حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر51

بنو قینقاع اور بنونضیر کے شہر بدر ہونے کے بعد بنو غطفان، بنو ہذیل اور بنوقریظہ اندر ہی اندر مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ مدینے سے باہر پورے عربستان کی صورتِ حال بھی کچھ مختلف نہیں تھی۔ قریشِ مکہ بدر کے مقتولوں کے زخم چاٹ رہے تھے۔ اندھی تقلید میں گھرے ہوئے عرب قبائل، قریشِ مکہ کے ہمنوا تھے۔ صحرائے عرب کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے یہ قبیلے جہاں جہاں آباد تھے قریشِ مکہ کی حمایت کا دم بھرتے تھے۔ اللہ کے نبیؐ کی کامیابیاں اور اُن کے لئے مسلمانوں کے جذبہء ایثار اور جانفروشی کی خبریں انہیں بے حال کئے دیتی تھیں۔ مسلمانوں کی جاں نثاری کا یہ عالم تھا کہ شاید چشمِ فلک نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ایک مرتبہ سرورِ کائناتؐ نے ایک عید کے خطبے میں صدقے کی برکات کا ذکر فرمایا۔ تو عورتوں کے مجمع سے ہر ایک نے اپنے زیور اُتار اُتار کر پھینکنے شروع کر دئیے۔

میں دامن پھیلائے بیٹھا تھا اور عورتیں اپنی انگوٹھیاں، کان کی بالیاں، گلے کے ہار میرے دامن میں پھینکتی جاتی تھیں۔ ایسی خبریں سُن سُن کر دشمنوں کے سینے پر سانپ لوٹتے تھے۔ وہ سوچتے تھے کہ ایک بے سہارا، بے آسرا یتیم جو مکے سے نہایت کسمپرسی کے عالم میں نکلا تھا کیسے اتنا اہم ہو گیا کہ تمام صحرائے عرب اُس کی عظمت سے لرزاں ہے۔ ہر عرب قبیلے میں اُس کی طرف سے ایک انجانا خوف سماتا جا رہا ہے۔ اُن کے آباو اجداد کی تہذیب اور تمدن کا ایک مکمل دور تھا جو داؤ پر لگا ہوا تھا۔ اس بغض و عناد میں انہیں یہودیوں کی بھی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ عرب قبائل کا جوش و جذبہ اور یہودیوں کی علمی بصیرت اور دور اندیشی مل کر ایک ایسا مدمقابل بن گئے تھے کہ جس سے اب چشم پوشی ممکن نہ تھی۔ یہود کو یہ بھی غم کھائے جا رہا تھا کہ وہ ابھی تک نصاریٰ پر سبقت لے جانے اور اُن کے دین کو زیر کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئے تھے کہ توحید کا وہ خورشید طلوع ہو گیا جس کی کرنیں دے رہی تھیں۔ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ عمل کا وقت یہی ہے۔ اگر اب نہیں تو کبھی نہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ سیلاب ان کی زندگی کی ساری قدریں بہا لے جائے اسے روک دیا جائے۔

چنانچہ بنو نضیر کے حیّ ابن اخطب اور دو بھائی سلام اور کنانہ اور بنو وائل کی دوسر بر آوردہ شخصیتیں ہوذہ بن قیس اور ابوعمارہ وفد کی صورت میں خیبر سے نکلے اور قریش مکہ کے پاس جا پہنچے۔ قریش مکہ نے اُن سے اپنی تسلی کے لئے بہت سے سوال کیے۔ وہ داعئ اسلامؐ کے دشمن بھی تھے مگر ان سے خاصی حد تک خائف بھی ۔ قریش کے چند لوگ تو دعوتِ اسلام کی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی ہوئی پذیرائی کو دیکھ کر یہ بھی سوچنے لگے تھے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ محمدؐ واقعی حق پر ہوں۔ اسی تذبذب کے پیشِ نظر انہوں نے اس پنج رکنی وفد سے کہا کہ آپ سب سے پہلے اہلِ کتاب ہیں۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارا اور محمد کا اختلاف کیا ہے۔ آپ یہ بتائیے کہ آپ کے خیال میں ہمارا دین بہتر ہے یا اسلام۔ اس پر یہودی وفد نے اپنی تمام دینی تعلیم اور عقائد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ جواب دیا کہ قریش کا دین اسلام کے مقابلے میں حق سے قریب تر ہے۔ موحد یہودیوں نے توحیدِ اسلامی پر قریش کی بت پرستی کو حق بجانب کہہ کر جو ستم ڈھایا اُس پر سورۂ النساء کی دو آیتیں نازل ہوئیں جن میں اُن پر لعنت بھیجی گئی اور ان کو نارِ جہنم کی وعید سنائی گئی۔

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر50 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

یہودیوں سے اصولی اتفاق کے بعد ابوسفیان، صفوان اور دیگر اہلِ قریش یہودی وفد کو خانہ کعبہ کے اندر لے گئے جہاں انہوں نے ایک دوسرے کا آخری وقت تک ساتھ دینے کی قسمیں کھائیں۔ قریش سے خاطر خواہ ملاقات کے بعد حیّ بن اخطب کے وفد کو بڑی تقویت حاصل ہوئی۔ اس وفد کے اراکین نے فیصلہ کیا کہ اب جب کہ انہیں قریش کی حمایت حاصل ہو چکی ہے باقی قبائل کی طرف بھی رجو ع کیا جائے۔ اُن کی عرب عصبیت ابھاری جائے۔ جس جس قبیلے کو داعیانِ اسلام سے کوئی صدمہ پہنچا ہے اُن کے زخم ہرے کئے جائیں۔ اُن پر نمک پاشی کر کے اپنے مذموم مقاصد حاصل کئے جائیں۔ چنانچہ یہ وفد فرداً فرداً ہر اُس قبیلے کے پاس پہنچا جن کا کوئی فرد مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا یا جسے مسلمانوں سے کسی قسم کی رنجش تھی۔

اُنہیں شہ دی، اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا۔ اُنہیں بتایا کہ قریشِ مکہ بھی ان کی معاونت کریں گے۔ اُن کے سامنے اُن کی بت پرستی کی توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے بھی ملائے۔ بنی اسد فوراً رضا مند ہو گئے۔ بنو غطفان سے یہ وعدہ کیا گیا کہ اگر وہ مشترکہ جنگ میں قریش کا ساتھ دیں تو اُنہیں خیبر کی کھجوروں کی فصل کا نصف حصہ دیا جائے گا۔ اس طرح بنو غطفان کے ذیلی قبیلوں یعنی فزارہ، مُرّہ اور اشجع سے دو ہزار کی نفری ہمارے دشمنوں کے ساتھ شامل ہو گئی۔ بنو سلیم سے یہودی سات سو افراد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ بنو سلیم کی بستیوں سے جنوب میں بسنے والے قبائل میں بنو عامر رسول اللہ ﷺ سے اپنے معاہدے پر قائم رہے اور یہودی وفد کی کسی چال میں نہیں آئے۔ قریش کے اپنے جنگجو چار ہزار تھے۔ یہ طے پایا کہ قریش اور ان کے جنوب میں بسنے والے حلیف مکے سے سمندر کے کنارے کنارے چل کر مدینہ پہنچیں گے۔ یہ وہی راستہ تھا جس پر چل کر وہ جنگِ احد کے لئے آئے تھے۔ دشمنوں کی فوج کے دوسرے حصے کو نجد کے میدانی علاقے کی طرف سے چل کر مدینے کی مشرقی سمت سے حملہ آور ہونا تھا۔ ہمارے دشمنوں کو یقین تھا کہ جب اُحد میں مسلمان تین ہزار سپاہیوں کے سامنے نہ ٹھہر سکے تو اب تو اُن کی تعداد اُس سے تین گنا زیادہ تقریباً دس ہزار ہو گی۔ اب مسلمانوں کے بچ نکلنے کا کیا امکان ہے۔

غرض یہ کہ یہود و قریش کی باہمی سازش نے سارے عربستان میں مسلمانوں کے خلاف ایک ایسا طوفان بھڑکا دیا تھا جو اسلام کے خلاف ایک برقِ بلا بن کر ٹوٹ پڑنے کے لئے بے قرار تھا۔ جس سے ہم پوری طرح باخبر تھے۔ آئے دن صحرا سے آنے والے طرح طرح کی خبریں سناتے تھے۔ مگر ہمارے ہادیؐ مطمئن نظر آتے تھے تو ہم میں سے کوئی بھی ہراساں نہ تھا۔(جاری ہے )

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر52 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

موضوعات

تبصرے کیجئے

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.