حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر36

کھوجی چلتے چلتے غارِ ثور تک پہنچ گیا اور وہاں پہنچ کر بیٹھ گیا۔ اُس کا کام ختم ہو چکا تھا۔ کشت و خون کسی اور کا کام تھا۔

ابوجہل، میرا سابقہ آقا اُمیہ اور دیگر کفار جو اُن کے ساتھ تھے، غارِ ثور کے باہر کھڑے صورت حال کا جائزہ لے رہے تھے ۔ سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے بات کرتے تھے مگر پھر بھی ابوبکرؓ کے کانوں میں اُن کی آہٹ پہنچ گئی۔ انہوں نے غار کے اندر سے جھانک کر دیکھا اور بولے:

’’بس اب خاتمہ ہے یا رسول اللہ! باہر آٹھ دس آدمی کھڑے ہیں اور ہم صرف دو ہیں۔‘‘

حضورؐ نے سرگوشی میں جواب دیا:

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر35 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

’’تم غلطی کرتے ہو ابوبکر! اللہ بھی ہمارے ساتھ ہے۔ ہم تین ہیں‘‘۔

یہ وہ وقت تھا جب ایک مکڑی نے غارِ ثور کے تنگ دہانے پر جالا تن دیا اور دو سفید کبوتر کہیں سے اپنی چونچوں میں تنکے پکڑے آئے اور غار کے دہانے پر گھونسلا بنا کر بیٹھ گئے۔ محمدؐ اور ابوبکرؓ غار کی تاریکی میں بیٹھے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی ننھی مخلوق کو جو غار کے دہانے پر مصروفِ کار تھی، اُن سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔

ابوجہل اور اُمیہ پتھروں پر چڑھتے ہوئے غار کے منہ تک پہنچ گئے۔ آہٹ سن کر کبوتر گھبرا کر اُڑے اور مکڑی پتھروں کی کسی درز میں جا چھپی۔ ابوجہل ذرا اور آگے بڑھا تو اُس نے غار کے منہ پر تنا ہوا مکڑی کا جالا اور ایک گھونسلا دیکھا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ بغیر جالا توڑے کون اندر داخل ہو سکتا ہے! اور جالا پورا تنا ہوا ہے۔ اور پھر یہ گھونسلا۔ پرندے انسانوں کے نزدیک گھونسلے بنا کر بسیرا نہیں کرتے۔ اُس نے وہیں کھڑے کھڑے کھوجی کو بے نطق سنائیں، بڑبڑاتا ہوا نیچے اُترا اور اپنے ساتھیوں سمیت گھوڑوں پر بیٹھ کر واپس مکہ روانہ ہو گیا۔ کھوجی بھی واپس چلا گیا۔ میں نے سنا ہے اس واقعے کے بعد اُس نے قسم کھا لی تھی کہ آئندہ کسی انسان کا کھوج نہیں لگائے گا۔

مکڑیوں اور کبوتروں کے لئے شاید یہ کوئی غیر معمولی بات نہ ہو۔ مکڑیاں جالے بنتی ہی رہتی ہیں اور کبوتر گھونسلے بناتے ہی رہتے ہیں لیکن اُس روز پیغمبرِ اسلامؐ اور دینِ اسلام، دونوں کی زندگی کیسے نازک رشتوں پر قائم تھی۔ خسِ آشیاں اور تارِ عنکبوت!یہ سب اللہ کی حکمت تھی۔

ثور سے قُبا

غارِ ثور میں آپ کا تیسرا دن تھا۔ اُس رات جب عبداللہؓ آئے تو ان کے ساتھ اُن کی ہمشیرہ اسماءؓ بھی تھیں۔ اسماءؓ نے کھانے پینے کا بہت سا سامان ایک تھیلے میں بھرا ہوا تھا۔ عمرؓ بھی اُن کے ساتھ تھے مگر آج وہ اپنی بھیڑیں ساتھ نہیں لائے تھے۔ مکڑی کا جالا آہستہ سے ہٹا کر حضورؐ اور ابوبکرؓ غار سے باہر آئے۔ ماہِ صفر کی آخری تاریخیں تھیں اور ستاروں کی روشنی کے علاوہ کوئی اُجالا نہیں تھا۔ چاروں، رات کی تاریکی میں آہستہ آہستہ پہاڑی سے نیچے اُترے۔ نیچے پہاڑی کے دامن میں اریقط نامی ایک کافر بدوی تین اونٹنیاں لئے کھڑا تھا۔ ان میں دو اونٹنیاں وہ تھیں جو ابوبکرؓ نے سفرِ ہجرت کے لئے بطورِ خاص خرید کر اریقط کے پاس رکھوائی ہوئی تھیں۔ اریقط، صحرا کے چپے چپے سے واقف تھا اور مسلمان نہ ہونے کے باوجود بے حد قابلِ اعتماد تھا۔ ابوبکرؓ نے رسولِ کریمؐ کو جو اونٹنی پیش کی اُس کا نام قصواء تھا۔ حضورؐ نے کہا:

’’میں اس اُونٹنی پر سواری نہیں کروں گا جو میری نہیں ہے۔‘‘

ابوبکرؓ نے عرض کی:

’’یا رسول اللہ یہ آپ ہی کی ہے۔‘‘

حضور ؐ نے کہا:

’’نہیں ابوبکر! تم نے اس کی کیا قیمت ادا کی ہے؟‘‘

ابوبکرؓ نے رقم بتائی تو اللہ کے رسولؐ نے کہا:

’’میں اسے اس قیمت پر خریدتا ہوں‘‘۔

اس سے پہلے حضورؐ نے ابوبکرؓ کی طرف سے کئی تحفے قبول فرمائے تھے مگر اُس رات ہجرت کے اُس تاریخی لمحے میں اُن کا لہجہ اتنا حتمی تھا کہ ابوبکرؓ نے اصرار مناسب نہ سمجھا۔ یہ ایک پیغمبر کی ہجرت کا لمحہ تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب اللہ کا رسولؐ اپنے وطن ، اپنے آبائی شہر سے اللہ کے نام پر، اللہ کی خاطر، رخصت ہو رہا تھا۔ اپنا سارا بچپن، ساری جوانی، ساری زندگی تج کر وہ ایک قربانی پیش کر رہا تھا۔ یہ اُس کی ذاتی قربانی تھی جو وہ خالصتاً اپنے وسائل سے دینا چاہتا تھا۔ اس کے بعد آپ قصواء پر سوار ہو گئے۔ ابوبکرؓ اور عامرؓ دوسری اونٹنی پر اور اریقط تیسری اونٹنی پر جو وہ اپنے لئے لایاتھا۔ اسماءؓ اور عبداللہؓ نے سامان کا تھیلا اریقط کے حوالے کیاا ور پھر تینوں کو اللہ کی امان میں سونپ کر واپس مکہ چلے گئے۔(جاری ہے )

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر37 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

موضوعات

تبصرے کیجئے

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.