اگر چمن کا کوئی در کھلا بھی میرے لیے

اگر چمن کا کوئی در کھلا بھی میرے لیے
سموم بن گئی بادِ صبا بھی میرے لیے

مرا سخن بھی ہوا اس کے نام سے موسوم
عبث ہوا مرا اپنا کہا بھی میرے لیے

یہی نہیں کہ وہ رستے سے موڑ کاٹ گیا
نہ چھوڑا اس نے کوئی نقشِ پا بھی میرے لیے

تعلقات کا رکھنا بھی، توڑنا بھی محال
عذابِ جاں ہے یہ رسمِ وفا بھی میرے لیے

مجھے طویل سفر کا ملا تھا حکم تو پھر
کچھ اور ہوتی کشادہ فضا بھی میرے لیے

مرے لیے جو ہے زنجیر میرا اوجِ نظر
کمند ہے مری فکرِ رسا بھی میرے لیے

دوا ہے میرے لیے جس کی خاکِ پا محسنؔ
اسی کا اسم ہے حرفِ دعا بھی میرے لیے

محسنؔ زیدی

موضوعات