حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر26

جب ہم شہری زندگی سے کٹ کر وقت گزار رہے تھے تو ہمیں مکے کی بہت کم خبریں ملتی تھیں۔ چھپے چوری کسی سے مل لیتے تھے تو پتہ چلتا تھا کہ مکے میں جہاں ہمارے خلاف کئی محاذ قائم تھے، وہاں اکا دکا آوازیں ہمارے حق میں بھی اُبھرتی رہتی تھیں۔ بہت نحیف، بہت کمزور مگر اُن کا وجود ضرور تھا۔ کسی گلی کے موڑ پر، کسی بازار کوچے میں، کوئی نہ کوئی ہماری بے بسی کا رونا بھی رو لیتا تھا۔ کہیں کہیں لوگ دبی زبان میں اس مقاطعے پر نکتہ چینی بھی کر لیتے تھے۔ تھوڑی دیر کو ڈھارس بندھ جاتی تھی مگر ابھی ہم پر بہت عذاب آنا تھے۔ سختیوں کی انتہا ابھی باقی تھی۔ نئے حادثات، نئی مشکلات ہماری منتظر تھیں لیکن اس عرصے میں ہمیں حمزہؓ اور عمرؓ کی وجہ سے بڑی تقویت رہی۔ دونوں مقاطعے سے چند روز پہلے اسلام لے آئے تھے۔ ایک اور جھونکا تھا ٹھنڈی ہوا کا جو آتا تھا تو ہمارے دل و دماغ کا ایک ایک گوشہ کھِل اٹھتا تھا۔ یہ وحیِ الٰہی تھی جو ہمارے نبی مکرم ﷺ پر وقتاً فوقتاً نازل ہوتی رہتی تھی اور ہمیں احساس دلاتی رہتی تھی کہ وہ جو ساری قدرت، ساری طاقت، سارے اختیار کا مالک ہے ہمارے ساتھ ہے۔ وہ جب ہماری اس التفات سے نشوونما کر رہا ہے تو پھر ہمیں کیا غم۔ کوئی انسانی طاقت، کوئی بشری سازش ہمارے راستے کی دیوار نہیں بن سکتی۔ جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔ اگر اُس نے کرۂ ارض پر اپنی مشیّت کے مطابق نظام قائم کرنے کے لئے ہم کو منتخب کر ہی لیا ہے تو اُس کے فیصلے پر عمل ہو کر رہے گا۔

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر25 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

یہ عجیب اتفاق ہے کہ حمزہؓ اور عمرؓ دونوں کے اسلام لانے کے موقع پر بات غصے سے شروع ہوئی اور دونوں مرتبہ خون بھی بہا۔ حمزہؓ نے پہل کی۔ حمزہؓ رسالت مآبؐ کے چچا بھی تھے اور دودھ شریک بھائی بھی۔ بہت لحیم شحیم، قوی الجثہ۔ سارے عربستان میں شیروں کے شکاری کی حیثیت سے اُن کا ڈنکا بجتا تھا۔ شجاعت اور علم حرب میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ کوئی تلوار اُن کی تلوار سے زیادہ وزنی نہیں تھی، نہ کوئی نیزہ اُن کے نیزے سے زیادہ تیز رفتار۔ اُن کی کمان سے نکلا ہوا ہر تیر، تیر قضا تھا۔

شکار میں کوئی اس شیروں کے شکاری سے زیادہ شجیع اور تیز نظر رکھنے والا نہیں تھا۔ قوتِ شامہّ کا یہ عالم تھا کہ ہوا کو سونگھ کر جانور کا محلِ وقوع بتا دیا کرتے تھے۔ زمین پر پاؤں اتنے ہلکے پڑتے تھے کہ چاپ نہیں سنائی دیتی تھی۔ شجاعت اور قوت کے اس عظیم پیکر کی زندگی کا ایک اور رُخ بھی تھا۔ وہ نہایت مرنجاں مرنج، خوش مزاج، نرم خو اور حساس طبیعت تھے۔ گھوڑے پر جاتے جاتے سامنے کسی جھاڑی پر کوئی پھول کھلا دیکھتے تو اس خیال سے کہ وہ روندانہ جائے، گھوڑا اس کے گرد گھما کر لے جاتے۔ کبھی کبھی رزمیہ شاعری بھی کرتے تھے جو اُن کی شخصیت سے بہت مناسبت رکھتی تھی۔

لیکن اُس دن جب ابوجہل نے کوہِ صفا کے دامن میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا، دغا باز اور جانے کیا کیا کہا تھا، خوش مزاجی حمزہؓ سے کوسوں دور تھی۔ حمزہؓ صحرا سے شیر کا شکار کر کے لوٹ رہے تھے۔ ایک مُردہ شیر اُن کے گھوڑے پر بندھا ہوا تھا۔ مکے میں داخل ہوتے ہی انہیں ابوجہل کی ہرزہ سرائی کی خبر ملی۔ اُسی حالت میں گھوڑے پر سوار ابوجہل کے پاس پہنچے۔ جو اب حطیم میں اپنے حواریوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ابوجہل اُن کے تیور دیکھ کر بھی صورتِ حال کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکا۔ جب حمزہؓ نے اُسے للکارا اور پوچھا ’’ تم کیا کہہ رہے تھے محمدؐ کو‘‘تو اُس نے جو کچھ کہا تھا من و عن دہرا دیا بس پھر ایک آواز آئی۔ حمزہؓ کی کمان کی جو انہوں نے ابوجہل کے سر پر ماری تھی۔ ابوجہل کا چہرہ خون سے لت پت ہو گیا اور وہ ضرب کی تاب نہ لاتے ہوئے تیورا کر زمین پر گر پڑا۔

حمزہؓ سے بدلہ لینے کی اُس میں جرأت نہ تھی۔ صرف دانت پیس کر رہ گیا۔ حمزہؓ شاعر ضرور تھے مگر بحث مباحثے میں پڑنا اُن کی عادت نہیں تھی۔ بہت مختصر بات کرتے تھے۔ انہوں نے کعبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

’’جب میں راتوں کو کھلے آسمان تلے، صحرا کی وسعتوں میں شکار کی تلاش میں پھرتا ہوں تو میرا دل گواہی دیتا ہے کہ اللہ کسی کمرے میں بند نہیں ہے‘‘۔

یہ کہہ کر وہ گھوڑے سے نیچے اُتر آئے اور زمین پر پاؤں گاڑ کر سب کے چہروں پر نظر دوڑائی جو یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ کہنے لگے:

’’میرے بھتیجے کا مذہب میرا مذہب ہے، اُس کا اللہ میرا اللہ ہے۔ کسی میں ہمت ہے تو مجھ پر ہاتھ اٹھائے‘‘۔

کس میں جرأت تھی کہ اُس بپھرے ہوئے شیر کے مقابلے پہ آتا۔ ہجوم میں حرکت ضرور ہوئی لیکن اس لئے کہ ہر شخص جلد از جلد حمزہؓ کے راستے سے ہٹ جانا چاہتا تھا۔ حمزہؓ وہاں سے سیدھا رسولِ کریمؐ کے پاس گئے اور اسلام لے آئے۔

ابوجہل کی بدبختی کا ایسا ہی ایک منظر کچھ دنوں بعد دوبارہ دیکھنے میں آیا۔ بنوہاشم کے معاشرتی مقاطعے کے ابتدائی ایام تھے۔ مقاطعے پر عمل شروع ہو چکا تھا لیکن مقاطعے کی نوعیت ہی ایسی تھی کہ اس پر پوری طرح عمل درآمد ممکن نہیں تھا۔ وجہ یہ تھی کہ بنوہاشم کے یہاں بیاہی ہوئی خواتین اپنے آبائی خاندانوں کی افراد بھی تھیں اور اس حیثیت میں اُن پر اصولاً بنوہاشم کے معاشرتی مقاطعے کا اطلاق نہیں ہو سکتا تھا۔

ایک دن بنو اسد کے حکیم بن حزام جو مولودِ کعبہ تھے ایک غلام سے آٹے کی بوری اُٹھوائے محلہ بنوہاشم کی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں ابوجہل نے اُنہیں دیکھ لیا اور لگا واہی تباہی بکنے۔

’’یہ اناج ہمارے دشمنوں کے گھر نہیں جا سکتا‘‘ وہ غصے سے بولا۔

اسی موقعے پر بنو اسد کا ایک اور فرد ابوالنجتری اُدھر آ نکلا۔ گو وہ بھی مسلمان نہیں تھا لیکن معاملے کی نوعیت جاننے کے بعد اُس نے ابوجہل سے کہا:

’’ابن ہشام، حکیم بنو اسد کا فرد ہے اور اپنی پھوپھی کا سامان لے کر جا رہا ہے۔ تم کون ہوتے ہو اُسے روکنے والے‘‘۔

بات اصول کی تھی مگر ابوجہل کی خردماغی کو پسند نہ آئی۔ تلخ کلامی بڑھی تو بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ ابوجہل نے پہل کی۔ ابوالنجتری نے سڑک کے کنارے پڑی اونٹ کی ایک بڑی ہڈی اُٹھا کر ابوجہل کے سر پر دے ماری۔ ابوجہل چکرا کر گڑپڑا۔ اُس کے گرتے ہی ابوالنجتری نے اُسے پے در پے ٹھوکریں مارنی شروع کر دیں۔ میں یہ سارا تماشا گلی کی نکڑ سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ دیکھتی آنکھوں سے نہ دیکھنے والے یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے اعتقادات کی کم مائیگی اور بے بضاعتی کو جانتے ہوئے بھی راہِ فلاح اختیار نہیں کرتے اور محض چند ذاتی مفادات کی خاطر ایک ایسے شخص کی زندگی اجیرن کئے ہوئے ہیں جس کی شرافت، نجابت، دیانت اور امانت کے وہ قائل بھی ہیں۔

انہیں خیالات میں غلطاں تھا تو دیکھا حمزہؓ چلے آ رہے ہیں۔ انہوں نے شاید مجھے نہیں دیکھا اور سیدھے اُدھر کا رُخ کیا جہاں ابوجہل، ابوالنجتری کے مکوّں اور ٹھوکروں کی زد میں زمین پر پڑا کراہ رہا تھا۔ حمزہؓ کو دیکھ کر ابوالنجتری نے ہاتھ روک لیا اور بغیر مزید کچھ کہے سنے وہاں سے چل دیا۔

حمزہؓ نے ابوجہل پر ایک نظر ڈالی۔ میں بھی پہنچ گیا اور میں نے غلام کو آٹے کی بوری اُٹھوائی۔ حمزہؓ اور حکیم دونوں ابوجہل کو اُسی حالت میں چھوڑ کر چل دئیے اور میں اور غلام دونوں اُن کے پیچھے پیچھے ہو لئے۔ کچھ فاصلے پر جا کر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ابوجہل ایک بڑے سے پتھر کے سہارے آہستہ آہستہ اُٹھ کر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہا تھا اور انتہائی بے بسی کے عالم میں ہماری سمت تکے جا رہا تھا۔ اُس دن بھی کم و بیش وہی منظر حمزہؓ کے سامنے تھا جو اپنے قبولِ اسلام کے دن انہوں نے حطیم میں دیکھا تھا۔(جاری ہے )

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر27 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

موضوعات

تبصرے کیجئے

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.