حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر18

محمدﷺ نبی بھی تھے اور رسول بھی۔ نبی وہ ہوتا ہے جو ایک محدود پیغام لے کر آتا ہے۔ رسول قدرتِ الٰہی کے لامحدود امکانات کے لامحدود شواہد کی مدد سے مخلوق کو خالق کی عظمت و جلالت، اس کی شوکت و جبروت اور اس کی قوت و قدرت کے ساتھ منضبط اور مرتبط کرتا ہے۔ اس حیثیت سے رسول کا دائرہِ کار، قوانینِ فطرت کے علاوہ انسان کے تمام روحانی تجربات اور مادی حرکات و سکنات تک پھیلا ہوا ہے۔ انسان کو آخرت کا شعور دینا بھی رسول کا کام ہے۔ اس لئے وہ اُن سب عوامل سے بھی براہِ راست منسلک ہے جن کے ذریعے انسان یہ شعور حاصل کرتا ہے۔
”صدقے!اتنے نازک؟لگتا ہے میں نے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے “علی زیدی نے سعید غنی کی جانب سے بھجوایاگیاعدالتی حکم نامہ ٹوئٹ کردیا

نبوت کا استحکام رسالت کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ محمدﷺ اپنی حیثیتِ نبوی میں امّی تھے، اپنی حیثیتِ رسالت میں نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک امّی کو نبی بنا کر اُسے نبوت کے ایک مثالی درجے پر فائز کر دیا تاکہ رسالت کے وسیع تر مقاصد کے لئے اُس کی کامیابی کی بدرجہِ اتم ضمانت مہیا ہو جائے۔

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر 17 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

نفرت کا سبب

یہ لوگ آخر ہم سے کیوں نفرت کرتے تھے۔ کیوں بغض لئے پھرتے تھے ہمارے خلاف! یہ بُرے لوگ نہیں تھے۔ اپنی قدیم روایات کے پاسدار، اپنی خاندانی اور قبائلی وضعداریوں پر قائم، وعدے کے پابند، بات کے دھنی، غیرت کے پتلے، عزت کی خاطر جان پر کھیل جانے والے، جفاکش، جرأت مند، جری، مہمان نواز۔ کچھ حد تک کرخت اور اکھڑ لیکن وہ اُن کی صحرائی زندگی کی سختیوں کا تقاضا تھا۔

بات دراصل یہ تھی کہ انہیں ہم سے نہیں ہمارے تصورِ وحدانیت سے نفرت تھی۔ انہیں اپنے ان گنت خداؤں سے اتنی محبت تھی یا اُنہیں اُن کی اتنی ضرورت تھی کہ وحدہ‘ لاشریک کا تصوّر ہی اُن کے دلوں میں نفرت کا جذبہ بیدار کرنے کے لئے کافی تھا۔ بُت پرستی کی تاریخ میں بُتوں سے اتنا پیار کہیں دیکھنے میں نہیں آیا۔ وہ خداؤں کا استحصال بھی کرتے تھے، اُنہیں سجاتے سنوارتے بھی تھے۔ یہ لین دین کا ایک ایسا نظام تھا جس میں انسان ایک سودا کرتا تھا۔

’’ہُبل تم میرا اُونٹ تلاش کر دو۔ میں تمہاری پرستش کروں گا، تمہارا احترام کروں گا، تمہارے لئے تحفے لے کر آؤں گا اور بار بار تمہارے در پر حاضری دے کر تمہیں خدائی مقام پر فائز رکھوں گا۔‘‘

جس خدا کے ماننے والے نہیں رہتے تھے، اُسے خدائی سے خارج تصوّر کر کے پھینک دیا جاتا تھا۔

لیکن میں بلال جو خود بھی کبھی ان خداؤں کو مانتا تھا، شاید پوری بات نہیں کہہ سکا۔ اُن خداؤں کا معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں تھا۔ ان کی کمزوریاں تھیں تو قوت بھی تھی۔ میں اس موضوع پر ذرا وضاحت سے بات کرنا چاہتا ہوں۔

ہم لکڑی اور پتھر کے خداؤں کی بات تو کرتے ہیں لیکن جاہلیت کے دور میں بھی لوگ اس قدر احمق نہیں تھے کہ وہ پتھر کی پوجا کرتے جسے وہ ریزہ ریزہ کر سکتے تھے یا لکڑی کی پرستش کرتے جسے وہ پل بھر میں جلا کر راکھ کر سکتے تھے۔ اُن کا عقیدہ یہ تھا کہ پتھر یا لکڑی کے اندر ایک روحانی جوہر بسا ہوا ہے۔ وہ اس غیر مادی جوہر کی عبادت کرتے تھے لیکن اس عقیدے کی کمزوری یہ تھی کہ یہ غیر مادی جوہر جسے خدا مانا جاتا تھا، ایک شے کے اندر موجود تھا۔ لکڑی میں یا پتھر میں، گویا یہ مادی چیزیں اس خدا کا مسکن تھیں، جیسے خانہء کعبہ اللہ کا گھر ہے مگر اپنے لکڑی یا پتھر کے مسکن سے باہر اُن کی خدائی ختم ہو جاتی تھی اور اُن کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں اس غیر مادی جوہر کی خدائی، اس کی معبودیت، اُس کے مادی مسکن کی حدود تک محدود تھی۔ اُن حدود سے باہر اُن کا اختیار ختم ہو جاتا تھا۔ چنانچہ ہر قبیلے کے، ہر شہر کے، ہر معبد کے اپنے اپنے خدا تھے جو اپنی اپنی مادی حدود کے اندر خدائی کرتے تھے۔ ایک خدا جو مکے میں دروازہ کھول سکتا تھا، وہ مدینے میں بند نہیں کر سکتا تھا۔ یہ عالم تھا ان خداؤں کی خدائی کا!

اس سے بھی بدتر صورتِ حال یہ تھی کہ خدا اپنی خدائی کے لئے بندوں کے محتاج تھے۔ اہل روما بھی اپنے بت پرستی کے دور میں جانتے تھے کہ اُن کے خداؤں کا اپنے پرستاروں پر کس حد تک انحصار ہے۔ مثال کے طور پر اگر خداؤں کا نام نہ رکھا جائے، یا اُن کے پرستش کرنے والے نہ رہیں تو وہ خدائی سے خارج ہو جاتے تھے۔ جولیس سیزر کے اپنے خدا تھے، آگسٹس سیزر کے اپنے۔ شخصیتوں کے ساتھ خداؤں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ بندہ خداؤں کو مانتا رہے، اُن کا احترام کرتا رہے، اُن پر چڑھاوے چڑھاتا رہے، اُن کی پرستش کرتا رہے تو وہ خدا اور اگر وہ یہ سب کچھ نہ کرے اور اُن کے سامنے سے بغیر جھکے گزر جائے تو وہ کچھ بھی نہیں، گویا خداؤں کی ساری طاقت بندوں کے ہاتھ میں تھی۔ پھر خدائی کیا رہ گئی۔

یہ وہ شرک تھا جو ایک اللہ کو تسلیم کرنے کے باوجود تھا۔ میں نے سُنا ہے پرانے وقتوں میں عمر و بن لحی نام کا ایک کاہن تھا جو بت پرستی کی رسم شام سے لے کر آیا تھا۔ یہ رسم آہستہ آہستہ عرب کا مذہب بن گئی۔ پہلے شاید دو چار بُت آئے پھر اُن کی تعداد بڑھتی گئی۔ ایک بُت کے ماننے والوں کا آپس میں خلوص محبت کا رشتہ بڑھا اور وہ ایک گرو ہ بن گئے۔ بُتوں میں اضافہ ہوتا گیا اور انسانیت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی گئی۔ ظاہر ہے یہ بٹوارہ اللہ وحدہ‘ لاشریک کی مشیت کے خلاف تھا کیونکہ وہ جو کل عالموں کا رب ہے ساری انسانیت کو محبت اور مودت کے رشتے میں پرونا چاہتا تھا۔

بُت پرستی کی ایک وجہ میری سمجھ میں یہ بھی آتی ہے کہ مشرکین نے بُتوں کو مرکز محسوس بنا کر اُنہیں پوجنا تو شروع کر دیا مگر بُت اُن کے لئے مرکزِ ہدایت نہ بن سکے۔ یہ بھی گویا ایک طرح کی آسانی تھی کہ اُنہیں اپنی بداعمالیوں پر بتوں کی طرف سے کسی سرزنش، عیب گیری یا تادیب کا کوئی خدشہ نہیں تھا۔ بت اُنہیں کسی بات پر نہیں ٹوک سکتے تھے گویا من مانیاں کرنے کے کھلے مواقع حاصل تھے۔ کسی قبیلے کا بُت سارے قبیلوں کو ایک مرکز پر نہیں لا سکتا تھا، لہٰذا خانہء کعبہ میں بُتوں کا میلہ لگ گیااور اس کثرت میں قریش نے اپنے لئے شہرت، عزت اور مالی منفعت کی راہیں ڈھونڈلیں۔ غرض زندگی چین سے کٹ رہی تھی کہ محمدﷺ کے کلمہء لاَ الٰہَ اِلا اللہ نے بنیاد ہی ہلا کر رکھ دی۔

(جاری ہے)

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر 19 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

موضوعات

تبصرے کیجئے

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.