حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر7

آخری رات، پہلا دن

موت کا قرب کبھی کبھی انسان کے اندر شمعیں روشن کر دیتا ہے۔ میرے اندر بھی اُس رات اللہ نے اپنی رحمت سے ایک جوت جگا دی۔ میں نے اپنے والد اور والدہ کو دیکھا جو ایک کارخانے میں کام کر رہے تھے۔ یہ چمڑا رنگنے کا کارخانہ تھا جس میں چاروں طرف بھاپ اٹھ رہی تھی اور بھاپ نے میرے ماں باپ کو ڈھانپ رکھا تھا۔ جب میں ان کے قریب گیا تو ان کی نظر مجھ پر پڑی۔ اُن کی اُداس آنکھوں میں میرے لئے بے پناہ محبت اور شفقت جھلک رہی تھی۔ میرے والد نہایت قوی انسان تھے لیکن اُن کی جسمانی قوت کو اس بے دردی سے استعمال کیا گیا تھا کہ وہ جوانی میں بھی بوڑھے نظر آتے تھے۔ میری ماں کھانس رہی تھی۔ ہمیشہ کی طرح کھانسے جا رہی تھی، یہاں تک کہ کھانستے کھانستے اُس نے دم دے دیا۔

میرے والدین حبشہ سے آئے تھے، بحیرۂ اِحمر پار کر کے۔ مجھے آج تک نہیں معلوم ہو سکا کہ وہ غلام کیسے بنا لئے گئے۔ انہوں نے مجھے کبھی نہیں بتایا۔ شاید اس لئے کہ ایسی باتوں کو بھلا کر ہی وہ غلامی کی صعوبتیں برداشت کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ ایک دن میری ماں نے مجھے صرف اتنا بتایا تھا کہ میں پیدا تو حالتِ غلامی میں ہوا لیکن جب میں اپنی ماں کے شکم میں آیا تھا تو میرے ماں باپ آزاد تھے۔ یہ بات میرے لئے کوئی خاص تسلی کا باعث نہیں تھی، پھر بھی کبھی کبھی میں اس پر خوش ہو لیا کرتا تھا۔

پھر اس رات میں نے اپنے ماں باپ کی گفتگو سنی۔ وہ سرگوشیوں میں ایک دوسے سے مشورہ کر رہے تھے کہ کیوں نہ ہم اس بچے کو مار ڈالیں اور اسے پیدائشی غلامی کی لعنت سے بچا لیں۔ میرے آنسو بہہ نکلے۔ اپنے دکھ پر نہیں، اُس کرب پر جو میرے والدین نے یہ فقرے کہتے ہوئے اپنے اندر محسوس کیا ہو گا۔

مجھے وہ دن ھی یاد آیا جب میں جوان ہونے پر بازار میں پہلی بار فروخت کے لئے لایا گیا تھا۔ اب میں ابن غلام نہیں بذات خود غلام بننے والا تھا۔ پھر اس کے بعد میں کئی بار بکا۔ اونٹوں کے ساتھ، بکریوں کے ساتھ، بھیڑوں کے ساتھ اور بالکل انہی کی طرح۔ آج دمشق میں بیٹھ کر میں اُن باتوں پر ہنس سکتا ہوں مگر سوچتا ہوں مجھ پر کیسے کیسے دور گزرے ہیں۔ گرم ریت اور دہکتے انگاروں پر لٹائے جانے کے دور، مکے کے گلی کوچوں میں گلے میں رسی باندھ کر پھرائے جانے کے دور، گرم پتھروں تلے دبائے جانے کے دور، ڈنڈوں سے پٹائی کے دور، ٹھوکروں کے دور، کوڑوں کے دور لیکن اُس رات امیہ کے غلام خانے میں جب میری گردن میرے گھٹنوں سے جکڑی ہوئی تھی میرے ذہن میں ہنسی کا تصور بھی نہیں تھا۔

پھر اُسی کرب کے عالم میں مَیں نے اپنے گرد پھیلی ہوئی زندگی کے حسن کو محسوس کیا۔ وہ حُسن جو جلد ہی مجھ سے چھننے والا تھا۔ چاند تارے، دن رات، آتے جاتے موسم، دریاؤں، پہاڑوں، میدانوں اور جنگلوں میں جیتی جاگتی، رنگ برنگی مخلوق اور ان سب کا سردار انسان اپنی تمام آرزوؤں، امنگوں، اُداسیوں، خوشیوں، مجبوریوں، کا مرانیوں اور قربانیوں کے ساتھ۔ اُس رات میں نے ایک سرخ بھنورابھی دیکھا تھا جو تیز دھوپ میں ایک ڈنٹھل پر بیٹھا تھا۔آج بھی جب کہیں مجھے سرخ بھنورا نظر آ جاتا ہے، میرا سارا دن خوشی میں گزر جاتا ہے۔ یہ سرخ بھنورے، روئے ارض پر پھیلی ہوئی مخلوق، قبروں میں لیٹے ہوئے میرے ماں باپ یہ سب کہاں سے آ گئے تھے اُس رات، موت نزدیک محسوس ہوتی ہے تو انسان کا ذہن کہاں سے کہاں چھلانگیں لگاتا پھرتا ہے۔

پھر عمار کے واقعے کی تفصیل نظروں کے سامنے پھرنے لی۔ میں کیسے پھنس گیا اس سارے معاملے میں؟ میرا کیا واسطہ تھا؟ ذہن سے جواب آیا۔

عمار نے تجھے اس دلدل میں دھکیلا ہے۔

لیکن عمار میرا کیا لگتا تھا؟ کیا رشتہ تھا میرا اُس سے یا اُس کا مجھ سے؟

اگر میں واقعی اُسے کوڑا مار دیتا تو وہ ہرگز مجھے الزام نہ دیتا۔ اُسے پتہ تھا کہ غلام حکم عدولی کر ہی نہیں سکتے۔ بلکہ اُس بے چارے نے تو خود کوڑا میرے ہاتھ میں تھما دیا تھا۔ لیکن پھر بھی میرا ہاتھ اُس پر نہیں اٹھ سکا۔ دراصل اس میں عمار کا قصور نہیں تھا۔ میرے اندر، حبشی غلام بلال کے اندر، کوئی کہہ رہا تھا کہ کچھ بھی ہو آج حکم کی تعمیل نہیں ہو گی۔

غلام خود تو ایسے فیصلے نہیں کر سکتے۔ غلام تو کوئی بھی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ فیصلے بغیر اختیار کے نہیں ہوتے اور غلاموں کے پاس اختیار کہاں! تو پھر کوڑا میرے ہاتھ سے کیسے گر گیا۔ غلام کو تو خود اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے۔ پھر کیسے ہو گئی مجھ سے یہ حکم عدولی۔ میں نہ بہادر تھا، نہ احمق کہ بغاوت پر اُتر آتا۔ پھر کہاں سے آیا مجھ میں یہ حوصلہ۔ اس کا جواب کہیں اور تھا۔ یہ حوصلہ مجھے محمدؐ سے ملا تھا۔(جاری ہے )

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر8 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

موضوعات

تبصرے کیجئے

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.