داستان ایمان فروشوں کی ۔۔۔ بارہویں قسط

دوسری بیوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

میلے کے تین ماہ بعد……
سلطان کی فوج میں تین جرائم کی رفتار بڑھنے لگی ……چوری ، جواء بازی اور رات کی غیر حاضری……یہ جرائم اس سے پہلے بھی ہوتے تھے ، لیکن نہ ہونے کے برابر تھے ۔ فوجی میلے کے بعد یہ وبا کی صورت اختیار کرنے لگے۔ ان تینوں کی بنیاد جواء بازی تھی ۔چوری کی وارداتیں اسی تک محدود تھیں کہ سپاہی سپاہی کی کوئی ذاتی چیز چرا کر بازار میں بیچ ڈالتا تھا، مگر ایک رات فوج کے تین گھوڑے غائب ہوگئے ۔سواروں اور سپاہیوں کی تعداد پوری تھی ۔کوئی بھی غیر حاضر نہیں تھا، اگر اس نقصان کو نظر انداز کردیاجاتا تو اگلی بار دس گھوڑے چوری ہوجاتے ۔ اعلیٰ حکام تک رپورٹ پہنچی ۔انہوں نے فوجوں کو تنبیہ کی ، سزاسے ڈرایا ، خدا سے ڈرایا مگر یہ تینوں جرائم بڑھتے گئے۔

ایک رات ایک سپاہی پکڑا گیا۔ وہ کہیں سے کیمپ میں آرہاتھا۔ اس سے پہلے رات کو غیر حاضر ہونے والے سپاہی چوری چھپے سنتریوں سے بچ کر نکل جاتے اور بچتے بچاتے آجاتے تھے، لیکن یہ سپاہی لڑکھڑاتا آرہاتھا ۔ سنتری نے اسے دیکھ لیا اور اُسے پکارا ۔ سپاہی رُک گیا اور گر پڑا ۔ سنتری نے دیکھا کہ یہ خون میں نہایا ہواتھا۔ اسے اُٹھا کر اپنے عہدے دار کے پاس لے گیا۔ اس کی مرہم پٹی کی گئی ، مگر وہ زندہ نہ رہ سکا۔ مرنے سے پہلے اس نے بتایا کہ وہ اپنے ایک ساتھی سپاہی کو قتل کر آیا ہے اور اس کی لاش کیمپ سے نصف کوس دور ایک خیمے میں پڑی ہے ۔اس کے بیان کے مطابق وہاں تین خیمے تھے ۔وہ لوگ خانہ بدوش تھے ۔ان کے پاس خوب صورت عورتیں تھیں ۔ وہ ان عورتوں کی نمائش فوجیوں میں کرتے تھے ۔ رات کو سپاہی وہاں تک پہنچ جاتے تھے ، وہ دوسروں کو بتاتے تو وہ بھی چلے جاتے ۔

وہ خانہ بدوش صرف عصمت فروش نہیں تھے ۔ ان کی ہر عورت اپنے ہر فوجی گاہک کو یہ تاثر دیتی تھی کہ وہ اس پر فدا ہے اور اس کے ساتھ شادی کر لے گی ۔بعد کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ انہوں نے سپاہیوںمیں رقابت پیدا کردی تھی۔اسی کا نتیجہ تھا کہ یہ دوسپاہی خانہ بدوشوں کے خیمے میں لڑپڑے ۔ ایک مارا گیا اور دوسرا زخمی ہوکر آیا اور بیان دے کر مرگیا۔

دوسرے سپاہی کی لاش لانے کے لیے آدمی روانہ کردئیے گئے ۔ ان کے ساتھ ایک کمان دار بھی تھا۔ مرنے والے سپاہی نے راستہ اور جگہ بتادی تھی ۔ وہاں گئے تو دیکھا کہ سپاہی کی لاش پڑی ہے ۔ خیمے نہیں ہیں ، وہاں کے نشان بتارہے تھے کہ یہاں سے خیمے اُکھاڑے گئے ہیں ۔ رات کے وقت اُن کی تلاش ممکن نہیں تھی ۔ سپاہی کی لاش اُٹھالائے ۔اس حادثے کی رپورٹ سلطان ایوبی کو دی گئی اور یہ بھی بتایا گیا کہ فوج میں جرائم بڑھ گئے ہیں اور تین گھوڑے بھی چوری ہوچکے ہیں ۔سلطان نے علی بن سفیان کو بلا کر کہا کہ وہ سپاہیوں کے بھیس میں اپنے سراغ رساں فوج میں شامل کرکے معلوم کرے کہ یہ جرائم کیوں بڑھ گئے ہیں ۔سلطان نے اس سلسلے میں البرق کو بھی حکم دیا۔

اس ”کیوں ”کا جواب شہر کے اندر موجود تھا، جہاں تک علی بن سفیان کے سراغ رساں کی رسائی محال تھی ۔ یہ ایک بہت بڑا قلعہ نما مکان تھا۔ مصریوں کا ایک کنبہ نہیں ،بلکہ پورا خاندان اس میں رہتاتھا۔ اس مکان اور مکینوں کو شہر میں عزت حاصل تھی ، کیونکہ یہاں خیرات بہت تقسیم ہوتی تھی ۔ناداروں کو یہاں سے مالی مدد ملتی تھی ۔فوجی میلے میں اس خاندان نے سلطان ایوبی کو اشرفیوں کی دو تھیلیاں فوج کے لیے پیش کی تھی ۔ یہ سودا گر خاندان تھا۔ مصرمیں سلطان ایوبی کے آنے سے پہلے یہ مکان سوڈانی فوج کے بڑے رتبے والوں اور انتظامیہ کے حاکموں کی مہمان گاہ بنارہاتھا۔ سوڈانیوں کو سلطان ایوبی نے آکر ختم کردیا تو اس خاندان کی وفاداریاں حکومت کے ساتھ رہیں اور یہ سلطان ایوبی کا وفادار ہوگیا۔

جس روز سلطان ایوبی نے البرق اور علی بن سفیان کو حکم دیا کہ وہ فوج میں جرائم کی وبا کی وجوہات معلوم کریں ، اس سے اگلی رات اس مکان کے ایک کمرے میں دس بارہ آدمی بیٹھے تھے ۔شراب کا دور چل رہاتھا۔ کمرے میں ایک بوڑھا آڈمی داخل ہوا۔اسے دیکھ کر سب اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ا سکے ساتھ ایک بڑی خوب صورت لڑکی تھی جس کا آدھا چہرہ نقاب میں تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی دروازہ بند کردیاگیا اور لڑکی نے نقاب اُٹھادیا ۔وہ بوڑھے کے ساتھ بیٹھ گئی ۔

”کل امیرِ مصر تک اطلاع پہنچ گئی ہے کہ فوج میں جوئے بازی اور بدکاری بڑھ گئی ہے ”۔ بوڑھے نے کہا……”ہماری آج کی یہ نشست بہت اہم ہے ۔امیرے نے سپاہیوں کے بھیس میں فوج میں سراغ رساں شامل کرنے کا حکم دے دیاہے ۔ ہمیں ان سراغ رسانوں کو ناکام کرنا ہے ۔تازہ اطلاع بڑی ہی اُمید افزاہے ۔ دومصری سپاہیوں نے ایک عورت پر لڑ کر ایک دوسرے کو قتل کردیاہے ،یہ ہمای کامیابی کی ابتدا ہے ۔”

”تین مہینون میں صرف ایک مسلمان سپاہی نے دوسرے کو قتل کیا اور خود بھی قتل ہواہے ”۔ ایک آدمی نے بوڑھے کی بات کاٹ کر کہا……”کامیابی کی یہ رفتار بہت سست ہے۔ کامیابی ہم اسے کہیںگے جب ایوبی کا کوئی نائب سالار اپنے سالار کو قتل کردے گا”۔

” میں کامیابی اسے کہوں گا کہ جب کو ئی سالار یا نائب سالار صلاح الدین ایوبی کو قتل کرد ے گا ”۔ بوڑھے نے کہا ……”مجھے معلوم ہے کہ ایک ہزار سپاہی قتل ہوجائیں تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارامطمعِ نظر ایوبی کا قتل ہے ۔آپ سب کو پچھلے سال کے دونوں واقعات یاد ہوں گے۔ساحل پر سلطان ایوبی پر تیر چلایا گیا اور وہ خطا گیا۔ روم سے آدمی آئے ، وہ ایسے ناکام ہوئے کہ سب کے سب مارے گئے اور ایک بد بخت مسلمان ہوگیا۔ اس سے کیا ظاہر ہوتاہے ؟……یہ کہ سلطان کو قتل کرنا آسان نہیں جتنا آپ لوگ سمجھتے ہیں ۔یہ بھی ہوسکتاہے کہ ایوبی قتل ہوجائے تو اس کا جانشین اس سے زیادہ سخت اور کٹر مسلمان ثابت ہو۔ اس لیے یہ طریقہ زیادہ بہتر ہے کہ اس کی فوجوں کو اس خوب صورت تباہی کے راستے پر ڈال دو ، جس پر صلیب کے پرستاروں نے بغداد اور دمشق کے مسلمان اُمراء اور حاکموں کو ڈال دیاہے ”۔

”صلیب کے پرستاروں اور سوڈا نیوں کو شکست کھائے ایک سال گزر گیاہے ”۔ ایک نے کہا……”اس ایک سال میں آپ نے کیاکیاہے؟……محترم !آپ بڑا لمبا راستہ اختیار کررہے ہیں ۔دو آدمیوں کا قتل بے حد لازمی ہے ۔ایک صلاح الدین ایوبی ، دوسرا علی بن سفیان ”۔

”اگر علی بن سفیان کو ختم کردیاجائے تو ایوبی اندھا اور بہرہ ہوجائے گا”۔ ایک اور نے کہا۔

”میں نے وہ آنکھیں حاصل کرلی ہیں جو سلطان ایوبی کے سینے کے ہر ایک راز کو دیکھ سکتی ہیں”۔ بوڑھے نے کہااور اس لڑکی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا جو اس کے ساتھ آئی تھی ۔بوڑھے نے کہا……”یہ ہیں وہ آنکھیں ۔دیکھ لو اِن آنکھوں میں کیا جادو ہے ۔تم سب نے صلاح الدین ایوبی کے ایک حاکم خادم الدین البرق کانام سنا ہوگا۔تم میں سے بعض نے اسے دیکھا بھی ہوگا۔ صرف دو آدمی ہیں جو صلاح الدین ایوبی کے سینے میں دیکھ سکتے ہیں ۔ایک علی ، دوسرا البرق ۔علی بن سفیان کو قتل کرنا حماقت ہوگیا، میں نے جس طرح البرق پر قبضہ کر لیاہے ،اسی طرح علی پر بھی کرلوں گا”۔

”البرق آپ کے قبضے میں آچکاہے ؟……ایک نے پوچھا ۔

”ہاں! ”بوڑھے نے لڑکی کے ریشمی بالوں کو ہاتھ سے چھیڑ کر کہا……”میں نے اسے اِن زنجیروں میں جکڑ لیاہے ۔ میں نے آج آپ سب کو چند اور باتیں بتانے کے علاوہ یہ خوش خبری بھی سنانے کے لیے بلایاہے ۔ہمیں جلدی برخاست ہوناہے ،کیونکہ ہم سب کا ایک جگہ اکٹھا ہونا ٹھیک نہیں ۔اس لڑکی کو تم سب شاید جانتے ہو۔ مجھے بالکل اُمید نہیں تھی کہ یہ اتنی اُستادی سے یہ ڈرامہ کھیل لے گی۔اس کی عمر دیکھئے ،پختہ نہیں ہے ۔ میںنے پورے ایک سال ایسے موقع کی تلاش میں مارا مارا پھر تارہا کہ علی بن سفیان یا البرق کو یادونوں کو پھانس سکوں ۔میں ان سے ملا کبھی نہیں ،کیونکہ میں ان کی شناخت میں نہیں آنا چاہتاتھا تھا۔ فوجی حکام کو سلطان شہریوں سے دور رکھتا تھا۔آخر اس نے فوجی میلے کا علان کیا اور مجھے پتہ چل گیا کہ اس نے اپنے فوجی کمان داروں ، سالاروں اور عہدے داروں سے کہاہے کہ میلے میں وہ شہریوں میں بیٹھیں اور ان سے باتیں کریں اور ان پر اپنا رعب نہیں ، بلکہ اعتماد پیدا کریں ۔ مجھے علی بن سفیان کہیں نظر نہیں آیا۔ اس لڑکی کو میں ساتھ لے گیا تھا، البرق نظر آگیا۔ اس کے ساتھ دوکرسیاں خالی تھیں ۔ میں نے لڑکی کو اس کے پاس بٹھادیا۔ اسے میں آٹھ مہینوں سے استادی طریقے سکھارہاتھا۔ مجھے اپنا بوڑھا خاوند اور اپنے آپ کو خرید ی ہوئی مظلوم لڑکی بتاکر اس نے البرق جیسے مومن کو اپنی خوب صورتی میں گرفتار کرلیا۔ ملاقات کا وقت اور جگہ طے کرلی ۔ میں نے اسے بتایا کہ اسے کھنڈر میں کیاناٹک کھیلناہے ۔لڑکی کھنڈر میں چلی گئی ۔میں چار آدمیوں کے ساتھ وہاں موجود تھا۔ دوآدمی اس وقت یہاں موجود ہیں ۔دوکو آپ سب نہیں جانتے ۔ وہ ہمارے گروہ کے آدمی ہیں۔اس نے البرق پر ثابت کردیا کہ یہ اس کی خاطر جان دے دے گی۔ ہمارے چاروں ساتھیوں نے البرق پر اور اس پر تلواروں سے حملے کیے ۔ اس نے برچھی کے وار کیے ۔یہ ناٹک اس قدر حقیقی معلوم ہوتاتھا کہ البرق کو شک تک نہ ہوا۔ کم بخت کے دماغ میں یہ بھی نہ آئی کہ تلواروں کے اور برچھی کے اتنے وار ہوئے ، مگر کوئی زخمی تک نہ ہوا۔میں نے یہ کہہ کر یہ کھیل ختم کیا کہ یہ لڑکی اتنی بہادر ہے کہ کسی بہادر کے پاس ہی اچھی لگتی ہے ۔ میں نے اسے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے البرق کے حوالے کردیا”۔

”میں نے اسے اپنا نام آصفہ بتارکھاہے ”۔ لڑکی نے کہا……”میں حیران ہوں کہ اتنی پختہ عمر کا حاکم اتنی آسانی سے میرے جال میں پھنس گیاہے ۔میں نے اسے شراب کا عادی بنادیاہے ۔اس نے کبھی نہیں پی تھی ۔ پہلی بیوی اسی گھر میں رہتی ہے ۔ا سکے بچے بھی ہیں ، لیکن وہ سب کو جیسے بھول گیاہے ”……لڑکی نے محفل کو تفصیل سے بتایا کہ اس نے کیسے کیسے طریقوں سے سلطان ایوبی کے اس معتمد خاص کی عقل کو اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے ۔

”ان تین مہینوں میں یہ لڑکی مجھے صلاح الدین ایوبی کے کئی قیمتی راز دے چکی ہے ”۔بوڑھے نے کہا…… ”سلطان ایوبی بہت زیادہ فوج تیار کررہاہے ۔ اس میں سے وہ آدھی مصر میں رکھے گا اور باقی نصف کو اپنی کمان میں عیسائی باد شاہوں کے خلاف لڑانے کے لیے جائے گا۔ اس کی نظر یروشلم پر ہے ، لیکن البرق سے اس لڑکی نے جو راز لیے ہیں ، وہ یہ ہیں کہ سلطان سب سے پہلے اپنے مسلمان حکمرانوں اور قلعہ داروں کو متحد کرے گا ۔ ان کے اتحاد کو صلیب کے پرستاروں نے بالکل اسی طرح بکھیر دیاہے جس طریقے سے ہم نے البرق کو اپنے قبضے میں لیاہے ”۔

”تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ البرق اب ہمارے گروہ کافرد ہے؟”……ایک آدمی نے پوچھا۔

”نہیں ”۔بوڑھے نے جواب دیا۔ ”وہ سچے دِل سے ایوبی کا وفادار ہے ۔ وہ اتناہی وفادار اس لڑکی کا بھی ہے۔یہ لڑکی سلطان ، قوم اور اسلام کی وفاداری کا اظہار ایسے والہانہ طریقے سے کرتی ہے کہ البرق اسے ، قوم کی جانباز بیٹی سمجھتا ہے ۔ا س لڑکی کے حسن و جوانی اور محبت کے عملی اظہار کا جادو الگ ہے ۔ البرق کو ہم اپنے ساتھ نہیں ملاسکتے ۔ ضرورت ہی کیا ہے ۔وہ پوری طرح ہمارے ہاتھوں میں کھیل رہاہے ”۔

”سلطان ایوبی اور کیا کرنا چاہتاہے؟”۔اس گروہ کے ایک رُکن نے پوچھا۔

”اس کے ذہن میںسلطنتِ اسلامیہ ہے ”۔ بوڑھے نے کہا۔”وہ صلیب کی سلطنت میں اسلام کا جھنڈا گاڑنے کا منصوبہ بناچکاہے ۔ہمارے ان جاسوسوں کو جو سمند رپار سے آئے ہیں ،ایوبی نے گرفتار اور بے کار کرنے کے لیے علی بن سفیان کی نگرانی میں ایک بہت بڑا گروہ تیار کیاہے۔ البرق سے حاصل کی ہوئی اطلاعات کے مطابق اس نے جانبازوں کی ایک الگ فوج تیار کی ہے ، جسے وہ صلیبی ملکوں میں بھیج کر جاسوسی اور تباہی کرائے گا۔ اس فوج کی ٹریننگ شروع ہوچکی ہے ۔صلاح الدین ایوبی کے منصوبے بہت خطرناک ہیں ۔ انہی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس نے فوجی میلے کا ڈھونگ رچایا اور چھ سات ہزار جوان بھرتی کر لیے ہیں ۔لوگ ابھی تک بھرتی ہورہے ہیں ۔بھرتی ہونے والوں میں سوڈانی بھی ہیں ۔مجھے اوپر سے جو ہدایات ملی ہیں ،وہ یہ ہیں کہ ایوبی کی فوج میں بدکاری کے بیج بونے ہیں ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے دلوں میں عورت اور جواء داخل کردو”۔

بوڑھے نے بتایا کہ اس نے فوجی میلے کے فوراً بعد اپنے آدمی بھرتی کرادئیے تھے ۔انہوں نے بڑی خوبی سے فوج میں جواء شروع کرادیاہے ۔جواء اور عورت ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو چوری اور قتل تک لے جاتی ہیں ۔اس نے دوسرا طریقہ یہ بتایا کہ عصمت فروش عورتوں کو ٹریننگ دے کر فوجی کیمپوں کے ارد گرد چھوڑدیاگیاہے ، جو یہ ظاہرنہیں ہونے دیتیں کہ وہ پیشہ ور ہیں ۔انہوں نے سلطان کے فوجیوں کو بدی کے راستے پر ڈالنے کے ساتھ ساتھ ان میں رقابت بھی پیدا کردی ہے ۔بوڑھے نے کہا……”اس کی کامیابی پر سوں سامنے آئی ہے۔دوسپاہی ایک عورت کے خیمے میں بیک وقت پہنچ گئے ۔دونوں لڑپڑے اور ایک دوسرے کو بُری طرح زخمی کردیا۔ایک تو خیمے میں ہی مرگیا۔ دوسرے کے متعلق پتہ چلا کہ کیمپ میں جاکر مرگیاہے ……یہ رپورٹ سلطان ایوبی تک پہنچ گئی ہے۔ اس نے علی بن سفیان اور البرق کو حکم دیاہے کہ فوجوں میں اپنے سراغ رساں بھیج کر معلوم کریں کہ جواء بازی ، چوری چکاری اور بدکاری کیوں بڑھتی جارہی ہے۔لہٰذا آپ سب ان تمام عورتوں سے جو اسی کام میں مصروف ہیں ،کہہ دیں کہ کیمپوں کے قریب نہ جائیں ”۔

اسی مجلس میں یہ بھی بتایا گیا کہ آصفہ جس کا اصلی نام کچھ اور تھا، پانچویں ، چھٹی رات اس بوڑھے کو اطلاعیں دینے جاتی ہے جو وہ البرق سے حاصل کرتی ہے ، جس رات اُسے باہر نکلنا ہوتاہے ،وہ البرق کو شراب میں ایک خاص سفوف گھول کر پلادیتی ہے۔ا سکے اثر سے صبح تک اس کی آنکھ نہیں کھل سکتی ۔ مجلس میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ مصرکے شہریوں اور قصبوں میں خفیہ قحبہ خانے اور قمار خانے قائم کردئیے گئے ہیں ۔ان کے اثرات اُمید افزا ہیں ۔تربیت یافتہ عورتیں اچھے اچھے گھرانوں کے نوجوانوں کو بدکاری کے راستے پر ڈالتی جارہی ہیں ۔اب کوشش یہ کی جائے گی کہ مسلمان لڑکیون میں بھی بے حیائی کا رجحان پیدا کیا جائے۔

یہ محفل جو جاسوسوں کا ایک خفیہ اجلاس تھا، برخاست ہوئی ۔ وہ سب اکٹھے باہر نہ نکلے ۔ایک آدمی باہر جاتاتھا۔ دس پندرہ منٹ بعد دوسرا آدمی نکلتاتھا۔ بوڑھا بھی چلاگیاتھا۔ صرف آصفہ اور ایک آدمی رہ گیا ۔آصفہ نے نقاب میں چہرہ چھپایا اور اس آدمی کے ساتھ نکل گئی ۔
البرق نے آصفہ کو ایک راز بناکے رکھا ہواتھا۔ اس نے ابھی کسی کونہیں بتایا تھا کہ اس نے دوسری شادی کرلی ہے ۔دوسری شادی معیوب نہیں تھی ،لیکن وہ ڈرتاتھا کہ دوست مذاق کریں گے کہ اتنا عرصہ ایک بیوی کے ساتھ گزار کر چالیس سال کی عمر میں نوجوان لڑکی کے ساتھ شادی کرلی ،مگر یہ بھید چھپ نہ سکا۔ علی بن سفیان نے شہر میں اور فوجی کیمپوں کے ارد گرد اپنے جاسوس پھیلارکھے تھے ۔اسے یہ اطلاعیں مل رہی تھی کہ فوجی میلے کے بعد شہر میں بھی جواء اور بدکاری بڑھ رہی ہے۔ ایک روز ایک سراغ رساں نے علی بن سفیان کو یہ رپورٹ دی کہ گزشتہ تین مہینوں میں اس نے چار بار دیکھا ہے کہ خادم الدین البرق کے گھر سے رات اُس وقت جب سب سوجاتے ہیں ،ایک عورت سیاہ لبادے میں لپٹی ہوئی نکلتی ہے۔وہ تھوڑی دور جاتی ہے تو ایک آدمی اس کے ساتھ ہوجاتاہے ۔سراغ رساں نے بتایا کہ دوبار اس نے یہیں تک دیکھا، تیسری بار اس نے اس عورت کا پیچھا کیا، وہ اس آدمی کے ساتھ ایک مکان میں چلی گئی ۔وہاں سے کچھ دیر بعد نکلی اور اُس آدمی کے ساتھ واپس چلی گئی۔

اس سراغ رساں نے بتایا کہ اس نے اس عورت کو گزشتہ رات گھر سے نکلتے ،ایک آدمی کے ساتھ جاتے دیکھا تو تعاقب کیا۔وہ اسی مکان میں داخل ہوگئی ۔ذراسی دیر بعد وہ ایک آدمی کے ساتھ مکان سے نکلی ۔وہ دونوں شہر کے ایک بہت بڑے مکان میں داخل ہوگئے ۔سراغ رساں مکان سے دُور دُور رہا۔بہت ساوقت گزرجان کے بعد اس مکان سے ایک ایک کرکے گیارہ آدمی نکلے ۔ آخر میں ہ عورت ایک آدمی کے ساتھ نکلی ۔سراغ رساں اندھیرے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان کے تعاقب میں گیا۔ البرق کے مکان سے کچھ دُور آدمی ایک اور طرف چلا گیااور عورت البرق کے مکان میں داخل ہوگئی۔

سراغ رساں البرق جیسے حاکم کے گھر کے متعلق کوئی بات کہنے کی جرأت نہیں کرسکتاتھا، لیکن علی بن سفیان کی ہدایات اور احکام بڑے ہی سخت تھے۔ اس نے اپنے جاسوسوں ، مخبروں اور سراغ رسانوں سے کہہ رکھاتھا کہ وہ سلطان ایوبی کی کسی حرکت کو شک سے دیکھیں تو بھی اسے بتائیں اور وہ کسی کے رتبے کا لحاظ نہ کریں ،جہاں انہیں کسی قسم کا شک ہو،خواہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو،وہ علی بن سفیان کو تفصیل سے بتائیں ۔یہ سبق جاسوسی کی ٹریننگ میں شامل تھا کہ جاسوسی کی کامیابی کا دارومدار ایسی ہی حرکتوں اور با توں سے ہوتاہے ،جنہیں بے معنی سمجھ کر نظر انداز کردیاجاتاہے۔

اس سراغ رساں نے چار مرتبہ جو مشاہدہ کیاتھا، وہ علی بن سفیان کے لیے اہم تھا، وہ البرق کی بیوی ک اچھی طرح جانتاتھا، وہ ایسی عورت نہیں تھی کہ راتوں کو کسی غیر مرد کے ساتھ باہر جائے ۔البرق کی کوئی جوان بیٹی بھی نہیں تھی۔ یہ تو کسی کو بھی علم نہ تھا کہ البرق نے ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ شاد کر لی ہے ۔اس نے اس مسئلے پر بہت غور کیا، اُسے یہ خیال بھی آگیا کہ البرق اس کا دوست بھی ہے ۔اُسے حق پہنچتا تھاکہ اس کے دوست کے گھر میں کوئی گڑبڑہے اس کے لیے کچھ کرے ،مگر اس کے ذہن میں جوسوچ غالب تھی ،وہ یہ تھی کہ شہر میں مشکوک عورتوں کا ریلا سا آگیاتھا۔ کہیں ایسا تونہیں کہ البرق کسی بدکار عورت کے چکر میں میں آگیاہو؟ایک طریقہ اس کے دماغ میں آگیا۔ اس نے اپنے محکمے کی ایک عورت کو اس روپ میں البرق کے گھر میں بھیجا کہ وہ ایک مظلوم عورت ہے ۔ا س کا خاوند مرگیاہے اور اس کے بیٹے آوارہ ہوگئے ہیں ، لہٰذا اس کی اعانت کی جائے ۔

ہدایت کے مطابق یہ عورت اُس وقت البرق کے گھر میں گئی جب وہ گھر میں نہیں تھا۔ دوسری ہدایت کے مطابق و ہ سارے گھر میں پھری تو اُسے آصفہ نظر آگئی۔ یہ عورت البرق کی پہلی بیوی سے ملی ۔اپنی ”فریاد” پیش کی اور کہا کہ وہ ) البرق کی پہلی بیوی( البرق سے اس کی سفارش کرے ۔باتوں باتوں میں اس نے کہا ……”آپ کی بیٹی کی شادی ہوگئی ہے یا ابھی کنواری ہے؟” ……اسے جواب ملا ……”یہ میری بیٹی نہیں ، میرے خاوند کی دوسری بیوی ہے ۔تین مہینے ہوئے انہوں نے شادی کی ہے”۔

علی بن سفیان کے لیے یہ اطلاع حیران کن تھی۔اس کے دل میں یہی شک پیدا ہوگیا کہ رات کو باہر جانے والی اس کی نئی بیوی ہوسکتی ہے ۔علی نے ایک اور عورت کے ہاتھ البرق کی پہلی بیوی کو پیغام بھیجاکہ وہ اُسے کہیں باہر ملنا چاہتا ہے ، مگر البرق کو پتہ نہ چلے ، اس نے یہ بھی کہلا بھیجا کہ ان کے گھر کے متعلق کوئی بہت ہی ضروری بات کرنی ہے۔ علی نے ملاقات کے لیے ایک جگہ بھی بتادی اور وقت وہ بتا دیا جب البر ق دفتر میں مصروف ہوتاتھا…… وہ آگئی ۔علی بن سفیان کے دل میں اس معزز عورت کا بہت ہی احترام تھا ۔اس نے البرق کی بیوی سے کہا کہ اسے معلوم ہوا ہے کہ البرق نے دوسری شادی کرلی ہے ۔بیوی نے جواب دیا……”خدا کا شکر ہے کہ اس نے دوسری شادی کی ہے ۔چوتھی اور پانچویں نہیں کی”۔

باتیں کرتے کرتے علی بن سفیان نے پوچھا ۔”وہ کیسی ہے؟”

”بہت خوب صورت ہے ”۔بیوی نے جوا ب دیا۔

”شریف بھی ہے ؟”…… علی بن سفیان نے پوچھا ……”آپ کو اس پر کسی قسم کا شک تو نہیں؟…… کچھ دیر تک وہ گہری سوچ میں پڑی رہی ۔علی نے کہا……”اگر میں یہ کہوں کہ وہ کبھی کبھی رات کو باہر چلی جاتی ہے تو آپ بُرا تو نہ جانیں گی ؟”

وہ مُسکرائی اور کہنے لگی……”میں خود پریشان تھی کہ یہ بات کس سے کروں ۔ میرے خاوند کا یہ حال ہے کہ اس کا غلام ہوگیاہے ۔ مجھ سے تو اب بات بھی نہیں کرتا۔ میں اس لڑکی کے خلاف خاوند کے ساتھ بات کروں تو وہ مجھے گھر سے نکال دے ۔وہ سمجھے گا کہ میں حسد سے شکایت کررہی ہوں ۔یہ لڑکی صاف نہیں ۔ ہمارے گھر میں شراب کی بو بھی کبھی نہیں آئی تھی ۔ اب وہاں مٹکے خالی ہوتے ہیں ”۔

”شراب ؟” علی بن سفیان نے چونک کر پوچھا……”البرق شراب بھی پینے لگاہے ؟”

”صرف پیتا نہیں ”۔بیوی نے کہا ……”بد مست اور مدہوش ہوجاتا ہے۔میں نے چھ بار اس لڑکی کو رات کے وقت باہر جاتے اور بہت دیر بعد آتے دیکھا ہے ۔میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جس رات لڑکی کو باہر جاناہوتا ہے ،ا س رات البرق بے ہوش ہوتاہے ۔صبح بہت دیر سے اُٹھتا ہے ۔ لڑکی بدمعاش ہے ۔اسے دھوکہ دے رہی ہے”۔

”لڑکی بدمعاش نہیں”۔ علی بن سفیان نے کہا…”وہ جاسوس ہے۔و ہ البرق کو نہیں ، قوم کو دھوکہ دے رہی ہے”۔

”جاسوس ؟” بیوی نے چونک کر کہا……”میرے گھر میں جاسوس ؟” وہ اُٹھ کھڑی ہوئی ۔دانت پیس کر بولی……”آپ جانتے ہیں کہ میں شہید کی بیٹی ہوں ۔البرق پکا مسلمان تھا ۔ اس نے زندگی اسلام کے نام پر وقف کررکھی تھی۔میں بچوں کو جہاد کے لیے تیار کرہی ہوں اور آپ کہتے ہیں کہ میرے بچوں کا باپ ایک جاسوس لڑکی کے قبضے میں آگیا ہے۔ میں اپنے بچوں کے باپ کو قربان کرسکتی ہوں ، قوم اور اسلام کو قربان ہوتا نہیں دیکھ سکتی ۔ میں دونوں کو قتل کردوں گی”۔

علی بن سفیان نے اسے بڑی مشکل سے ٹھنڈا کیا اور اسے سمجھا یا کہ ابھی یہ یقین کرنا ہے کہ یہ لڑکی جاسوس ہے اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ البرق بھی جاسوسوں کے گروہ میں شامل ہوگیاہے یا اسے شراب پلا کر صرف استعمال کیاجارہاہے ۔ اس عورت کو یہ بھی بتایا گیا کہ جاسوسوں کو قتل نہیں ، گرفتار کیا جاتاہے اور ان کے دوسرے ساتھیوں کے متعلق پوچھا جاتاہے ۔ علی بن سفیان نے اسے کچھ ہدایات دیں اور اُسے کہا کہ وہ لڑکی کی ہر حرکت پر نظر رکھے ……یہ عورت چلی گئی ۔یوں معلوم ہوتاتھا جیسے علی بن سفیان کی ہدایات پر ٹھنڈے دل سے عمل کرے گی ، مگر اس کی چال اور اسکے انداز سے یہ بھی معلوم ہوتاتھا کہ کسی بھی وقت بے قابوہوجائے گی ۔ وہ حرم کی عورت نہیں تھی، وہ خاوند کی وفادار بیوی اور ملک و ملت پر جان نثار کرنیوالی قوم کی بیٹی تھی۔

٭ ٭ ٭

خادم الدین البرق اور علی بن سفیان صرف رفیق کار ہی نہیں تھے۔ ان کی گہری دوستی بھی تھی۔وہ ہم عمر تھے ۔ انہوں نے اکٹھے معرکے لڑے تھے۔ دونوں سلطان ایوبی کے پرانے ساتھی تھے ۔ اتنی گہری دوستی کے باوجود البرق نے علی بن سفیان سے دوسری شادی چھپا رکھی تھی ۔علی کو معلوم ہواتو اس نے البرق کے ساتھ اس ضمن میں کوئی بات نہیں کی۔ وہ اس کی بیوی کی وساطت سے اس کے گھر کا معمہ حل کرنے کی کوششوں میں لگا ہواتھا۔ اس نے البر ق کے مکان اور اُس مکان کے درمیان اپنے جاسوسوں میں اضافہ کردیا تھا، جہاں البرق کی نئی بیوی رات کو جایا کرتی تھی ۔البرق کی پہلی بیوی کے ساتھ باتیں کیے دو راتیںگزر گئی تھیں ۔ لڑکی باہر نہیں نکلی تھی۔ جاسوس پوری پوری رات بیدار رہے تھے۔

تیسری رات، نصف شب سے ذرا پہلے علی بن سفیان گہری نیند سویا ہوا تھا۔ اس نے اپنے عملے اور اپنے ملازموں سے کہہ رکھا تھا کہ وہ جب چاہیں اسے جگا سکتے ہیں۔وہ ان حاکموں سے مختلف تھا جو کسی کو آرام میں مخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے تھے ۔اُس رات علی کو ملازم نے گہری نیند سے بیدار کیا اور کہا……”عمرآیا ہے،گھبرایا ہواہے”۔

علی بن سفیان کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح کمرے سے نکلا ،صحن دوتین چھلانگوں میں عبور کیا اور ڈیوڑھی سے باہر نکل گیا۔ اس کے عملے کا ایک آدمی باہر کھڑا تھا۔اس نے کہا …… ”ملا زم کو دوڑائیں ۔دس بارہ سوار فوراً منگوائیں۔ اپنا گھوڑا جلدی تیار کریں،پھر آپ کو بتاتا ہوں کہ کیا ہواہے”۔

علی بن سفیان نے ملاز کو چودہ مسلح سوار اور اپنا گھوڑا اور تلوار لانے کو دوڑا یا اور عمر سے پوچھا…”کہو کیا بات ہے”۔

عمر اور آذر نام کے دوجاسوس آصفہ کو دیکھنے کے لیے متعین تھے۔ علی بن سفیان نے انہیں حکم دے رکھا تھا کہ لڑکی گھر سے نکل کر کہیں جائے تو اسے فوراً اطلاع دی جائے ۔ عمر بڑی خطرناک اطلاع لے کر آیا۔ اس نے بتایا کہ تھوڑی دیر گزری ، البرق کے گھر سے سیاہ چادر میں سر سے پائوں تک لپٹی ہوئی ایک عورت نکلی ۔پچاس ساٹھ گز آگے گئی تو البرق کے گھر سے اسی لباس میں ایک اور عورت نکلی ۔وہ بہت تیز تیز اگلی عورت کے پیچھے چلی گئی۔جب اُس سے ذرا دُور رہ گئی تو اگلی عورت رُک گئی۔ دونوں جاسوس چھپے ہوئے تھے۔ انہیں کوئی دیکھ نہ سکا۔ وہ تعاقب بھی چھپ کر کرتے تھے دونوں عورتوں میں نہ جانے کیا بات ہوئی۔ ان میں سے ایک نے تالی بجائی، کہیں قریب سے ایک آدمی نکلا ۔اس نے بعد میں آنے والی عورت کو پکڑنا چاہا۔ عورت نے اس پر کسی ہتھیار کا وار کیا جو اندھیرے میں نظر نہیں آتا تھا۔ا س آدمی نے بھی اس پر کسی ہتھیار سے وار کیا۔

جو عورت پہلے آئی تھی، اس کی آواز سنائی دی……”اِسے اُٹھا کر لے چلو”……دوسری عورت نے اس پر وار کیا۔ اس کی چیخ سنائی دی۔ دوسری عورت نے اس پر ایک اور وار کیا اور آدمی کا وار بچایا بھی ۔ دونوں عورتیں زخمی ہوگئیں تھیں ۔عمر علی بن سفیان کو اطلاع دینے دوڑ پڑا۔آذر وہیں چھپا رہا۔اُسے یہ دیکھنا تھا کہ یہ لوگ کہاں جاتے ہیں۔

علی بن سفیان نے اس قسم کے ہنگامی حالات کے لیے تیز رفتار اور تجربہ کار لڑا کا سواروں کا ایک دستہ تیار رکھا ہوا تھا۔ یہ سوار اپنے گھوڑوں کے قریب سوتے تھے ۔ زینیں اور ہتھیار اُن کے پاس رہتے تھے ۔ انہیں یہ مشق کرائی جاتی تھی کہ رات کے وقت ضرورت پڑنے پر وہ چند منٹوں میں تیار ہوکر ضرورت کی جگہ پہنچیں ۔وہ اس قدر تیز ہوگئے تھے کہ علی بن سفیان کے ملازم نے دستے کے کمان دار کو اطلاع دی کہ چودہ سوار بھیج دو تو وہ علی بن سفیان کے کپڑے بدلنے اور اس کا گھوڑا تیار ہونے تک پہنچ گئے ۔

علی بن سفیان کی قیادت اور عمر کی راہنمائی میں وہ واردات کی جگہ پہنچے ۔دوسواروں کے ہاتھوں میں ڈنڈوں کے ساتھ تیل میں بھیگے ہوئے کپڑوں کی مشعلیں تھی، وہاں دو لاشیں پڑی تھیں ۔علی بن سفیان نے گھوڑے سے اُتر کر دیکھا، ایک البرق کی پہلی بیوی تھی ،دوسرآ ذر تھا، عمر کا ساتھی۔دونوں زندہ تھے اور خون میں ڈوبے ہوئے تھے ۔آذر نے بتایا کہ وہ البرق کی بیوی کو پھینک کر چلے گئے تو وہ اس کے پاس گیا۔ اچانک پیچھے سے کسی نے اُس پر خنجر کے تین وار کیے۔ وہ سنبھل نہ سکا،حملہ آور بھاگ گیا۔ آذر نے بتایا کہ دوسری عورت البرق کے گھر کی طرف نہیں گئی، بلکہ اُدھر گئی ہے، جہاں وہ پہلے جایا کرتی تھی ۔عمر کو اس گھر کا علم تھا۔

علی بن سفیان نے دو سواروں سے کہا کہ وہ دونوں زخمیوں کو فوراً جراح کے پاس لے جائیں اور ان کا خون روکنے کی کوشش کریں ۔ باقی سواروں کو وہ عمر کی راہنمائی میں اُس مکان کی طرف لے گیا ،جہاں آصفہ پہلے کئی بار جاتے دیکھی گئی تھی ۔ وہ پرانے زمانے کا بڑا مکان تھا۔ اس سے ملحق کئی اور مکان تھے۔ پچھواڑے سے گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز آئی ۔علی نے اپنے سواروں کو مکان کے دونوں طرف سے پیچھے بھیجا۔دوسواروں کو مکان کے سامنے کھڑا کردیا اور کہا کہ کوئی بھی اندر سے نکلے تو اسے پکڑ لو، بھاگنے کی کوشش کرے تو پیچھے سے تیر مارو اور ختم کردو۔

سوار ابھی چکر کاٹ کر پچھواڑے کی طرف جاہی رہے تھے کہ دوڑتے گھوڑوں کے ٹاپو سنائی دینے لگے۔ علی بن سفیان نے ایک سوار سے کہا…”سر پٹ جائو، اپنے کمان دار سے کہو کہ اس مکان کو گھیرے میں لے کر اندر داخل ہو جائیں ، اندر کے تمام افراد کو گرفتار کرلے”… سوار کیمپ کی طرف روانہ ہوگیا۔علی بن سفیان نے بلند آواز سے اپنے جاسوسوں کو حکم دیا…”ایڑ لگائو، تعاقب کرو۔ ایک دوسرے کو نظر میں رکھو”۔…اور اس نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی ۔یہ رسالے کے چنے ہوئے گھوڑے تھے اور ان کے سوار سلطان ایوبی سے کئی بار خراجِ تحسین حاصل کرچکے تھے ۔مفرور بھی شاہ سوار معلوم ہوتے تھے ۔اُن کے گھوڑوں کے ٹاپو بتاتے تھے کہ اچھی نسل کے بہت تیز دوڑنے والے گھوڑے ہیں۔یہ شہر کا علاقہ تھا، جہاں مکان کی رکاوٹیں تھیں ۔گلیاں تھیں ،جو گھوڑوں کی دوڑ کے لیے کشادہ نہیں تھیں ،اِن سے آگے کھلا میدان تھا۔

اندھیرے میں گھوڑے نظر نہیں آتے تھے ۔ اُن کی آوازوں پر تعاقب ہورہاتھا۔ وہ جب کھلے میدان میں گئے تو اُن کا چھپنا مشکل ہوگیا ۔اُفق کے پس منظر میں وہ سایوں کی طرح صاف نظر آنے لگے۔وہ چار تھے۔ انہوں نے کم و بیش ایک سو گز کا فاصلہ حاصل کرلیاتھا۔ وہ پہلو بہ پہلو جارہے تھے ۔علی بن سفیان کے حکم پر دوسواروں نے اسی رفتار سے گھوڑے دوڑآتے ہوئے تیر چلائے ۔تیر شاید خطا گئے تھے ، بھاگنے والے دانش مند معلوم ہوتے تھے ۔تیر ان کے قریب سے یا درمیان سے گر ے تو انہوں نے گھوڑے پھیلادئیے۔وہ اکٹھے جارہے تھے ۔ان کے گھوڑے کھلنے لگے۔ نہایت اچھے طریقے سے گھوڑے ایک دوسرے سے خاصے دور ہٹ گئے ۔ علی بن سفیان کا دستہ بہت تیز تھا، فاصلہ کم ہوتا جارہاتھا،مگر بھاگنے والوں کے گھوڑے اور زیادہ ایک دوسرے سے ہٹتے جارہے تھے۔ آگے کھجور کے پیڑو ں کا جھنڈ آگیا۔اُن کے گھوڑے وہاں اس طرح ایک دوسرے سے دورہٹ گئے کہ دو دائیں طرف اور دو کھجوروں کے بائیں طرف ہوگئے ۔یہ جگہ اونچی تھی، گھوڑے اوپر اُٹھے اور غائب ہوگئے ۔

تعاقب کرنے والے بلند ی پر گئے تو انہیں آگے جو بھاگتے سائے نظر آئے ،وہ ایک دوسرے سے بہت ہی دُور ہوگئے تھے ۔پھر وہ اتنی دور دور ہوگئے کہ ان کے رُخ ہی بدل گئے ۔علی بن سفیان جان گیا کہ وہ اس کے سواروں کو منتشر کرنا چاہتے ہیں ۔ علی نے بلند آواز سے کہا…”ہر سوار کے پیچھے تقسیم ہوجائو۔ ایک دوسرے کو بتادو۔ ایڑ لگائو، فاصلہ کم کرو، کمانوں میں تیر ڈال لو”۔

سوار تقسیم ہوگئے ۔سب نے کندھوں سے کمانیں اُتار کر تیر ڈال لیے اور تقسیم ہوکر ایک ایک گھوڑے کے پیچھے گئے ۔ ان کے گھوڑوں کی رفتار اور تیز ہوگئی ۔ٹاپوئوں کے شور و غل میں کمانوں سے تیر نکلنے کی آوازیں سنائی دیں ۔ کسی نے للکار کر کہا……”ایک کو مارلیا، گھوڑا بے قابو ہوگیاہے ”……ادھر علی بن سفیان کے ساتھ جو دوسوار تھے ،انہوں نے بیک وقت تیر چلائے ۔ اندھیرے میں تیر خطاجانے کاڈر تھا اور تیر خطا جابھی رہے تھے ۔ پھر بھی انہوں نے ایک اور گھوڑے کو نشانہ بنالیا۔ یہ گھوڑا بے قابو ہوکر اور گھوم کر پیچھے کو آیا ۔ ایک سوار نے اس کی گردن میں برچھی ماری ۔ دوسرے نے اپنے گھوڑے سے جھک کر اس کے پیٹ میں برچھی داخل کردی ،مگر گھوڑا توانا تھا، گرانہیں۔سوار زندہ پکڑ ناتھا۔ علی کے ایک سوار نے بازو بڑھا کر ایک سوار کی گردن جکڑ لی نیچے گھوڑا زخمی تھا۔ وہ رُکتے رُکتے رک گیا۔ اس پر ایک آدمی سوار تھااور ایک لڑکی جسے سوار نے آگے بٹھا رکھا تھا۔ لڑکی شاید بے ہوش تھی۔

صحرا کی تاریک رات میں اب کسی سر پٹ دوڑ تے گھوڑے کے ٹاپو نہیں سنائی دیتے تھے ۔سواروں کی آوازیں اور دُلکی چلتے گھوڑوں کے ٹاپو سنائی دیتے تھے۔ سوار ایک دوسرے کو پکار رہے تھے ۔ان کی آوازوں سے پتہ چلتاتھا کہ انہوں نے بھاگنے والوں کو پکڑ لیاہے۔ علی بن سفیان نے سب کو اکٹھا کرلیا۔ بھاگنے والے پکڑے گئے تھے۔ ان کے دوگھوڑے زخمی تھے۔ ان گھوڑوں کو مرنے کے لیے صحرامیں چھوڑدیاگیا۔ بھاگنے والے پانچ تھے۔ چار آدمی اور ایک لڑکی۔ لڑکی گر پڑی تھی ۔ بھاگنے والوں میں سے ایک نے کہا……”ہمارے ساتھ تم لوگ جو سلوک کرنا چاہوکر لو ، مگر یہ لڑکی زخمی ہے۔ہم اُمید رکھیں گے کہ تم اسے پریشان نہیں کروگے”َ

ایک گھوڑے کی زین کے ساتھ مشعل بندھی ہوئی تھی ۔کھول کر جلائی گئی ۔لڑکی کو دیکھا گیا۔ بہت ہی خوب صورت اور نوجوان لڑکی تھی ۔اس کے کپڑے خون سے سرخ ہوگئے تھے۔ اس کے کندھے پر، گردن کے قریب ،خنجر کا گہرا زخم تھا۔ اس سے اتناخون نکل گیا تھا کہ لڑکی کا چہرہ لاش کی طرح سفید اور آنکھیں بند ہوگئی تھیں۔ علی بن سفیان نے زخم میں ایک کپڑا ٹھونس کر اوپر ایک اور کپڑا باندھ دیا اور اُسے ایک گھوڑے پر ڈال کر سوار سے کہا کہ جلدی جرّاح تک پہنچے ۔ وہاں جلدی کا تو سوال ہی نہیں تھا،وہ شہر سے میلوں دُور نکل گئے تھے ۔قیدیوں میں ایک بوڑھا تھا۔

یہ قافلہ جب قاہرہ پہنچا تو صبح طلوع ہورہی تھی ۔ سلطان کو رات کے واقعہ کی اطلاع مل گئی تھی ۔علی بن سفیان ہسپتال گیا ۔جراح اور طبیب قیدی لڑکی کی مرہم پٹی میں اور ہوش میں لانے میں مصروف تھے ۔سوار نے اسے تھوڑی دیر پہلے پہنچا دیاتھا۔ البرق کی پہلی بیوی اور آذر ہوش میں آگئے تھے،مگر اُن کی حالت تسلی بخش نہیں تھی۔سلطان ایوبی ہسپتال میں موجود تھا۔ اس نے علی بن سفیان کو الگ کرکے کہا۔”میں بہت دیر سے یہاں ہوں۔میں نے البرق کو بلانے کے لیے دو آدمی بھیجے تو اس نے عجیب بات بتائی ہے۔وہ کہتاہے کہ البرق ہوش میں نہیں ۔اس کے کمرے میں شراب کے پیالے اور صراحی پڑی ہے ۔کیا وہ شراب بھی پینے لگاہے؟اُسے اتنا بھی ہوش نہیں کہ اس کی بیوی گھر سے باہر زخمی پڑی ہے۔میں نے اس کی بیوی سے ابھی کوئی بات نہیں کی ۔طبیب نے منع کردیاہے”۔

”اس کی ایک نہیں، دوبیویاں زخمی ہیں”……علی بن سفیان نے کہا ……”یہ لڑکی جسے ہم نے صحرا سے جا کر پکڑا ہے، البرق کی دوسری بیوی ہے۔ذرازخمیوں کو بولنے کے قابل ہونے دیں۔ہم نے بہت بڑا شکار ماراہے”۔

البرق سورج نکلنے کے بعد جاگا۔ ملازم کے بتانے پر وہ دوڑتا آیا۔اس کی دونوں بیویاں زخمی پڑی تھیں ۔ اسے چاروں جاسوس دکھائے گئے۔ وہ بوڑھے کو دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ اسے وہ آصفہ کا بوڑھا خاوند سمجھتارہاتھا۔ سلطان ایوبی نے یہ واردات اپنی تحویل میں لے لی، کیونکہ یہ جاسوسوں کے پورے گروہ کی واردات تھی اور اس میں اس کا معتمد ملوث تھا جسے فوج کے تمام راز اور آئندہ منصوبے معلوم تھے۔

جوں ہی زخمی بیان دینے کے قابل ہوئے ، ان سے بیان لیے گئے ۔ان سے یہ کہانی یوں بنی کہ البرق کی پہلی بیوی کو جب علی بن سفیان نے بتایا کہ اس کے خاوند کی دوسری بیوی مشتبہ چال چلن کی ہے اور وہ جاسوس معلوم ہوتی ہے تو وہ سخت غصے کے عالم میں گھر چلی گئی۔ وہ اپنے خاوند کو اور آصفہ کو قتل کردینا چاہتی تھی، لیکن علی بن سفیان نے اُسے کہاتھا کہ جاسوسوں کو زندہ پکڑا جاتاہے،تاکہ ان کے چھپے ہوئے ساتھیوں کا سراغ لیاجاسکے۔ اس نے اپنے آپ پر قابو پایا اور آصفہ پر گہری نظر رکھنے لگی۔ اس نے رات کا سونا بھی ترک کردیا تھا

موقع دیکھ کر اس نے ان کے سونے والے کمرے کے اس دروازے میں چھوٹا سا سوراخ کرلیا جو دوسرے کمرے میں کھلتاتھا۔ رات کو اس سوراخ میں سے انہیں دیکھتی رہتی تھی۔دو راتیں تو اس نے یہی دیکھا کہ لڑکی البرق کو شراب پلاتی تھی اور عریانی کا پورا مظاہرہ کرتی تھی ۔ وہ سلطان ایوبی کی باتیں ایسے انداز سے کرتی تھی جیسے وہ اس کا پیر اور مرشد ہو۔ صلیبیوں کو بُرا بھلا کہتی اور وہی باتیں کرتی جو سلطان ایوبی کے جنگی منصوبے میں شامل تھیں۔البرق اسے بتاتا تھا کہ سلطان کیا کررہاہے اور کیا سوچ رہاہے ۔

(جاری ھے)

(صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ داستان ایمان فروشوں کی سلطان صلاح الدین ایوبی کی جنگی مہمات پر لکھا گیا انتہای سحر انگیز ناول ہے، سلطان صلاح الدین یوسف بن ایوب ایوبی سلطنت کے بانی تھے سلطان 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔سلطان صلاح الدین نسلاً کرد تھے اور 1138ء میں کردستان کے اس حصے میں پیدا ہوۓ جو اب عراق میں شامل ہے ،شروع میں وہ سلطان نور الدین زنگی کے یہاں ایک فوجی افسر تھے۔ مصر کو فتح کرنے والی فوج میں صلاح الدین بھی موجود تھے اور اس کے سپہ سالار شیر کوہ صلاح الدین کے چچا تھے۔ مصر فتح ہو جانے کے بعد صلاح الدین کو 564ھ میں مصر کا حاکم مقرر کردیا گیا۔ اسی زمانے میں 569ھ میں انہوں نے یمن بھی فتح کرلیا۔ نور الدین زنگی کے انتقال کے بعد صلاح الدین حکمرانی پر فائز ہوۓ)

شئیر کریں جزاکم اللہ خیرا۔

مزید پڑھیں:  داستان ایمان فروشوں کی ۔۔۔ تیرہویں قسط
مزید پڑھیں: داستان ایمان فروشوں کی ۔۔۔ گیارہویں قسط