عکس کے بر عکس ہر انداز تھا
جانے کس انجام کا آغاز تھا
تیری ضد کی زد میں تھا کیا دل کا حال
اک پرندہ تھا جو بے پرواز تھا
آگے آگے تھا وہ راہِ عشق میں
دم کہاں لیتا مرا دم ساز تھا
بے مزہ لگتی تھی ان کو میری آہ
کم شکستہ دل کا جب تک ساز تھا
عشق بھی جیسے سیاسی کھیل ہو
ہر وضاحت میں تری اک راز تھا
وہ ندی بھی خشک اک دن ہو گئی
جس کی طغیانی پہ دل کو ناز تھا
چہچہاتا اک پرندہ تھا یہ دل
تیرے پنجرے میں جو بے آواز تھا
کون تھا شاہِ جہانِ شعرِ تر
کون شہرِ حسن میں ممتاز تھا
اک طرف مٹّی کا مادھو تھا کوئی
اک طرف اک پیکرِ طنّاز تھا
چشمِ راغبؔ میں چمک گھٹتی نہ تھی
آس کے اک دیپ کا اعجاز تھا
افتخار راغبؔ