حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر43

مواخات کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ مکے کے مہاجر اب اپنا سارا بوجھ مدینے والوں پر ڈال کر بے فکر ہو جائیں گے اور مفت خور مہمانوں کی طرح زندگی بسر کریں گے۔ مہمان نوازی کا وقت گزر چکا تھا۔ ہادیئ برحقؐ نے اس رشتے کی وضاحت فرمائی کہ اب تک جو ایک تھا وہ دو ہو گیا۔ جو دو تھے وہ اب چار ہو گئے۔ جہاں ایک کماتا تھا، اب دو کمائیں گے۔ جہاں دو محنت کرتے تھے چار محنت کریں گے۔ کام زیادہ ہو گا تو آمدنی بھی زیادہ ہو گی اور یوں کوئی کسی پر بار نہیں بنے گا۔ اس طرح کئی سو خاندان ایک لمحے میں گزر بسر کے وسائل حاصل کرنے کے اہل ہو گئے اور پھر یہ سوال ہی نہ رہا کہ کون کس کا بوجھ اُٹھا رہا ہے، کون مہاجر ہے کون انصار۔ یہ تفریق ہی مٹ گئی۔

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر42 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

ارقمؓ، ابو طلحہ زید بن سہلؓ کے بھائی بنے۔ عثمان بن مظعونؓ کی مواخات ابوالہیشم بن التہیانؓ سے ہوئی۔ زبیر بن العوامؓ کا ہاتھ سلمہ بن سلامہؓ کے ہاتھ میں دیا گیا۔ دونوں اُس وقت جو ان تھے، یہی کوئی ستائیس اٹھائیس سال کے۔ ایک اور نوجوان طلحہؓ اس وقت تقریباً چوبیس سال کے تھے اپنے ہم عمر ابی ابن کعبؓ کے ساتھ رشتہ اخوت میں پروئے گئے۔ عبدالرحمن بن عوفؓ، سعد بن الربیعؓ کے بھائی بنے۔ سعدؓ انصار میں سب سے زیادہ مالدار اور فیاض مانے جاتے تھے۔

سرورِ کائناتؐ کے اشاروں پر دونوں طرف سے ایک ایک شخص آگے بڑھتا جاتا تھا اور حضورؐ اپنے دستِ مبارک سے اُن کے ہاتھ ملواتے جاتے تھے۔ اور باقاعدہ بیعت لیتے جاتے تھے۔ ابو عبیدہ بن الجراحؓ آگے بڑھے تو ان کا ہاتھ ابن معاذؓ کے ہاتھ میں دے دیا۔ سعید بن زیدؓ، رافع بن مالکؓ کے بھائی بن گئے۔ عبداللہ بن مسعودؓ، معاذ بن جبلؓ سے منسلک ہو گئے۔ اسی طرح عمار بن یاسرؓ اور حذیفہ بن الیمانؓ، صہیب بن سنانؓ اور حارث بن السحہؓ، محرزبن نضلہؓ جنہیں سب اخرم اسدی کہتے تھے اور عمار بن حزم مواخات کے رشتوں میں پروئے گئے۔ شماس بن عثمانؓ نہایت خوبرو نوجوان تھے اُن کا رشتہ مواخات اُن کے ہم عمر نوجوان حنظلہ ابنِ ابی عامرؓ سے طے ہوا۔

عمیر بن ابی وقاصؓ اُس وقت کوئی چودہ سال کے تھے۔ رسالتمآبؐ نے ان کا ہاتھ عبدالاشہل قبیلے کے رئیس سعد بن معاذؓ کے چھوٹے بھائی عمرو بن معاذؓ کے ہاتھ میں دے دیا۔ اُن کی بھی تقریباً یہی عمر تھی۔ یہ عمیر بن ابی وقاصؓ وہی نوجوان تھے جن کو صغر سنی کی وجہ سے غزوہ بدر میں شرکت کی اجازت نہیں ملی تھی۔ لیکن اُن کی گریہ وزاری دیکھ کر حضورؐ نے نہ صرف انہیں اجازت مرحمت فرمائی بلکہ اپنے دستِ مبارک سے انہیں تلوار باندھی۔ بدر میں یہ نوجوان صحابی رُتبہ شہادت پر سرفراز ہوئے۔

اپنے لئے اور اپنے خاندان کے لئے ہادی برحقؐ نے کسی کے ساتھ مواخات نہیں فرمائی۔ کیونکہ مواخات کوئی آنی جانی چیز نہیں تھی، کوئی ایسا تعلق نہیں تھا کہ رہا رہا نہ رہا نہ رہا۔ یہ ایک مستقل رشتہ تھا۔ ایک ایسا معاملہ جس میں حضور خود کو منسلک فرما لیتے تو یا اوس کے کہلانے لگتے یا خزرج کے۔ اوران کے منصبِ جلیلہ کی مرکزی حیثیت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ نہ اوس کو خزرج پر ترجیح دیں نہ خزرج کو اوس پر۔ ایسے نازک اور لطیف توازن حضورؐ ہمیشہ قائم رکھتے تھے۔ قبا کے قیام کے سلسلے میں بھی یہی لطیف توازن مدِنظر تھا۔ آپؐ نے اوس کے بزرگ کلثوم بن ہدمؓ کو اس لئے شرف میزبانی بخشا تھا کہ ابوبکرؓ خزرج کے یہاں مہمان تھے اور یوں قبیلہۂ خزرج میں خاصی موقر سطح پر مہاجرینِ مکہ کی نمائندگی ہو چکی تھی۔

ابو رویحہؓ، رحمن الرحیم اُنہیں خوش رکھے۔ بڑی خوبیوں کے مالک ہیں۔ یہیں دمشق میں میرے قریب ہی رہتے ہیں۔ بڑے کہنے سننے کے بعد مدینے سے آنے پر رضا مند ہوئے۔ اُن کے لئے امیر المومنین سے باقاعدہ اجازت لی، جیسی میں نے اپنے لئے لی تھی۔ بے حد ایثار پسند۔ میرے لئے انہوں نے جو کچھ کیا اور جس جس طرح سے انہوں نے میری دلجوئی کی اور ہر موقعے پر جس طرح میرے دست و بازو بنے اس کا اجر انہیں اللہ تبارک و تعالیٰ سے ملے گا۔

شام کی مہم کے موقعے پر میں مدینے سے روانہ ہونے لگا تو حضرت عمرؓ نے مجھ سے پوچھا کہ بلال تم چلے جاؤ گے تو تمہارا وظیفہ کون وصول کرے گا۔ میں نے ابو رویحہؓ کا نام لیا۔ وہ ایک مدت تک میری طرف سے یہ ذمے داری نبھاتے رہے۔

آج کل تو زیادہ وقت یاد الٰہی میں گزارتے ہیں۔ کبھی کبھار میرے یہاں آ جاتے ہیں یا میں اُن کے یہاں چلا جاتا ہوں۔ نہایت کھرے، سچے، خوش اخلاق اور نفیس مزاج انسان ہیں۔ جس دن سے رسولِ کریمؐ نے میرا ہاتھ اُن کے ہاتھ میں دیا ہے ہم ایسے ہو گئے ہیں جیسے ایک درخت کی دو شاخیں جو باہم ایک دوسرے میں پیوست رہتی ہیں۔ اللہ نے اس رشتے کی برکت سے ہم دونوں کو بہت نوازا، بڑی رحمتیں نازل فرمائیں ہم پر۔ جی چاہتا ہے جس طرح ہم دونوں کو اس دنیا میں رفاقت نصیب ہوئی ہے اُسی طرح آخرت میں بھی ربِ رحیم ہمیں ایک دوسرے کے قریب رکھے۔ آمین۔

پہلی اذان

مدینے میں ہماری مسجد سے بہتر بنی ہوئی کئی عمارتیں تھیں مگر ہم لوگ کون سے فنِ تعمیر کے ماہر تھے۔ ہمیں تو یہ عمارت ساری دنیا کی عمارتوں سے زیادہ اچھی لگتی تھی۔ مقصد تو صرف یہ تھا کہ اپنی عبادت کے لئے ایک موزوں جگہ بنا لی جائے۔ لیکن کسے معلوم تھا کہ یہی مسجد ایک دن اسلامی تمدن اور ریاست کا سرچشمہ بنے گی۔ مسجد جس دن مکمل ہوئی ہم لوگ تھک ہار کے مسجد کے فرش پر بیٹھ کر آرام کرنے لگے۔ ہلکی ہلکی دھوپ چھپر پر پڑے ہوئے کھجوروں کے پتوں کے درمیان سے چھن چھن کر نیچے آ رہی تھی۔ سبز پتوں کا سایہ آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہا تھا۔ ہر شخص مسجد کی تعمیر کے مختلف مراحل پر اور ساخت کے مختلف پہلوؤں پر تبصرہ کر رہا تھا۔ سب بہت خوش تھے۔ اتنے میں جہاں تک مجھے یاد ہے علیؓ نے کہا:

’’میرے خیال میں مسجد میں ایک کمی ہے۔‘‘

سب اُن کی طرف متوجہ ہو گئے انہوں نے اوپر چھت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

’’وہاں کچھ ہونا چاہئے۔ کچھ ایسا انتظام جس سے لوگوں کو نماز کے لئے بلایا جا سکے‘‘۔

اس پر عمارؓ بولے:

’’میرے خیال میں ہم وہاں ایک جھنڈا لگا دیں۔ نماز کے وقت لگا دیا،پھر اُتار لیا۔‘‘

اب سب اُٹھ کر بیٹھ گئے اور گفتگو میں شامل ہو گئے۔ رسولِ کریمؐ یہ سب گفتگو نہایت دلچسپی سے سنتے رہے مگر خود کچھ نہیں بولے۔ ان کا انداز ایسا تھا گویا وہ گفتگو میں شریک ہیں بھی اور نہیں بھی۔

’’ہم چھت پر گھنٹیاں کیوں نہ لگا دیں۔‘‘

’’گھنٹیاں تو کلیساؤں میں لگاتے ہیں۔‘‘

’’نقّارہ لگانا چاہئے‘‘۔

’’نقّارہ جنگ اور خون کی یاد دلاتا ہے۔ ہمارا دین امن اور سلامتی کا دین ہے۔‘‘

’’قرنامناسب رہے گا، اُس کی آواز بہت دور تک جاتی ہے۔‘‘

’’قرنے کی آواز سے مینڈھا ذہن میں آ جاتا ہے جس کے سینگ سے وہ بنتا ہے۔‘‘

پھر خاموشی چھا گئی۔ جھنڈے، گھنٹیاں، نقارہ، قرنا کوئی بھی ان تجاویز سے پوری طرح مطمئن نہیں تھا۔ گھنٹیاں دیر تک کانوں میں جھنجھناتی رہتی ہیں، نقارہ دورانِ خون کو تیز کر دیتا ہے، جھنڈا ہوا کے رُخ پر اُڑتا ہے اور مخالف سمت سے نظر ہی نہیں آتا۔ پھر جھنڈا سوتے ہوؤں کو کیسے جگائے گا۔

(جاری ہے )

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر44 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

موضوعات

تبصرے کیجئے

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.