کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی

کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
مجھے اپنے خوابوں کی باہوں میں پا کر
کبھی نیند میں مسکراتی تو ہوگی
اسی نیند میں کسمسا کسمسا کر
سرہانے سے تکیے گراتی تو ہو گی
کہییں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
وہی خواب دن کی منڈیروں پہ آ کے
اُسے من ہی من میں لبھاتے تو ہوں گے
کئی ساز سینے کی خاموشیوں میں
میری یاد میں جھنجھناتے تو ہوں گے
وہ بے ساختہ دھیمے سروں میں
میری یاد میں کُچھ گُنگُناتی تو ہو گی
چلو خط لکھیں..جی میں آتا تو ہو گا
مگر انگلیاں کپکپاتی تو ہوں گی
قلم ہاتھ سے چھوٹ جاتا تو ہو گا
امنگیں قلم پھر اٹھاتی تو ہوں گی
میرا نام اپنی کتابوں پہ لِکھ کر
وہ دانتوں میں انگلی دباتی تو ہو گی
زُباں سے کبھی اُف نکلتی تو ہو گی
بدن دھیمے دھیمے سلگتا تو ہو گا
کہیں کہ کہیں پاؤں پڑتے تو ہوں گے
دوپٹہ زمیں پہ لڑھکتا تو ہو گا
کبھی صبح کو شام کہتی تو ہو گی
کبھی رات کو دن بناتی تو ہو گی
ہر اک چیز ہاتھوں سے گرتی تو ہو گی
طبعیت پہ ہر کام کھلتا تو ہو گا
پلیٹیں کبھی ٹوٹ جاتی تو ہوں گی
کبھی دودھ چولہے پہ جلتا تو ہو گا
غرض اپنی معصوم نادانیوں پر
وہ نازک بدن جھینپ جاتی تو ہو گی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی..

موضوعات