یہی ہے رسم ، یہی ہے نظام دنیا میں

یہی ہے رسم ، یہی ہے نظام دنیا میں
ادھر ہیں فوجیں ، ادھر ہیں عوام دنیا میں

ہوں بادشاہتیں ، جمہوریت یا وردیت
سبھی کا ایک ہی ہوتا ہے کام دنیا میں

یہ ورلڈ بینک ہو یا نیسلے یا آئی ایم ایف
یہی تو کرتے ہیں جینا حرام دنیا میں

کہیں عراق ، کہیں ، لیبیا ، کہیں دیگر
جہاں ہے تیل وہیں پر ہے شام دنیا میں

بناوں گا کبھی انٹیلیجنس ایجنسی
بجے گا دیکھنا پھر میرا نام دنیا میں

کہیں سے ہوتی نہیں کیوں بھلا مجھے فنڈنگ
میں جدا ہوا پیدا ، اس غلام دنیا میں

کہیں کہیں کوئی آباد ہو تو ہو ورنہ
اجڑ چکا ہے ہر اک خاص و عام دنیا میں

میں لٹ مروں گا تو تم لوٹ کر مروگے سبھی
جیا ہے کوئی بھلا کب مدام دنیا میں

توجھوٹ بول ، دغا کر ، حرام کھا اور مر
میں سچ لکھوں گا ، رہے گا کلام دنیا میں

فرحت عباس شاہ

موضوعات