جنازہ سے متعلق چند سوالوں کے جواب

جنازہ کے مسائل کو لوگوں نے بہت مشکل سمجھ رکھا ہے جس کی وجہ سے گاوں میں کسی کے یہاں میت ہوجائے تو پھر گھبراجاتے ہیں ۔ تلاش ہوتی ہے ایسے عالم کی جو جنازہ کے مسائل جانتے ہوں ، علماٗ میں بھی بہت سے ایسے ہیں جنہیں جنازہ کے مسائل معلوم نہیں ۔ پورے محلے میں چند ایک ہوں گے جو غسل جنازہ، اور کفن ودفن کے مسائل جانتے ہوں ۔

اس قسم کے سوالات بھی میرے پاس بہت آتے تھے ،ان ساری باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے جنازہ کے مسائل اردو زبان میں جمع کرنے کی کوشش کی اور ایک مختصر کتاب تیار ہوگئی۔ الحمدﷲ کتاب کے علاوہ جو چھوٹے چھوٹے سوالات تھے ان کوبھی یکجا کرنے کی کوشش کی ، ان کی پہلی قسط بیس سوال وجواب پر مشتمل ہدیہ قارئین ہے ، اس بات کی جانکاری کے ساتھ کہ اس مجموعہ کے بعض جواب کتاب سے ماخوذ ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو کسی سوال پہ مکمل کتاب پڑھنے کے لئے کہا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہمیں سوال کا اے ٹو دا پوائنٹ جواب چاہئے کیونکہ کسی کو دلیل کے طور پر دینا ہے۔

سوال (۱):کیا کسی کا انتقال ہو جائے تو ان کی چارپائی قبلہ رخ ہونی چاہیے؟

جواب : جس پارپائی پہ کسی کی وفات ہوئی ہے اس چارپائی کا کوئی مسئلہ نہیں وہ جوں کا توں رہے گی البتہ اچھا ہے کہ میت کا چہرہ قبلہ رخ کردیا جائے ۔ ابن حزم نے کہا: وتوجیہ المیِّت إلی القِبلۃ حسَنٌ، فإن لَم یُوجَّہ، فلا حرَج؛ قال اﷲ تعالی: فَأَیْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اللَّہِ (البقرۃ: 115)،ولَم یأتِ نصٌّ بتوجیہہ إلی القِبلۃ(المحلی :1/ 256).ترجمہ: میت کو قبلہ کی طرف کرنا اچھا ہے اوراگر نہ کیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔اﷲ کا فرمان ہے : تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اﷲ کا منہ ہے۔ میت کو قبلہ رخ کرنے سے متعلق کوئی دلیل وارد نہیں ہے۔ شیخ ابن باز رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ میت کو قبلہ رخ کیا جائے ، کعبہ زندہ اور مردہ تمام مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ (موقع شیخ ابن باز)ابوقتادہ سے مروی قبلہ رخ کرنے والی روایت کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔(إرواء الغلیل: 3 ؍ 153)خلاصہ یہ ہوا کہ صرف میت کو وفات کے وقت قبلہ رخ کردیا جائے یہ بہتر ہے اور نہ بھی کیا گیا تو کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال (۲):جب جنازہ کو گھر سے مسجد لے جاتے ہیں یا مسجد سے قبرستان لے جاتے ہیں اس وقت میت کا سر شمال کی جانب ہوناچاہئے یا جنوب کی جانب؟

جواب : جنازہ لے جاتے ہوئے راستہ میں شمال وجنوب کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے ، بس اتنی سی بات ہو کہ میت کولے جاتے ہوئے سر کا حصہ آگے کی طرف ہو۔

سوال (۳):میت کو قبر میں اتارنے سے پہلے قبر میں عبیر کا پاوڈر , گلاب کا پانی یا بعض لوگ زمزم کا پانی چھڑکتے ہیں کیا یہ صحیح ہے؟

جواب : میت کو قبر میں اتارنے سے پہلے کوئی چیز چھڑکنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اس کی کوئی دلیل ہے البتہ میت کو غسل دیتے وقت بیری اور کافور (خوشبو) کا استعمال کیا جائے۔کافور آخری مرتبہ غسل دیتے وقت استعمال کریں تاکہ خوشبو باقی رہے ، اسی طرح غسل کے بعد کستوری، عنبر اور کافور والی خوشبومیت کے بدن کو لگائی جائے بطور خاص سجدہ والی جگہوں کو اور کفن کو بھی خوشبو کی دھونی دی جائے ۔ میت کیلئیےخوشبو کے تعلق بس یہی عمل مسنون ہے۔ اور قبر کے اندر گلاب وعنبراور زمزم چھڑکنا یا قبر کے اوپر چھڑکنا اپنی من مانی ہے ۔ قبر کے اوپر دفن کے فورا بعدصرف پانی چھڑک سکتے ہیں یہ مستحب ہے ضروری نہیں ہے۔

سوال(۴): خبر میں میت کو رکھنے کے بعد بعض لوگ لکڑی یا بعض جگہ پتھر دیتے ہیں کیا یہ وہ کچی اینٹوں کی طرح ہے جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں قبرمیں رکھی جاتی تھی جیساکہ سعودیہ میں آج بھی اس کا رواج ہے۔ کیا یہ صحیح ہے ؟اور میت کو دفنانے کے بعد قبر کو کوہان کے مانند بنانا صحیح ہے؟

جواب : نبی ﷺ نے حضرت عثمان بن مظعون کی قبر کو پتھر سے نشان زد کیاتھا اس سے دلیل پکڑتے ہو ئے کسی قبر کو نشان زد کرنے کے لئے اس کے پاس پتھر یا تختی نصب کرنا درست ہے مگر قبر پہ لکھنا یا کتبہ لگانا یا قبر کو ایک بالشت سے زیادہ اونچی کرنا جائز نہیں ہے۔ اورجمہور علماء کا قول ہے کہ کوہان نما قبر سنت ہے جیساکہ صحیح بخاری میں روایت ہے : عَنْ سُفْیَانَ التَّمَّارِ، أَنَّہُ حَدَّثَہُ: أَنَّہُ رَأَی قَبْرَ النَّبِیِّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُسَنَّمًا.(1405)ترجمہ: حضرت سفیان تمار سے روایت ہے،انھوں نیبتایا:میں نے نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک کو کوہان شتر(اونٹ کے کوہان) کی طرح ابھری ہوئی دیکھا ہے۔

سوال (۵): کیا قبرستان میں میت کی تدفین کے وقت آنے والے افراد کی نصیحت کے لیے کوئی عالم یا کوئی جاننے والا کچھ دیر فکر آخرت دلاتے ہوئے بیان کرے تو یہ جائز ہے؟

جواب : نمازجنازہ سے قبل خطبہ دینا یا وعظ ونصیحت کو لازم پکڑنا جائز نہیں ہے ۔ جنازہ کا تقاضہ ہے کہ لاتاخیر نمازجنازہ پڑھ کر جلدسے جلد میت کو دفن کردیا جائے ۔ بسااوقات جنازہ کے لئے کافی لوگ جمع ہوتے ہیں اور کچھ کا انتظار کیا جارہا ہوتا ہیاس صورت میں بغیر خطبے کی شکل کے چند ناصحانہ کلمات کہنے میں کوئی حرج نہیں مگر یاد رہے وعظ ونصیحت کے نام پہ جنازہ میں تاخیر کرنا خلاف سنت ہے، نصیحت کے لئے کسی کا جنازہ اٹھنااور قبرستان جانا کافی ہے ۔(تفصیل کے لئے جنازہ پہ میری کتاب دیکھیں )

سوال(۶):میت کے گھر پہ دفنانے کے بعد دو دن یا تین دن یا ہفتہ کے بعد میت کے گھر والوں کو وعظ و نصیحت کے لیے جمع ہونا، میت کے گھر والوں کی طرف سے دی گئی کھانے کی دعوت تناول فرمانا شریعت کی نظر میں کیا حکم رکھتا ہے؟

جواب : اہل میت کے یہاں جمع ہونا اور پھر ان لوگوں کے لئے اہل میت کا کھانا پکانا نہ صرف زمانہ جاہلیت کے عمل میں سے ہے بلکہ یہ نوحہ میں شمار ہے ۔کنَّا نری الاجتماعَ إلی أَہلِ المیِّتِ وصنعۃَ الطَّعامِ منَ النِّیاحۃ(صحیح ابن ماجہ:1318)ترجمہ: ہم گروہِ صحابہ اہل میّت کے یہاں جمع ہونے اور ان کے کھانا تیار کرانے کو مردے کی نیاحت سے شمار کرتے تھے۔ امام نووی رحمہ اﷲ نے لکھا ہے کہ اہل میت کا کھانا بنانا، دوسروں کا ان کے یہاں جمع ہونا اس سلسلے میں کوئی چیز منقول نہیں ہے اس لئے یہ کام بدعت اور غیرمستحب ہے ۔ (روضۃ الطالبین:2/145).اس لئے اہل میت کا میت کی وفات پہ تیجا، دسواں، تیرہواں ، چالیسواں یا کوئی اوراس طرح کا دن منانا بدعت ہے البتہ گھر آئے مہمان کی ضیافت کرنا اس سے مستثنی ہے ۔اہل میت کو چاہئے کہ میت کی طرف سے فقراء ومساکین میں بغیر دن کی تعیین کے صدقہ کرے ۔

سوال (۷): عورتوں کے لئے کفن کا کپڑا تین ہے یا پانچ ؟

جواب : عورت کو بھی مردوں کی طرح تین چادروں میں دفن کیا جائے گا ، عورت ومرد کے کفن میں فرق کرنے کی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے ۔ ابوداؤد میں پانچ کپڑوں سے متعلق ایک روایت ہے جسے لیلیٰ بنت قائف ثقفیہ بیان کرتی ہیں جنہوں نے نبی ﷺ کی بیٹی ام کلثوم کو غسل دیا تھا۔ اس روایت کو شیخ زبیرعلی زئی رحمہ اﷲ ضعیف قرار دیتے ہیں اور شیخ البانی نے بھی ضعیف کہا ہے ۔ دیکھیں : (ضعیف أبی داود:3157)اس لئے شیخ البانی نے احکام الجنائز میں عورت ومردکے لئے یکسان کفن بتلایا ہے اور کہا کہ فرق کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اﷲ شرح ممتع میں ذکر کرتے ہیں کہ عورت کو مرد کی طرح کفن دیا جائے گا یعنی تین کپڑوں میں ، ایک کو دوسرے پر لپیٹ دیا جائے گا۔

سوال (۸): عورتوں کے سر کی چوٹی کو کتنے حصے کیا جائے اور بال پیٹ یا پیچھے یا سینے پر رکھے جائیں ؟

جواب : ام عطیہ رضی اﷲ عنہا نبی ﷺ کی ایک صاحبزادی کی وفات پر ان کے غسل سے متعلق ایک حدیث بیان کرتی ہیں اس حدیث کے آخری الفاظ ہیں : فَضَفَرْنَا شَعَرَہَا ثَلَاثَۃَ قُرُونٍ وَأَلْقَیْنَاہَا خَلْفَہَا(صحیح البخاری: 1276)ترجمہ: ہم نے ان کے بال گوندھ کر تین چوٹیاں بنائیں اور انھیں پیٹھ کے پیچھے ڈال دیا۔

سوال (۹): بیری کے پتوں کی کیا خصوصیت ہے اور اس میں کیا حکمت ہے میت کو غسل دینے کے لئے اس کے استعمال کا کیوں حکم دیا گیا؟

 جواب : بیری کے پتے کی یہی بڑی خصوصیت ہے کہ نبی ﷺ نے میت کو اس سے غسل دینے کا حکم دیا ہے ، علماء نے اس کی حکمت بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے بدن کی اچھی صفائی ہوتی ہے۔

سوال (۱۰): کیا میت کو زمین والی قبر میں ہی دفن کرنا ضروری ہے یا زمین کے اوپر بھی دفن کیاجاسکتا ہے؟

جواب : اسلام میں سدا سے مردوں کو زمین میں دفن کرنے کا عمل رہا ہے ، اس طریقہ پر ہمیشہ مسلمان عمل پیرا رہے۔ اﷲ تعالی نے بھی اس حقیقت کا ذکر کیا ہے کہ انسانوں کی تخلیق مٹی (زمین)سے ہے، وہ مرکر اسی زمین میں جاتا ہے اور اسی زمین سے قیامت میں اٹھایا جائے گا۔ فرمان باری تعالی ہے: مِنْہَا خَلَقْنَاکُمْ وَفِیہَا نُعِیدُکُمْ وَمِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً أُخْرَی (طہ:55 ).ترجمہ:اس زمین میں سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں پھر واپس لوٹائیں گے اور اسی سے پھر دوبارہ تم سب کو نکال کھڑا کریں گے ۔ عہدرسالت میں جن کی بھی وفات ہوئی نبیﷺ نے زمین میں قبر کھود کر دفنانے کا حکم دیا ۔آج بھی صحابہ کرام کی قبریں حتی کہ خود آپ ﷺکی قبر مبارک اس بات کا ثبوت ہیں۔ جب نبی ﷺکی بیٹی ام کلثوم رضی اﷲ عنہا کو (زمین والی )قبرمیں دفنایا جارہاتھا تو آپ ﷺ نے پوچھا تھا کہ کیا تم میں کوئی ایسا شخص بھی ہے کہ جو آج کی رات عورت کے پاس نہ گیا ہو۔ اس پر ابوطلحہ رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ میں ہوں۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر قبر میں تم اترو چنانچہ وہ ان کی قبر میں اترے۔(صحیح بخاری:1285)سیدنا ہشام بن عامر ؓ سے مروی ہے کہ احد کے روز انصاری لوگ رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا : ہم زخمی ہیں اور تھکے ہوئے بھی تو آپ ﷺ کیا ارشاد فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے رمایا:احفُروا وأوسِعوا ، واجعَلوا الرَّجُلَیْنِ والثَّلاثۃَ فی القبرِ (صحیح أبی داود:3215, 3216)ترجمہ: قبریں کھودو اور کھلی کھلی بناؤ اور دو دو اور تین تین کو ایک ایک قبر میں دفنا دو ۔

عبداﷲ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:اللَّحدُ لَنا والشَّقُّ غیرِنا(صحیح الترمذی:1045)ترجمہ: بغلی قبرہمارے لیے ہے اور صندوقی قبر اوروں کے لیے ہے۔بغلی والی قبر کہتے ہیں کہ زمین میں میت کے قد برابر مستطیل گڑھا کھودا جائے پھر قبلہ کی جانب نیچے والی دیوار میں میت کے جسم کے مطابق گڑھا کھودا جائے اورشق(شگاف) ہیں کہ زمین میں میت کے برابر لمبا گڑھا کھودا جائے ۔ ان سارے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ میت کے لئے قبر زمین میں ہی کھودی جائے اور اسی میں دفن کیا جائے ۔

بعض علاقوں میں تھوڑی سی زمین کھودنے پر نیچے سے پانی آجاتا ہے ، وہاں قبر کھودکر مردوں کو دفن کرنا مشکل ہے ، ایسی صورت میں زمین کے اوپر دفن کرنے کی جو مناسب صورت بنے دفن کیا جاسکتا ہے مگر پہلے کوشش یہی ہو کہ زمین میں دفن کی صورت اختیار کی جائے اور آج کازمانہ ترقی یافتہ ہے، قبرستان کی مشکلات کو دور کرسکتے ہیں۔ کہیں پر قبرستان بناکر اس میں مٹی ڈال کر اس قدراونچا کرلیا جائے کہ قبر کے برابر زمین کھودنے پرپانی نہ نکلے اس طرح ہم اپنے مردوں کوزمین میں دفن کرسکیں گے ۔

سوال(۱۱): کیا میت کو دفنانے کے بعد اذان دینا صحیح ہے کیونکہ میں نے دو جگہ ایسا کرتے ہوئے دیکھاہے؟۔

جواب : قبر پر یا قبرستان میں اذان دینا بدعت ہے اور بدعت گمراہی کا نام ہے ۔ رسول اﷲ ﷺ کے فرامین میں قبرستان میں اذان دینے کا کوئی ذکر نہیں ہیبلکہ چار فقہی مذاہب میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ قبرستان میں اذان دینے کا عمل بریلوی طبقہ میں رائج ہے کیونکہ اس کے گرو اعلی حضرت نے قبرپہ اذان دینے کی کتاب لکھا ہے ۔ ہمارے لئے رب کا قرآن اور نبی کافرمان کافی ہے ان دونوں کتابوں میں قبر پر اذان کاکوئی ثبوت نہیں ہے جو قرآن وحدیث کے خلاف عمل کرتا ہے اس کا وہ عمل مردودوباطل ہے۔

سوال(۱۲):دفنانے کے بعد میت کے سر کی طرف اور پاؤں کی جانب کھڑے ہوکر سورۃ بقرہ کا آخری حصہ پڑھا جاتا ہے اس عمل کی کیا حیثیت ہے؟ ۔

جواب : امام طبرانی نے المعجم الکبیر((13613 میں اور بیہقی نے شعب الایمان((8854 میں ایک روایت ذکر کی ہے۔ إذا ماتَ أحدُکم فلا تحبِسوہُ ، وأسرِعوا بہِ إلی قبرِہِ ، ولیُقرَأْ عندَ رأسِہ بفاتحۃِ الکتابِ ، وعندَ رجلَیہِ بخاتمۃِ البقرۃِ فی قبرِہ۔ترجمہ: جب تم میں سے کوئی مر جائے تو اسے روک نہ رکھو بلکہ اسے قبر کی طرف جلدی لے جاؤ اور اس کی قبر پر اس کے سر کی جانب سورہ فاتحہ اور اس کے پاؤں کی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھی جائیں۔ ہیثمی نے مجمع الزوائد((3/47 میں اس روایت کو ضعیف کہا ہے اور شیخ البانی نے السلسلۃ الضعیفۃ((4140میں بہت ہی ضعیف کہا ہے ۔ اس لئے میت کو دفنانے کے بعد اس کے سرہانے یا پیر کی جانب سورہ فاتحہ یا سورہ بقرہ کی آیات پڑھنا غیرمسنون عمل ہے اس سے بچنا چاہئے بلکہ قبرستان میں قرآن پڑھنے کی سرے سے کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔

سوال(۱۳): میت کو لحد کے اندر لے جاتے وقت کچھ مٹی گر جاتی ہیں تو کچھ لوگ فوراً چیخ اٹھتے ہیں کہ مٹی کو اندر نہ گرنے دیں بلکہ جو مٹی گر جاتی ہے اسکو بھی نکال لی جاتی ہے یہ بات مجھے حیرت میں ڈال رہی ہے۔

جواب : میرے خیال سے قبر کے پاس لوگوں کو احتیاط برتنے کو کہاجاتا ہوگا تاکہ میت پر مٹی نہ گرے ،بد احتیاطی میں قبر کا سرا بھی ٹوٹ سکتا ہے ، آدمی بھی اس میں گرسکتا ہے۔ شاید یہی نیت ہوگی ۔ تھوڑی بہت مٹی قبر میں گرجائے تو اسے نکالنے کی ضرورت نہیں ہے خواہ میت کو دفن کرتے وقت گرے یا اس سے قبل ۔ جو گورکن ہوتے ہیں وہ بڑی محنت سے قبر کھودتے ہیں اس کے سامنے کسی سے ذرہ برابر بھی مٹی قبر میں گرے برداشت نہیں ہوتا اس لئے لوگوں پر چلا اٹھتے ہیں ، اگر آپ اپنے گھر کو صاف ستھراکریں اور کوئی دوسرا وہاں گندا کرے تو شاید آپ کو بھی برداشت نہیں ہوگا۔

سوال(۱۴):میت کو لحد میں لٹانے کے بعد لکڑی کے پھٹوں یا کنکریٹ کی بنی سلوں سے ڈھانپ دیا جاتا ہے تو کچھ جگہوں پر چھوٹے سوراخ رہ جانے کی بنا پر انکو پتھر، اینٹوں یا کاغذ کے ٹکڑوں سے بند کیا جاتا ہے کیا یہ ضروری عمل ہے؟

جواب : یہ اس لئے ایسا کیا جاتا ہے تاکہ جب مٹی ڈالی جائے تو قبرکے اندر نہ گرے اور اسی طرح مردہ خور جانور کمزور مقامات سے قبر میں داخل ہوکر میت کو چیرپھاڑسکتا ہے جبکہ ہمیں میت کی بے حرمتی سے منع کیا گیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ قبر کو پہلے مضبوطی سے بند کیا جائے پھر اس پر مٹی ڈالی جائے ۔

سوال(۱۵):کیا جنازہ اٹھاتے وقت اور قبرستان تک لے جاتے ہوئے پورے راستے میں کلمہ شہادت پڑھنا ضروری ہے؟

جواب : جنازہ کے ساتھ چلتے ہوئے خاموشی اختیار کی جائے ، بعض لوگ کلمہ شہادت اور بلند آواز سے ذکر کرتے ہیں جوکہ دین میں نئی ایجاد ہے ۔ صحابہ کرام جنازہ کے پیچھے آواز بلند کرنے کو ناپسند فرماتے تھے ۔کان أصحابُ النَّبیِّ صلَّی اﷲُ علَیہِ وسلَّمَ یکرہونَ رفعَ الصَّوتِ عند الجنائزِ .(أحکام الجنائزللالبانی : 92)ترجمہ: نبی ﷺ کے اصحاب جنازہ کے پیچھے آواز بلند کرنے کو ناپسند فرماتے تھے ۔

٭ شیخ البانی نے کہا کہ اس کی سند کے رجال ثقہ ہیں ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے : لا تُتبَعُ الجَنازۃُ بصَوتٍ ولا نارٍ(سنن أبی داود:3171)ترجمہ: جنازے کے پیچھے آواز اور آگ کے ساتھ نہ آ۔شیخ البانی نے کہا کہ اس کی سند میں غیر معروف ہے مگر مرفوع شواہد اور بعض موقوف آثارسے اسے تقویت ملتی ہے ۔ (احکام الجنائز:91)اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنازہ کے پیچھے جس طرح آواز لگانا منع ہے اسی طرح آگ لے کر جانا منع ہے کیونکہ اس میں اہل کتاب کی مشابہت ہے ۔

سوال(۱۶) :مسجد میں مائیک سے یا رکشتہ وغیرہ میں لاؤڈسپیکر لیکر جنازہ کی خبر دینا جائز ہے ، یہ ہمارے علاقہ میں رواج کی شکل اختیار کرلیا ہے؟

جواب: اصل وفات کی تشہیر کرنا منع ہے جوکہ نعی میں داخل ہے لیکن تجہیزوتکفین میں شامل ہونے اور دعائے مغفرت کے لئے اعزاء واقارب اور مسلمانوں کو خبر دینے کی غرض سے موبائل سے فون کرنے یا مسجد کے اسپیکر سے اعلان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ رکشہ اور گاڑی وغیرہ میں اسپیکر لگاکر گاؤں گاؤں میت کا اعلان کرنا درست نہیں ہے۔

سوال(۱۷) :جس وقت میت کے لئے نماز جنازہ ہوتی ہے اس وقت میت کا چہرہ کس طرف ہونا چاہئے ؟

جواب : اس وقت میت کا چہرہ قبلہ رخ ہویا غیرقبلہ کوئی حرج نہیں ہے البتہ اہم با ت یہ ہے کہ امام کس جگہ کھڑا ہو ؟ میت مرد ہو تو امام سر کے پاس اور عورت ہو تو درمیان میں کھڑا ہو۔ اگر میت میں کئی مردوعورت اور بچے ہوں تو عورتوں کو قبلہ کی طرف پھر بچوں کو،اس کے بعد مردوں کو امام کی جانب رکھا جائے ۔

سوال(۱۸) :کیا عورتیں الگ سے جماعت بناکر گھر میں جنازہ کی نماز ادا کرسکتی ہیں ؟

جواب : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عورت نماز جنازہ نہیں پڑھ سکتی اور اس خیال سے متعلق ثبوت کے طور پر ایک روایت بیان کی جاتی ہے وہ اس طرح ہے :لَیْسَ للنِّسَاء ِ فی الجنازَۃِ نصیبٌ(مجمع الزوائد:16/3)ترجمہ: عورتوں کے لئے جنازہ میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔اس سے استدلال نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ ضعیف ہے ۔ شیخ البانی نے اسے بہت ہی ضعیف کہا ہے ۔(ضعیف الترغیب:2069)حقیقت یہ ہے کہ عورتیں بھی میت کا جنازہ پڑھ سکتی ہیں ۔ حضرت ابوسلمی بن عبدالرحمن روایت کرتے ہیں کہ جب سعد بن وقاص رضی اﷲ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا: ادخُلوا بہ المسجدِ حتی أصلیَ علیہ(صحیح مسلم:973)ترجمہ: سعد کا جنازہ مسجد میں لاؤ تاکہ میں بھی نماز جنازہ ادا کرسکوں ۔

عورتوں کی افضل نماز تو گھر میں ہی ہے ، اس لحاظ سے عورتیں میت کے غسل اور کفن کے بعد جمع ہوکر جماعت سے میت کی نماز جنازہ گھر ہی میں پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں اور وہ مردوں کے ساتھ مسجد میں ادا کرنا چاہے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے جیساکہ اوپر والی حدیث عائشہ گزری جس سے مسجد میں عورت کا نماز جنازہ پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔اس بارے میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اﷲ سے سوال کیا گیا کہ کیا عورتوں کے لئے جائز ہے کہ گھر کی ساری عورتیں جمع ہوکر گھر ہی میں میت کی نماز جنازہ پڑھ لے؟ توشیخ رحمہ اﷲ نے جواب کہ کوئی حرج نہیں عورتیں نماز جنازہ مردوں کے ساتھ مسجد میں ادا کرے یا جنازہ والے گھر میں ادا کرلے کیونکہ عورتوں کو نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا گیا بلکہ قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ (مجموع فتاوی ابن عثیمین:17/157)

سوال(۱۹): ایک بھائی کا اعتراض ہے کہ ایصال ثواب کا لفظ استعمال کرنا غلط ہے کیونکہ یہ قرآن وحدیث میں کہیں نہیں آیا ہے ، بدعتیوں میں اس کا مخصوص طریقہ اور مخصوص ماحول ہے اس سلسلے میں آپ کی رہنمائی درکار ہے ؟

جواب : لفظ “ایصال ثواب” کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ مروجہ طریقہ تو بہت ساری چیزوں میں ہے اس کی وجہ سے ہم صحیح الفاظ استعمال نہیں کر سکتے ہیں ایسا نہیں ہے۔ میت کو زندہ شخص اپنے بعض اعمال سے فائدہ پہنچاتا ہے یہ ایصال ثواب ہی ہے۔ بدعتیوں کے نزدیک وسیلہ کا مروجہ طریقہ شرکیہ ہے تو کیا ہم وسیلہ کا استعمال ترک کر دیں گے؟ ۔ نہیں۔جیسے وسیلہ میں مشروع و غیر مشروع وسیلہ ہے اسی طرح ایصال ثواب میں بھی مشروع وغیرمشروع ایصال ثواب ہے اس وجہ سے ایصال ثواب کے استعمال میں حرج نہیں ہے ۔ اس لفظ کو بہت سے سلفی علماء نے بھی استعمال کیا ہے اور عربی میں تو اس کا استعمال عام ہے ۔

سوال(۲۰): قبر پر مٹی ڈالتے وقت لوگ منہا خلقناکم پڑھتے ہیں شرعا اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: اس کی مشروعیت کے لیے جو حدیث بیان کی جاتی ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:عن ابی امامۃ رضی اﷲ عنہ قال: لما وضعت ام کلثوم بنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فی القبر قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : منہا خلقناکم و فیہا نعیدکم و منہا نخرجکم تارۃ اخری۔ترجمہ :ابوامامہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیٹی ام کلثوم قبرمیں اتاری گئیں تو آپ نے یہ آیت پڑھی: منہا خلقناکم و فیہا نعیدکم و منہا نخرجکم تارۃ اخری یعنی ہم نے اسی مٹی سے تم کو پیدا کیا، اسی میں ہم تم کو لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ زندہ کرکے اٹھائیں گے۔

تخریج:اس حدیث کی تخریج امام احمد نے اپنی مسند ( رقم الحدیث ) میں کی ہے، نیز حاکم نے المستدرک ( رقم الحدیث ) میں اسے بیان کیا ہے۔ دونوں نے بسند عبید اﷲ بن زحر عن علی بن زید بن جدعان عن القاسم عن ابی امامۃ درج کیا ہے۔صحت : علامہ البانی رحمہ اﷲ نے کہا ہے:فذا کان احسن احوال ہذا الحدیث انہ ضعیف جدا، فلا یجوز العمل بہ قولا واحدا کما بینہ الحافظ ابن حجر فی تبیین العجب فیما ورد فی فضل رجب۔ (احکام الجنائز و بدعہا للالبانی )ترجمہ:اس حدیث کا اگر سب سے اچھا درجہ متعین کیا جائے (تب بھی اس کا درجہ) ضعیف جدا (بہت زیادہ ضعیف) ہوگا لہٰذا کسی بھی صورت میں اس پر عمل کرنا جائز نہ ہوگا جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اﷲ نے تبیین العجب فیما ورد فی فضل رجب میں بیان کیا ہے

موضوعات