تم مزا لو ، یہ نہ پوچھو کہ کہاں چھیڑا ہے

تم مزا لو ، یہ نہ پوچھو کہ کہاں چھیڑا ہے
بس جہاں چھیڑنا بنتا ہے وہاں چھیڑا ہے !

جس جگا چاہا شبِ وصل وہاں چھیڑا ہے
آہ کیا نبض دٙبی، اف رے کہاں چھیڑا ہے !

واعظا ! ہم نے حٙسینوں کو کہاں چھیڑا ہے ؟؟
پر تری ضد سے نہ چھیڑا بھی تو ہاں چھیڑا ہے !!

تیرے درویش نے کیا ذکرِ نِہاں چھیڑا ہے ،
لا ماکاں پہونک دیا ایسا گُماں چھیڑا ہے !

تم ہو غالب كے طرف دار ، اِدَھر منہ تو کرو ،
ہم نے بھی ایک سے ایک اہلِ زباں چھیڑا ہے ۔

غیر کی چھیڑ کا پوچھا تو جٙلا کر بولے ،
تُو جہاں مجھ کو نہیں چھیڑتا واں چھیڑا ہے !

گرّم ہے بزم ابھی شرم نہ کھاؤ ، دیکھو
وه جگا بھی تو کہو ہم نے جہاں چھیڑا ہے !

ہم بھی دیکھیں جو مزا غیر كے ہاتھوں میں ہے ،
چھیڑ کر ہم کو بتاؤ کہ یہاں چھیڑا ہے ۔

نام حمزہ ہے مرا ، آگ ہیں مصرعے میرے ،
یاد رکھو گے کوئی اہلِ زباں چھیڑا ہے !

شرم سے پاس بھی آتے نہیں وه ، کہتے ہیں
خوف کر کچھ تو خُدا کا یہ کہاں چھیڑا ہے !!

شیخ كے شوق نرالے ہیں ، خُدا خیر کرے
پِھر سے مسجد میں کوئی مردِ جواں چھیڑا ہے ۔

تب مزا ہے کہ برابر کی ہو چھیڑا چھاڑی ،
شوق سےچھیڑو وہاں ہم نے جہاں چھیڑا ہے !

چھیڑا چھاڑی کا مزا دیکھو کہ خود کہتے ہیں ،
پِھر ذرا چھیڑ كے بتلانا تو یاں چھیڑا ہے ۔

مستیاں دیکھو مری ، چھیڑ كے کہتا ہوں اُنہیں
تم بھی واں چھیڑ كے دِکھلاو جہاں چھیڑا ہے ۔

لِپٹا جٙھپٹی سے دُکھا دیتیں ہیں سینہ حمزہ ،
تُو نے حوروں کو ابھی اِتنا کہاں چھیڑا ہے !

حمزہ عمران

موضوعات

تبصرے کیجئے

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.