لاکھ تم اشک چھپاؤ، ہنسی میں بہلاؤ!چشمِ نمناک بتاتی ہے کہ تم روئے ہو! یہ جو رُخ موڑ کے تم نے کہا نا، “ٹھیک ہوں میں”مجھے آواز بتاتی ہے کہ تم روئے ہو! جو اُترتی
غزلیں
ہجر کا حکم سنا، کون و مکاں چونک پڑےمیں یہاں چونک پڑا ، آپ وہاں چونک پڑے میں تو جس نام سے واقف تھا وہی نام لیانام سنتے ہی فلاں ابن ِ فلاں چونک پڑے وہ کسی اور ملاقات میں
بعض کاموں کی تلافی نہیں ہوتی صاحببے وفائی کی معافی نہیں ہوتی صاحب ختم ہوجائے کسی آخری لمحے پہ مٹھاسیہ محبت کوئی ٹافی نہیں ہوتی صاحب ہر کوئی حسن نہیں دل میں اترنے والاہر
جینے کے حق میں آخری تاویل دی گئیکٹنے لگی پتنگ تو پھر ڈھیل دی گئی ساری رگوں نے آپسیں گٹھ جوڑ کر لیامشکل سے دل کو خون کی ترسیل دی گئی بے فیض سا جو زخم تھا وہ بھر دیا گیااک
پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ھےاب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ھے ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبتلیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ھے دل پر پانی پینے آتی ھیں امیدیںاس چشمے
جل بجھیں گے شب فرقت کی سحر ہونے تک دل لہو ہوگا مداوائے جگر ہونے تک ہم تو مرجائیں گے الفت کی نظر ہونے تک … آہ! کو چاہیے اک عمر سحر ہونے تک کون جیتا ہے تیری زلف کے
کہیں سے نیلے کہیں سے کالے پڑے ہوئے ہیں ہمارے پیروں میں کتنے چھالے پڑے ہوئے ہیں ہماری خاطر بھی فاتحہ ہو برائے بخشش ہم آپ اپنے پہ خاک ڈالے پڑے ہوئے ہیں ہماری آنکھوں میں
اتنی ہیبت ہے کہ ہر سانس رکی جاتی ہے زندگی ہے کہ ستم خیز چلی جاتی ہے میری دن بھر کی مسافت کو اگر سمجھو تم تب یہ جانو گے تھکن کیسے سہی جاتی ہے ہارنے والو سنو! اس پہ یقیں
نہ رہی وہ بزمِ عشرت،نہ وہ عیشِِ جاودانہ تیری اک نظر نے لوٹا__میری عمر کا خزانہ نہ کہیں کا تو نے چھوڑا مجھے گردش_زمانہ نہِیں ڈھونڈنے سے ملتا کہیں اب کوئی ٹھکانہ یہی
سن محبت کا معجزہ،ول آ اے مرا بندۂ خدا، ول آ عکس کو چھین لے گیا سایہ آئینہ چیختا رہا ، ول آ راج کرنے لگی ہے خاموشی قہقہے ہجر لے چلا، ول آ پیڑ مرنے لگے ہیں وحشت سے اے