سرد لہجہ خود پہ طاری کیجیے
جون میں بھی برفباری کیجیے
سی لیا ہے دل مرا گر آپ نے
اور تھوڑی دستکاری کیجیے
عشق کا پرچہ کٹا دیجے حضور
پھر بھگا کر اشتہاری کیجیے
اپنے پیروں پر کلہاڑی مار کر
درد میں پھر آہ و زاری کیجیے
بھیڑیےبھی گھاس کھائیں گےضرور
بکریوں کو تو شکاری کیجیے
پست دروازہ بنا ہے شہر کا
کیسے اونٹوں کی سواری کیجیے
خشک گالوں پر تھکن کی گرد ہے
آنکھ سے دو اشک جاری کیجیے
راز بتلا کر سبھی کو کہہ گیا
محترم اب راز داری کیجیے
جسم پر سایہ رہے اس پیڑ کا
روح کی بھی آبیاری کیجیے
شعر پڑھیے ڈگڈگی لے کر فہد
خود کو تھوڑا سا مداری کیجیے
سردارفہد