کسی کے ہاتھ سے اک پھول دان ٹُوٹا تھا
اور اس کے ساتھ دلِ بدگُمان ٹُوٹا تھا
زمیں پَھٹی نہ کہیں آسمان ٹُوٹا تھا
بچھڑتے وقت فقط ایک مان ٹُوٹا تھا
مآلِ کشمکشِ سنگ و آئینہ مت پوچھ
جو ٹُوٹنا تھا وہی میری جان ٹُوٹا تھا
چُھپی ہوئی تھی ندامت ھوا کےلہجےمیں
کہ اب کے پیڑ نہیں باغبان ٹُوٹا تھا
اُسی کی چیخ کوپھرسے الاپناتھامجھے
وہ ایک سُر جو کہیں درمیان ٹُوٹا تھا
ترے بیان میں کچھ توکمی رہی ہوگی
ترا طلسم سرِ داستان ٹُوٹا تھا
ہوا کےساتھ کچھ اپنےبھی کارفرما تھے
پَھٹا نہیں تھا مرا بادبان ٹُوٹا تھا
اسد رحمان