بدن میں کب کوئی آنکھیں اتارتا ہے یار

بدن میں کب کوئی آنکھیں اتارتا ہے یار
مجھے شکیب کا اک شعر مارتا ہے یار

وجود کانپتا رہتا ہےاسکی چیخ کے بعد
مجھے پکارے تو ایسا پکارتا ہے یار

یہ کون صحرا میں اتنا عزیز ہے تجھ کو
تو جس کی پیاس پہ دریا کو وارتا ہے یار

ٹھہرنے والے کہیں پر بھی ٹھہر جاتے ہیں
گزرنے والوں کو رستہ گزارتا ہے یار

گو کچی عمر ہے پر لڑ رہا ہے جنگ مری
نہ جیت سکتا ہے مجھ کو نہ ہارتا ہے یار

مجھے تو اورخوشی راس ہی نہیں آتی
مجھے تو صرف ترا سکھ نکھارتا ہے یار

فرازاحمد علوی