیا ہے۔ میں اکیلا بچ کر نکلا ہوں ۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ حملہ آور کون تھے ۔ ہم مشعلوں کی روشنی میں اور وہ اندھیرے میں ۔ اندھیرے سے تیر آئے اور میرے تمام ساتھی ختم ہوگئے ”۔

یہ قیدیوں کے محافظوں کے دستے کا وہ آدمی تھا جو اندھیرے میں غائب ہو گیا تھا اور سوڈانیوںکا گھوڑا کھول کر بھاگ آیا تھا ۔ اس نے گھوڑے کو بلاروکے سرپٹ دوڑایا تھا اور اتنا طویل سفر آدھے سے بھی تھوڑے وقت میں طے کر لیا تھا ۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے علی بن سفیان اور فوج کے ایک نائب سالار کو بلایا ۔ وہ آئے تو اس آدمی سے کہا کہ وہ اب ساری بات سنائے۔ اُس نے کیمپ سے روانگی کے وقت سے بات شروع اور اپنے کمانڈر کے متعلق بتایا کہ وہ ایک قیدی لڑکی کے ساتھ دِل بہلاتا رہا اور قیدیوںسے لاپروا ہو گیا ، پھر راستے میں جو کچھ ہوتا رہا اور آخر میں جو کچھ ہوا ، اُس نے سنا دیا ، مگر وہ یہ نہ بتا سکا کہ حملہ آور کون تھے ۔

سلطان ایوبی نے علی بن سفیان اور نائب سالارسے کہا ……” اس کامطلب یہ ہے کہ صلیبی چھاپہ مار مصر کے اندر موجو دہیں ”۔

” ہو سکتا ہے ”۔ علی بن سفیان نے کہا ……” یہ صحرائی ڈاکو بھی ہو سکتے ہیں ۔ اتنی خوبصورت چھ لڑکیاں ڈاکوئوں کے لیے بہت بڑی کشش تھی ”۔

” تم نے اس کی بات غور سے نہیں سنی ”۔ سلطان ایوبی نے کہا …… ” اس نے کہا ہے کہ مرد قیدی لاشوں کے ہتھیار اُٹھا لائے تھے اور محافظوں کو قتل کرنے لگے تھے۔ محافظوں میں سے دو نے انہیں تیروں سے ہلاک کر دیا ۔ اس کے بعد اُن پر حملہ ہوا ۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے صلیبی چھاپہ مار اُن کے تعاقب میں تھے ”۔

” وہ کوئی بھی تھے سلطانِ محترم !” نائب سالار نے کہا ۔ ” فوری طور پر کرنے والا کام یہ ہے کہ اس عسکری کو راہنمائی کے لیے ساتھ بھیجا جائے اور کم از کم بیس گھوڑا سوار جو تیز رفتار ہوں ، تعاقب کے لیے بھیجے جائیں۔ یہ بعد کی بات ہے کہ وہ کون تھے ”۔

” میں اپنے ایک نائب کو ساتھ بھیجوں گا ” ۔ علی بن سفیان نے کہا ۔

”اس عسکری کو کھانا کھلائو ”…… سلطان ایوبی نے کہا …… ” اسے تھوڑی دیر آرام کرلینے دو۔ اتنی دیر میں بیس سوار تیار کرو اور تعاقب میں روانہ کر دو۔ اگر ضرورت سمجھو تو زیادہ سوار بھیج دو ”۔

” میں نے جہاں گھوڑا کھولا تھا ، وہاں آٹھ گھوڑے بندھے ہوئے تھے ”۔ محافظ نے کہا ……” وہاں کوئی انسان نہیں تھا ۔حملہ آور وہی ہو سکتے ہیں ، اگر گھوڑے آٹھ تو وہ بھی آٹھ ہی ہوں گے ”۔

چھاپہ ماروں کی تعداد زیادہ نہیں ہو سکتی ”۔ نائب سالار نے کہا …… ” ہم انشاء اللہ انہیں پکڑ لیں گے ”۔

” یہ یاد رکھو کہ وہ چھاپہ مار ہیں ”۔ سلطان ایوبی نے کہا …… ” اور لڑکیاں جاسوس ہیں ، اگر تم ایک جاسوس یا چھاپہ مار کو پکڑ لو تو سمجھ لو کہ تم نے دشمن کے دو سو عسکری پکڑ لیے ہیں ۔ میں ایک جاسوس کو ہلاک کرنے کے لیے دشمن کے دو سو عسکریوں کو چھوڑ سکتا ہوں ۔ ایک عورت کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی مگر ایک جاسوس اور تخریب کار عورت اکیلی پورے ملک کا بیڑہ غرق کر سکتی ہے ۔ یہ لڑکیاں بے حد خطرناک ہیں ، اگر وہ مصر کے اندر رہ گئیں تو تمہارا پورے کا پورا لشکر بے کار ہو جائے گا ۔ ایک جاسوس یا جاسوسہ کو پکڑنے یا جان سے مارنے کے لیے اپنے ایک سو سپاہی قربان کر دو ۔ یہ سودا پھر بھی سستا ہے ۔ چھاپہ مار اگر نہ پکڑے جائیں تو مجھے پروا نہیں اِن لڑکیوں کو ہر قیمت پر پکڑنا ہے ۔ ضرورت سمجھو تو تیروں سے انہیں ہلاک کر دو ۔ زندہ نکل کر نہ جائیں ”۔

ایک گھنٹے کے اندر اندر بیس تیز رفتار سوار روانہ کر دئیے گئے ۔ اس کا راہنما یہ محافظ تھا اور کمانڈر علی بن سفیان کا ایک نائب زاہدین تھا ۔ ان سواروں میں فخرالمصری کو علی بن سفیان کے خاص طور پر شامل کیا تھا ۔ یہ فخر کی خواہش تھی کہ اسے بالیان کے تعاقب کے لیے بھیجا جائے۔ یہ تو نہ علی بن سفیان کو علم تھا ، نہ فخر المصری کو کہ جن کے تعاقب میں سوار جا رہے ہیں ، وہ بالیان ، موبی اور ان کے چھ وفادار ساتھی ہیں ۔

ادھر سے یہ بیس سوار روانہ ہوئے جن میں اکیسواں ان کا کمانڈر تھا ۔ ان کا ہدف لڑکیاں تھیں اور انہیں چھڑا کر لے جانے والے ۔ ادھر سے صلیبیوں کے بیس کمانڈو آرہے تھے جن میں اکیسواں اُن کا کمانڈر تھا ۔ ان کا بھی ہدف یہی لڑکیاں تھیں ، مگر ان کی کمزوری یہ تھی کہ وہ پیدل آرہے تھے ۔ دونوں پارٹیوں میں سے کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ جن کے تعاقب میں وہ جا رہے ہیں ، وہ کہاں ہیں ۔

صلیبیوں کی کمانڈو پارٹی اگلے روز سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے خاصہ فاصلہ طے کر چکی تھی ۔ راستہ اُوپر چڑھ رہا تھا ، وہ علاقہ نشیب و فراز کا تھا ۔ یہ لوگ بلندی پر گئے تو انہیں دور ایک میدان میں جہاں کھجور کے بہت سے درختوں کے ساتھ دوسری قسم کے درخت بھی تھے ، بے شمار اُونٹ کھڑے نظر آئے ۔ انہیںبٹھا بٹھا کر اُن سے سامان اُتارا جا رہا تھا ۔ بارہ چودہ گھوڑے بھی تھے۔ ان کے سوار فوجی معلوم ہوتے تھے ، باقی تمام شتر بان تھے ۔ یہ اکیس صلیبی رُک گئے ۔ انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ، جیسے انہیں یقین نہ آرہا ہو کہ وہ اونٹ اور گھوڑے ہیں ۔ یہی ان کی ضرورت تھی ۔ اُن کے کمانڈر نے پارٹی کا روک لیا اور کہا ……”ہم سچے دل سے صلیب پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا کر آئے ہیں ۔ وہ دیکھو صلیب کا کرشمہ …… یہ معجزہ ہے ۔ خدا نے آسمان سے تمہارے لیے سواری بھیجی ہے ۔ تم میں سے جس کے دِل میں کسی بھی گناہ کا یا فرض سے کوتاہی کا یا جان بچا کر بھاگنے کا خیال ہے ، وہ فوراً نکال دو ۔ خدا کا بیٹا جو مظلوموں کا دوست اور ظالموں کا دشمن ہے ، تماری مدد کے لیے آسمان سے اُتر آیا ہے ۔

سب کے چہروں پر تھکن کے جو آثا رتھے ، وہ غائب ہو گئے اور چہروں پر رونق آگئی ۔ انہوں نے ابھی اس پہلو پر غور ہی نہیں کیا تھا کہ اتنے میں بے شمار اونٹوں اور گھوڑوں میں سے جن کے ساتھ اتنے زیادہ فوجی اور شتر بان ہیں ، وہ اپنی ضرورت کے مطابق جانور کس طرح حاصل کریں گے ۔

یہ ایک سو کے لگ بھگ اونٹوں کا قافلہ تھا جو محاذ پر فوج کے لیے راشن لے جا رہا تھا ۔ چونکہ ملک کے اندر دشمن کا کوئی خطر ہ نہیں تھا ، اس لیے قافلے کی حفاظت کا کوئی خاص اہتمام نہیں کیا گیا تھا ۔ صرف دس گھوڑا سوار تھا بھیج دئیے گئے تھے ۔ شتر بان نہتے تھے۔ ابھی چھاپہ مار اور شب خون مارنے والے میدان میں نہیں آئے تھے ۔ صلیبیوں کے یہ اکیس آدمی پہلے چھاپہ مار تھے یا اس سے پہلے صلاح الدین ایوبی نے شب خون کا وہ طریقہ آزمایا تھا جس میں تھوڑے سے سواروں نے سوڈانیوں کی فوج کے عقبی حصے پر حملہ کیا اور غائب ہو گئے تھے ۔

اس ”وار کرو اور بھاگو ” کے طریقہ جنگ کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے سلطان ایوبی نے تیز رفتار ، ذہین اور جسمانی لحاظ سے غیر معمولی طور صحت مند عسکریوں کے دستے تیار کرنے کا حکم دے دیا تھا اور دشمن کے ملک میں لڑاکا جاسوس بھیجنے کی سکیم بھی تیار کر لی تھی ، لیکن صلیبیوں کو ابھی شب خون اور چھاپوں کی نہیں سوجھی تھی ۔کسی نجی قافلے کو ڈاکو بعض اوقات لوٹ لیا کرتے تھے ۔ سرکاری قافلے ہمیشہ محفوظ رہتے تھے ۔ اسی لیے فوجیوں کے رسد کے قافلے بے خوف و خطر رواں دواں رہتے تھے ۔ اس سے پہلے بھی اسی محاذ کے لیے دو بار رسد کے قافلے جا چکے تھے اور اسی علاقے سے گزرے تھے ۔ لہٰذا حفاظتی اقدامات کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی تھی ۔

یہ قافلہ بھی خطروں سے بے پروا محاذ کو جا رہا تھا اور رات کے لیے یہاں پڑائو کر رہا تھا ۔ اس سے تھوڑی ہی دور قافلے کے لیے بہت بڑا خطرہ آرہا تھا ۔ صلیبی کمانڈر نے اپنی پارٹی کو ایک نشیب میں بٹھا لیا اور دو آدمیوں سے کہا کہ وہ جا کر یہ دیکھیں کہ قافلے میں کتنے اُونٹ ، کتنے گھوڑے ، کتنے مسلح آدمی اور خطرے کیاکیا ہیں۔ پھر وہ رات کو حملہ کرنے کی سکیم بنانے لگا ۔ اُن کے پاس ہتھیاروں کی کمی نہیں تھی ۔ جذبے کی بھی کمی نہیں تھی ۔ ہر ایک آدمی جان پر کھیلنے کو تیا ر تھا ۔

نصف شب سے بہت پہلے وہ دو آدمی واپس آئے جو قافلے کو قریب سے دیکھنے گئے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ قافلے کے ساتھ دس مسلح سوار ہیں جو ایک ہی جگہ سوئے ہوئے ہیں ۔ گھوڑے الگ بندھے ہوئے ہیں ۔ شتربان ٹولیوں میں بٹ کر سوئے ہوئے ہیں ۔ سامان میں زیاد ہ تر بوریاں ہیں ۔ شتر بانوں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ۔

یہ بڑی اچھی معلومات تھیں ۔ کام مشکل نہیں تھا ۔

قافلے والے گہری نیند سوئے ہوئے تھے ۔ دس عسکریوں کی آنکھ بھی نہ کھلی کہ تلواروں اور خنجروں نے انہیں کاٹ کر رکھ دیا ۔ صلیبی چھاپہ ماروں نے یہ کام اتنی خاموشی اور آسانی سے کر لیا کہ بیشتر شتربانوں کی آنکھ ہی کھلی اور جن کی آنکھ کھلی و ہ سمجھ ہی نہ پائے کہ یہ کیا ہو رہا ہے ، جس کے منہ سے آواز نکلی وہ اس کی زندگی کی آخری آواز ثابت ہوئی ۔ چھاپہ ماروں نے شتربانوں کو ہراساں کرنے کے لیے چیخنا شروع کر دیا ۔ سوئے ہوئے شتر بان گھبرا کر ہڑ بڑا کر اُٹھے ۔ اُونٹ بھی بدک کر اُٹھنے لگے ۔ صلیبیوں نے شتربانوں کا قتلِ عام شروع کر دیا ۔ بہت تھوڑے بھاگ سکے ۔ صلیبی کمانڈر نے چلا کر کہا …… ” یہ مسلمانوں کا راشن ہے ، تباہ کر دہ ۔ اونٹوں کوبھی ہلاک کر دو ” ……انہوں نے اونٹوں کے پیٹوں میں تلواریں گھونپنی شروع کر دیں ۔ اونٹوں کے واویلے سے رات کانپنے لگی ۔ کمانڈر نے گھوڑے دیکھے ۔ بار ہ تھے، دس سواروں کے لیے دو فالتو ۔ اُس نے نو اُونٹ الگ کر لیے ۔

سورج طلوع ہوا تو پڑائو کا منظر بڑا بھیانک تھا ۔ بے شمار لاشیں بکھری ہوئی تھیں ۔ بہت سے اونٹ مر چکے تھے ۔ کئی تڑپ رہے تھے ۔ کچھ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے ۔ آٹا اور کھانے کا دیگر سامان خون میں بکھرا ہوتا تھا ۔ بارہ کے بارہ گھوڑے غائب تھے اور وہاں کوئی زندہ انسان موجود نہیں تھا ۔ چھاپہ مار دُور نکل گئے تھے۔ اس کی سواری کی ضرورت پوری ہو گئی تھی ۔ اب وہ تیز رفتاری سے اپنے شکار کو ڈھونڈ سکتے تھے ۔

٭ ٭ ٭

شکار دُور نہیںتھا ۔ بالیان کا دماغ پہلے ہی موبی کے حسن و جوانی اور شراب نے مائوف کر رکھا تھا ۔ اب اس کے پاس سات حسین اور جوان لڑکیاں تھیں ۔ وہ خطروں کو بھول ہی گیا تھا ۔ موبی اس بار بارکہتی تھی کہ اتنا زیادہ کہیں رُکنا ٹھیک نہیں، جتنی جلدی ہو سکے ، سمندر تک پہنچنے کی کوشش کرو ، ہمارا تعاقب ہو رہا ہوگا ، مگر بالیان بے فکرے بادشاہوں کی طرح قہقہ لگا کر اس کی بات سنی اَن سنی کر دیتا تھا ۔ لڑکیوں کو جس رات آزاد کرایا گیا تھا ، اس سے اگلی رات وہ ایک جگہ رُکے ہوئے تھے۔ بالیان نے موبی سے کہا کہ ہم سات مرد ہیں اور تم سات لڑکیاں ہو۔ میرے ان چھ دوستوں نے میرا ساتھ بڑی دیانت داری سے دیا ہے ۔ میں اُن کی موجودگی میں تمہارے ساتھ رنگ رلیاں مناتا رہا، پھر بھی وہ نہیں بولے ۔ اب میں انہیں انعام دینا چاہتا ہوں۔ تم ایک ایک لڑکی میرے ایک ایک دوست کے حوالے کر دو اور انہیں کہو کہ یہ تمہاری وفاداری کا تحفہ ہے۔

”یہ نہیں ہو سکتا ” ……موبی نے غصے سے کہا ……” ہم فاحشہ نہیں ہیں ۔ میری مجبوری تھی کہ میں تمہارے ہاتھ میںکھلونا بنی رہی ۔ یہ لڑکیاں تمہاری خریدی ہوئی لونڈیاں نہیں ہیں ”۔

” میں نے تمہیں کسی وقت بھی شریف لڑکی نہیں سمجھا”۔ بالیان نے کہا ……”تم سب ہمارے لیے اپنے جسموں کا تحفہ لائی ہو ۔ یہ لڑکیاں معلوم نہیں کتنے مردوں کے ساتھ کھیل چکی ہیں۔ ان میں ایک بھی مریم نہیں ”۔

” ہم اپنا فرض پورا کرنے کے لیے جسموں کا تحفہ دیتی ہیں ”۔ موبی نے کہا …… ” ہم عیاشی کے لیے مردوں کے پاس نہیں جاتیں ۔ ہمیں ہماری قوم اور ہمارے مذہب نے ایک فرض سونپاہے ۔ اس فرض کی ادائیگی کے لیے ہم اپنا جسم ، اپنا حسن اور اپنی عصمت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں ۔ ہمارا فرض پورا ہو چکا ہے ۔ اب تم جو کچھ کہہ رہے ہو ، یہ عیاشی ہے جو ہمیں منظور نہیں ۔ جس روز ہم عیاشی میں اُلجھ گئیں ، اس روز سے صلیب کا زوال شروع ہو جائے گا ۔ صلیب ٹوٹ جائے گی ۔

(جاری ھے)

(صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ داستان ایمان فروشوں کی سلطان صلاح الدین ایوبی کی جنگی مہمات پر لکھا گیا انتہای سحر انگیز ناول ہے، سلطان صلاح الدین یوسف بن ایوب ایوبی سلطنت کے بانی تھے سلطان 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔سلطان صلاح الدین نسلاً کرد تھے اور 1138ء میں کردستان کے اس حصے میں پیدا ہوۓ جو اب عراق میں شامل ہے ،شروع میں وہ سلطان نور الدین زنگی کے یہاں ایک فوجی افسر تھے۔ مصر کو فتح کرنے والی فوج میں صلاح الدین بھی موجود تھے اور اس کے سپہ سالار شیر کوہ صلاح الدین کے چچا تھے۔ مصر فتح ہو جانے کے بعد صلاح الدین کو 564ھ میں مصر کا حاکم مقرر کردیا گیا۔ اسی زمانے میں 569ھ میں انہوں نے یمن بھی فتح کرلیا۔ نور الدین زنگی کے انتقال کے بعد صلاح الدین حکمرانی پر فائز ہوۓ)

شئیر کریں جزاکم اللہ خیرا۔

مزید پڑھیں: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔۔ نویں قسط
مزید پڑھیں: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔۔ ساتویں قسط