حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر5

غلامی کے داغ

آج میں اپنی زندگی کے ساٹھویں سال میں ہوں۔ اٹھائیس سال غلامی کے، بائیس سال شہنشاہی کے اور دس سال یادوں کے۔ جب میں بنو جمح کی غلامی میں تھا، اُس وقت مجھے لگتا تھا کہ انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جنہیں اختیار، شعور اور خوابوں سے نوازا گیا ہے اور دوسرے وہ جنہیں صرف ایک جسم عطا کر کے دنیامیں بھیج دیا گیا ہے۔ میں اپنے آپ کو اس دوسری جماعت کا فرد سمجھتا تھا۔ میں کیا، میرے جیسے سارے غلام جانتے تھے کہ ائن کی ذات، کائنات کے لئے محض ایک جسم ہے جسکی طاقت کا ذکر ہوتا تھا۔ جس کو بیچا جا سکتا تھا، خریدا جا سکتا تھا، جس پر غصہ اتارا جا سکتا تھا، جس کی کھال کھینچی جا سکتی تھی، جسم کی اچھائی، برائی کے علاوہ ہماری کوئی بات قابلِ ذکر نہیں تھی۔ ہمارے ذہنوں میں بھی سوال ابھرتے تھے، ہماری روحوں میں بھی تلاطم بپا ہوتے ھیں، ہم بھی کبھی کبھار کوئی خواب دیکھ لیتے تھے لیکن ایسے جیسے ہم نے کسی شجرِ ممنوعہ کو ہاتھ لگا لیا ہو، جیسے ہم سے کوئی گاہ سرزد ہو گیا ہو ہماری یہ سوچ منشائے الٰہی سے نہیں، معاشرتی جبر سے اُبھری تھی جو ایک اٹل پہاڑ کی طرح ہر وقت ہمارے سامنے رہتا تھا۔ اس سے ٹکرانے کا تصور ہی ہمیں پاش پاش کر دینے کے لئے کافی تھا۔

یہ معاشرتی جبر کیا تھا؟ جاہلانہ ثقافت کا ایک شوشہ تھا جو اُس وقت سارے عرب میں پورے عروج پر تھی۔ اولادِ آدم فلاح اور ارتقا کی راہ سے بھٹک گئی تھی۔ زندگی کا کارواں ایک ایسی صورتِ حال کے نرغے میں تھا جو ظلم، تکبر، شراب اور جوئے کی کشید تھی۔ انسان تمدّن کے معنی بھول کر خواہش پرستی کی اُس ادنیٰ سطح پر آ چکا تھا کہ اُس کی اخلاقی روح سسک رہی تھی۔ وہ درندوں کی سی زندگی بسر ک را تھا۔ ہر زیردست اس دردندگی کا شکار تھا اور سب سے زیادہ ہم غلام، جو غلام سازی کے ایک ظالمانہ رواج میں تشدد کے کولہو میں پیلے جا رہے تے۔ یہ ایک ایسا آہنی قفس تھا جس میں کسی طرف کوئی روزن نہیں کھلتا تھا، کوئی آواز باہر نہیں جاتی تھی۔ ہماے آقا بدلتے رہتے تھے مگر ہر تبدیلی کی چکی ہمیں اور زیادہ تیزی سے پیستی تھی۔ تشدد کی اس خوف ناک فضا سے نبرد آزما ہونا تو درکنار ہم اس کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند نہیں کر سکتے تھے۔ ہماری روحیں چیختی تھیں مگر پکار کا کہیں سے جواب نہیں آتا تھا۔ کوئی مذہب ہماری دستگیری کے لئے موجود نہیں تھا۔ پرانے مذاہب تحریفوں اور تاویلوں کے غبار میں گم ہو چکے تھے اور مذہبی قائدین نے اجارہ داریاں قائم کر کے وقت کے حاکموں کی ظالمانہ قوتوں کے ساتھ سودے کر رکھے تھے۔ الہامی مذاہب کی تعلیم سربہ گریباں تھی۔ انسان کی فکر اعلیٰ دم بخود اور بے بس، روشنی کی کسی کرن کا انتظار کر رہی تھی۔ یمن، سبا اور عدن کی قدیم سلطنت وں کے سئے میں بھی تہذیب کی نشوونما ہوئی تھی مگر ان سلطنتوں کو اُجڑے مدتیں گزر چکی تھیں۔

قریش مکہ نے مشرکانہ اور بت پرستانہ مذہبیت کے ساتھ کعبے کی مجاوری کا کاروبار بھی چمکا رکھا تھا۔ طائف اور مکہ کے مہاجنوں نے سود کے جال پھیلائے ہوئے تھے۔ چند پڑھے لکھے لوگ تھے جو پرانے مذاہب کا علم رکھتے تھے مگر انہوں نے بھی فقہی موشگافیوں اور من مانی تاویلوں کی دکانیں کھول رکھی تھیں۔ ایسا گھپ اندھیرا تھا کہ کسی سمت کسی اُمید افزا اعتقاد، کسی خوش آئند نظرئے کا جگنو نہیں چمکتا تھا۔ آج میں اس دور کو کسی اور نظر سے دیکھ رہا ہوں۔ اُس وقت تو مجھے اس کا بھی ہوش نہیں تھا کہ مجھ پر کیا بیت رہی ہے۔ ایک سمجھوتا سا کر لیا تھا ہم غلاموں نے اپنے شب و روز سے!

انہی دنوں مکے میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے شہر کی فضا ہی بدل ڈالی تھی۔ ایک طوفان کی آمد آمد تھی۔ طوفان تو شاید ابھی دور تھا مگر اُس کی گھن گرج ہر ایک کو سنائی دے رہی تھی۔ گفتگو کے موضوع بدل گئے تھے۔ سارا شہر سوچ میں ڈوب گیا تھا۔ مختلف سطحوں پر مختلف ردِّعمل تھے۔ کچھ لوگوں نے اسے اپنی ذات کے لئے خطرہ سمجھا۔ کچھ نے اسے اجتماعی سانحہ گردانا۔ کچھ نے جزوقتی حادثہ سمجھ کر ٹالنے کی کوشش کی۔ کچھ خوش فہموں نے اسے کسی اہمیت کے قابل نہیں سمجھا۔ کچھ اتنے متذبذب تھے کہ نہ اُسے اچھا کہہ سکے نہ بُرا مگر فکر مند سبھی تھے۔ جہاں دو آدمی اکٹھ ہوتے یہی ذکر چھڑ جاتا کہ محمدؐ نے رسالت کا دعویٰ کیا ہے وہ لا الٰہ الا اللہ کا درس دیتے ہیں۔ انسانی مساوات کی بات کرتے ہیں۔ محمدؐ کو ہم سب جانتے تھے، کوئی کم کوئی زیادہ۔ سارے شہر میں اُن کی نیکی، اُن کی دیانت، اُن کی امانت، اُن کی دردمندی اور اُن کے اخلاق کا شہرہ تھا مگر یہ رسالت، یہ وحی، غارِ حرا میں فرشتے سے بات چیت، معبودِ واحد کا تصور، مساوات کا سبق، غریبوں کے حقوق کا ذکر، آخرت و مافیہا کی باتیں۔ کہاں جا کر ٹھہرے گا یہ طوفان۔ جو جتنا زیادہ بااختیار تھا اُتا ہی زیادہ فکر مند تھا۔ سب کو محسوس ہو رہا تھا کہ اگر یہ بیل منڈھے چڑھ گئی تو اس کے پلے سے کچھ نہ کچھ جا کر رہے گا۔ دولت کی صورت میں، یا اختیار کی صورت میں۔ ہم غلاموں کے پاس کیا تھا دینے کو جو ہم فکر مند ہوتے۔
محرم میں ایس اوپیز پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں کورونا وبا دوبارہ پھیل سکتی ہے،این سی او سی نے انتباہ جاری کردیا

میں بلالِ حبشی، دوسرے درجے کا انسان بھی سوچنے پر مجبور ہو گیا مگر اس بار میری سوچ میں احساسِ گناہ شامل نہیں تھا۔ گھپ اندھیرے میں ایک جوت جاگی تھی۔ یہ اجالا میرے لئے کیا لے کر آئے گا اس روشنی میں جو کچھ نظر آئے گا، میں اس کا متحمل بھی ہو سکوں گا یا نہیں۔ مگر یہ ساری باتیں بعد کی تھیں۔ اُس وقت سب سے مقدم بات یہ تھی کہ تاریکی میں روشنی کی ایک کرن پھوٹی ہے اور مستقبل جو بھی ہو، حال سے بدتر نہیں ہو سکتا۔ اپنی اس سوچ کی مجھے بہت بڑی قیمت چکانا پڑی۔ وہ قیمت جو میرے خیال میں میرے پاس تھی ہی نہیں۔

میں نے محمدؐ کو کئی بار دیکھا تھا لیکن آج تک اُن سے بات نہیں کی تھی۔ عکاّظ کے بیس روزہ سالانہ بڑے میلے کے بعد جب قافلے اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے کے لئے مکے سے نکلتے ہی اپنے گردوغبار میں گم ہو جاتے تو مکہ سکڑ سا جاتا۔ گلیوں میں دوبار وہی جانے پہچانے چہرے نظر آنے لگتے۔ یہ سب میرے واقف نہیں تھے لیکن صورت شناس میں سبھی کا تھا۔ بہت سے تو غلام سمجھ کر میری طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ کچھ پہچانتے بھی تھے لیکن اُن کا مجھ ایسے غلام کے ساتھ راہ و رسم رکھنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا لیکن محمدؐ مختلف تھے۔ وہ جب بھی پاس سے گزرتے تو مجھے محبت کے انداز سے مسکرا کے دیکھتے۔ یہی وہ محمدؐ تھے جو اللہ کی وحدانیت کی باتیں کر رہے تھے۔

محمدؐ مجھے اچھے لگتے تھے۔ اپنی ذات میں اچھے لگتے تھے۔ کسی سودوزیاں کا اس میں کوئی دخل نہیں تھا۔ وہ تھے تو پہلے درج کے انسانوں کی صف میں مگر مجھے لگتا تھا کہ اوروں کی طرح وہ مچھے نچلے درجے کا انسان نہیں سمجھتے تھے۔ اُن سے مجھ غلام کا کوئی براہِ راست تعلق نہیں تھا اور ہو بھی کیا سکتا تھا مگر اپنی جماعت کے انسانوں میں وہ واحد شخص تھے جن کی مسکراہٹ کو میں نے اپنے لئے محسوس کیا تھا بلکہ یوں کہئے کہ اُس وقت شاید میری ساری زندگی کی واحد خوشی وہ ایک لطیف سا تعلق تھا جو اُن کے تبسم سرِ راہے سے قائم ہو گیا تھا۔ اُن کے علاوہ مجھے دیکھ کر کبھی کوئی اس شفقت اور التفات سے نہیں مسکرایا تھا۔ وہ مسکراتے تھے تو انکی آنکھیں اور چہرہ ہی نہیں اُن کا سارا وجود مسکراتا محسوس ہوتا تھا۔ میرے درجے کے لوگوں کے لئے تو شاید مسکراہٹ بنی ہی نہیں تھی۔(جاری ہے )

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر6 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

موضوعات

تبصرے کیجئے

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.