ہماری ایک دوست اپنی ہر بات اپنی والدہ سے شیئر کرتی اور مشورہ لیتی تھی۔ کچھ دوستوں نے مذاق اڑایا کہ ہر بات ماں کو کیوں بتاتی ہو؟ ہماری بھی مائیں ہیں لیکن ہر بات ماں کو بتانے والی نہیں ہوتی۔ دوست حیران نظروں سے دیکھنے لگی اور بولی ’’میری سب سےاچھی دوست میری ماں ہے۔ میں اپنی ہر بات میں ان سے رائے لینا پسند کرتی ہوں، کیونکہ ماں کو نہ تو آپ سے کوئی حسد ہوتا ہے نہ ہی کوئی مفاد چھپا ہوتا ہے۔ یہ بےلوث رشتہ میرے لیے بہت قیمتی ہے‘‘۔اس وقت میں دوست کی بات کی گہرائی کا اندازہ نہیں کرسکی تھی۔ یہی سوچا کہ اکلوتی اولاد ہے اس لیے اپنی ماں سے زیادہ قریب ہے۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ احساس ہوا کہ سب رشتے ضرورت، مطلب اور مفاد کے ہوتے ہیں۔ چہرے رنگ بدلتے ہیں یا پھر رشتے۔ سب کچھ بدل جاتا ہے لیکن نہیں بدلتی تو ماں نہیں بدلتی۔ ماں سے اچھا دوست اور ہمراز اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ ماں کی محبت بہتی ندی کے جھرنوں کی طرح اور تنگ و تاریک رستوں میں روشنی کی لو کی مانند جگمگاتی رہتی ہے۔اولاد کے لیے ماں خالق کائنات کا ایک معجزہ ہے، نعمت ہے، عطا ہے اور زندگی کا حسین ترین احساس۔ ایسا حسین اور خوب صورت احساس جو ہر حال میں اولاد کی ڈھال بنتا ہے۔ جس طرح بنجر زمین کو پانی سے سیراب کیا جاتا ہے، ایسے ہی ماں اولاد کے مشکل وقت میں اس کے شکست خوردہ وجود کو اپنی ممتا کی آغوش میں پناہ دے کر جینے کی نئی امنگ دیتی ہے ہمیں خلوص و احساس کے نام پر بہت سے رشتے ملتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہر رشتہ یا تو دور ہوجاتا ہے یا پھر اس رشتے کی مضبوطی اتنی دیرپا نہیں ہوتی جتنی مضبوطی ماں کے رشتے میں ہوتی ہے۔
آپ زندگی کے اتار چڑھاؤ پر نظر دوڑائیں تو یہ بات ماننے سے انکار نہیں کرسکتے کہ دنیا میں واحد ایک ماں کا رشتہ ایسا ہے جو اولاد کے دکھ سکھ میں اپنی ہمت و سکت سے زیادہ ہر محاذ پر مقابلہ کرتی ہے۔ ایک بات جو میں نے ماں کے رشتے میں بہت شدت سے محسوس کی وہ یہ کہ ’’آپ دنیا کی رنگینیوں میں وقتی طور پر اپنے دکھ بھول بھی جائیں، رات کو پرسکون نیند سو بھی جائیں لیکن ماں آپ کے درد کے لیے ہمہ وقت دعاگو رہتی ہے اور رات بھی اولاد کی فکر میں جاگتی آنکھوں سے گزار دیتی ہے‘‘۔ شاید اس درجہ احساس کا پیمانہ ماں کے وجود کو بخش کر خالق کائنات نے ’’ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی‘‘۔
سچ کہوں تو میں اس دنیا میں ملی جنت کو نہیں سمجھ سکی جو اپنے اندر اتنی نرمی و شفقت کا جام بھرے ہوئے ہے جو اولاد کی نافرمانی کے باوجود نہیں چھلکتا۔ وہ لوگ جو ماں کی آغوش سے محروم ہوچکے ہیں ان کے جذبات عید یا کسی اور تہوار پر سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں تو ماں کی اہمیت و قدر کا شدت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماں کا وجود ہے تو زندگی میں بہار ہے، سکون ہے اور اس کی دعاؤں کا ساتھ ہے جو ہر لمحہ امید کا دیا روشن رکھتی ہیں۔ اس بابرکت مہینے اور عید کی خوشیوں میں اپنے ان دوستوں کو اپنی ماں کی دعا اور پیار میں ضرور شامل کریں، جن کی مائیں اس دنیا میں نہیں۔ بہت سے رشتے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور زخم مندمل ہوجاتے ہیں لیکن ماں کا ساتھ چھوڑ جانا کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ کیونکہ ماں ضرورت کا رشتہ نہیں بلکہ احساس کا رشتہ ہے۔