آوار گانِ فطرت سے

بتا بھی مجھ کو ارے ہانپتے ہوئے جھونکے!

ارے او سینۂ فطرت کی آہِ آوارہ!

تری نظر نے بھی دیکھا کبھی وہ نظارہ

کہ لے کے اپنے جلو میں ہجوم اشکوں کے

کسی کی یاد جب ایوانِ دل پہ چھا جائے

تو اک خرابِ محبت کو نیند آ جائے

ابدکنار سمندر! تری حسیں موجیں

الاپتی ہیں شب و روز کیسے بھیانک راگ

بتا کبھی ترے طوفاں بجھا سکے ہیں وہ آگ

جو دفعتہً سلگ اٹھتی ہے دکھ بھرے دل میں

جب ایک بچھڑے ہوئے کا پیام آتا ہے

کسی کا روح کے ہونٹوں پہ نام آتا ہے

حسین چاند! ستاروں کی انجمن کے ایاغ!

بتا کبھی تری کرنوں کے سیمگوں سائے

اِک ایسے شہرِ خموشاں پہ بھی ہیں لہرائے

جہاں پہ ایک اَبھاگن نے جب جلا کے چراغ

کسی کی قبر پہ مدھم سی روشنی کی ہو

تو سونے والے نے بھی جاگ کر صدا دی ہو

مجید امجد

موضوعات