جل بجھیں گے شب فرقت کی سحر ہونے تک

جل بجھیں گے شب فرقت کی سحر ہونے تک
دل لہو ہوگا مداوائے جگر ہونے تک
ہم تو مرجائیں گے الفت کی نظر ہونے تک

آہ! کو چاہیے اک عمر سحر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
….
رفعتِ مرتبہ کے کیا کوئی آسان ہیں ڈھنگ
دیکھنے پڑتے ہیں دنیا میں ہزاروں نیرنگ
کبھی موجوں سے لڑائی ، کبھی طوفان سے جنگ

دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
….
امتحاں ہائے محبت کی نہ حد ہے نہ حساب
طاقت ضبط کے آثار ، جگر میں کمیاب
کشمکش میں ہے گرفتار دل خانہ خراب

عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
….
جانتے ہیں کہ جفا تم سے ہے اب ناممکن
ہائے قاصد ہی نہیں نامہ بری کا ضامن
تم جب آو گے تو ہستی کے گزر جائیں گے دن
….
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
….
حسرت لطف میں باقی ہے دل زار و دو نیم
دل کی ہستی شب غم تک ہے زمانے میں مقیم
باد صرصر ہے میرے حق میں ، محبت کی نسیم
….
پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک
….
معنی نیست سے ہے یہ صورت ہستی غافل
ہے کفن لازمہ خلعت ہستی غافل
شمع کے حال سے لے عبرت ہستی غافل
….
یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل
گرمئی بزم ہے یک رقص شرر ہونے تک

جیتے جی غم کی حکومت کبھی اندوہ کا راج
فکر سر کی ہے کہیں اور کسی کو غم تاج
زندگانی میں صبا کس کا سنبھلتا ہے مزاج
….
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

صبا اکبر آبادی

تبصرے کیجئے

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.