دل کس کے تصور میں جانے راتوں کو پریشان ہوتا ہے
یہ حسن طلب کی بات نہیں ,ہوتا ہے میری جان ہوتا ہے
ہم تیری سکھائی منطق سے اپنے کو تو سمجھا لیتے ہیں
اک خار کھٹکتا رہتا ہے سینے میں جو پنہاں ہوتا ہے
پھر اسکی گلی میں پہنچے گآ , پھر سجدہ سہو کرلے گا.
اس دل پہ بھروسہ کون کرے,ہر روز جو مسلماں ہوتا ہے
وہ درد کہ اس نے چھین لیا, وہ درد کہ اسکی بخشش تھا
تنہائی کی راتوں میں انشا اب مرا بھی مہماں ہوتا ہے
ابن انشا