آپ سے مل کے ہم کچھ بدل سے گئے شعر پڑھنے لگے گنگنانے لگے

آپ سے مل کے ہم کچھ بدل سے گئے شعر پڑھنے لگے گنگنانے لگے
پہلے مشہور تھی اپنی سنجیدگی اب تو جب دیکھیے مسکرانے لگے

ہم کو لوگوں سے ملنے کا کب شوق تھا محفل آرائی کا کب ہمیں ذوق تھا
آپ کے واسطے ہم نے یہ بھی کیا ملنے جلنے لگے آنے جانے لگے

ہم نے جب آپ کی دیکھیں دلچسپیاں آگئی ہم بھی چند تبدیلیاں
اک مصور سے بھی ہوگئی دوستی اور غزلیں بھی سننے سنانے لگے

آپ کے بارے میں پوچھ بیٹھا کوئی کیا کہیں ہم سے کیا بدحواسی ہوئی
کہنے والی تھیں جو باتیں وہ نہ کہیں بات جو تھی چھپانی بتانے لگے

عشق بے گھر کرے عشق بے در کرے عشق کا سچ ہے کوئی ٹھکانہ نہیں
ہم جو کل ٹھکانے کے تھے آدمی آپ سے مل کے کیسے ٹھکانے لگے

جاوید اختر

موضوعات