لفظ کو ہمّتِ اظہار نہیں ہوتی ہے
تیری بخشش جو مرے نُطق نشیں ہوتی ہے
بخُدا محض یہ حرفوں کی نہیں بخیہ گری
نعت احساس ہے اور دل میں کہیں ہوتی ہے
کیسے محدود زمانوں میں لکھوں نام ترا
سوچ نادم ہے، عقیدت بھی حزیں ہوتی ہے
ویسے تو آپ سے نسبت ہے ورائے تمثیل
ایک قُربت ہے جو جاں سے بھی قریں ہوتی ہے
جس کو حاصل ترے قدمین کا اعزاز ہوا
نازشِ عرشِ بریں ایسی زمیں ہوتی ہے
دل ترے شوقِ تصور سے جُڑا رہتا ہے
وقفِ کعبہ جو کہیں اپنی جبیں ہوتی ہے
بعد میں کرتا ہوں مَیں عجز سے تحدیثِ کرم
تری رحمت تو مگر قبل ازیں ہوتی ہے
آنکھ کے رستے سے اظہار کے در کھُلتے ہیں
دل کے آنگن میں تری یاد مکیں ہوتی ہے
زیست ایسے کہ گمانوں کا سفر ہو جیسے
بس تری دید ہے جو نقشِ یقیں ہوتی ہے
باقی سب امر و نہی حُکم کی تعبیریں ہیں
حُبِ سرکار مگر حاصلِ دیں ہوتی ہے
ایک تاثیرِ مسلسل ہے مدینہ مقصود
جس جگہ بھی ہو بدن، روح وہیں ہوتی ہے
مقصود علی شاہ