دلبری کے پیام بکتے ہیں
عاشقی کے سلام بکتے ہیں
خاک آلودہ میلی بستیوں میں
گلبدن لالہ فام بکتے ہیں
دوست احباب ، تاش کے پتے
شاہ ملکہ غلام بکتے ہیں
پوچھتے کیا ہو گرمئی بازار
تاج و تخت اور نظام بکتے ہیں
سولیوں پر چڑھے ہیں لوگ کھرے
کھوٹے سکے تمام بکتے ہیں
جو خریدار بن کے آتے ہیں
وہ بصد اہتمام بکتے ہیں
وقت کی گردشوں میں ہیرے بھی
سنگ ریزوں کے دام بکتے ہیں
امن کی آشا کے لبادوں میں
وحشتوں کے دوام بکتے ہیں
لگ گئیں منڈیاں ضمیروں کی
حسب ِ حال انتظام بکتے ہیں
نام پروردگار کا لے کر
جُبّے دستار امام بکتے ہیں
درد ِ درویش رہ گئے انمول
شاعروں کے کلام بکتے ہیں
فاروق درویش