ہوا کو حکم نہ تھا ہاتھ کو دعا ہی نہیں
کواڑ کھول کے دیکھا تو کوئی تھا ہی نہیں
میں دل نکال کے لایا ہوں کیا کروں یہ لو
تمہارے بعد کوئی پھول تو کھلا ہی نہیں
مرا وجود صرف روشنی ہی کاٹتی ہے
مجھے تو آئنے تیرا خیال تھا ہی نہیں
میں چاہتا ہوں مرے سامنے بھی پھول جھڑیں
تو کوئی بات بھی کر صرف مسکرا ہی نہیں
یہ میرے لوگوں کو اب ہے جو مسئلہ درپیش
حصول رزق کا ہے صرف نام کا ہی نہیں
اے شخص دیکھ مرا سایہ ہو گیا ہے اب
تو میرے پھیچے کھڑا ہے مجھے پتہ ہی نہیں
مرا دماغ تھا جو اس کو سوچتا تھا بہت
یہ میرا دل ہے کوئی بات سوچتا ہی نہیں
فرازاحمد علوی