حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر34

اس وفد میں کئی نوجوان بھی تھے۔ معاذ بن عمروؓ، شہید احد عمرو بن جموحؓ کے بیٹے اور ایک اور نوجوان اُن کا نام بھی معاذؓ تھا۔ سترہ اٹھارہ سال کی عمر۔ کیا سجیلا نوجوان تھا۔ مجھے اُس کا وہ چہرہ آج تک یاد ہے۔ روشن سیاہ آنکھیں، سرخ و سپید رنگ، چہرہ ایسا شگفتہ جیسے کوئی پھول کھلا ہو۔ دانت اتنے چمکدار کہ نور کی شعاعیں پھوٹتی تھیں۔ یہ معاذ بن جبلؓ تھے جن سے بعد میں ہماری بڑی بڑی صحبتیں رہیں۔ وہ اسلام کے اتنے جید عالم بنے کہ امام الفقہا اور امام العلماء کہلائے۔ نبی کریمﷺ نے ایک بار فرمایا تھا کہ معاذؓ قیامت کے دن علماء کے امام ہوں گے۔ اسی مناسبت سے انہیں امام العلماء کا لقب ملا۔ عمرؓ فاروق نے اپنے دورِ خلافت میں ایک بار کہا تھا کہ اگر معاذؓ نہ ہوں تو عمر ہلاک ہو جائے۔

سفرِ شام میں جابیہ کے مقام پر جہاں میں بھی موجود تھا، عمرِ فاروقؓ نے خطبہ دیتے ہوئے کہا تھا:

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر33 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

’’جسے فقہ سیکھنا ہو وہ معاذؓ کے پاس جائے۔‘‘

یہ تھی بیعتِ عقبہ ثانی جو عقبہ کے مقام پر پہاڑیوں کے درمیان، دریا کی ایک سوکھی گودی میں لی گئی۔ لیکن مجھ سابق غلام کا خیال ہے کہ ہم اُس رات عقبہ کی کسی گھاٹی میں نہیں بلکہ ربِ ذوالجلال والاکرام کی رحمتوں کے جوار میں بیٹھے تھے۔ عقبہ کی اس بیعت کے بعد ہماری دنیا ہی بدل گئی۔ اب ہم ایک ٹولہ ، ایک گروہ، ایک جماعت نہیں بلکہ ایک قوم، ایک ملت تھے۔

سُوئے مدینہ

میں اُمیہ کا سیاہ فامِ سابق غلام اب انسانوں کا ایک ذمے دار قائد تھا۔ میں جب یہ سوچتا ہوں تو دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوں۔ اللہ مجھے کبھی تکبر نہ دے!

مکے سے ہجرت کا معاملہ تھا اُس وقت جب ہر شخص ہمارے خون کا پیاسا دکھائی دیتا تھا۔ شیر کے منہ سے نوالہ چھیننے والی بات تھی۔ ایک مہم کے لئے مجھے قائد چنا گیا تھا۔ چھپ چھپا کر مکے سے نکلنا تھا اور چھپتے چھپاتے مدینہ پہنچنا تھا۔ اس ذمے داری کے لئے ایک سابق غلام سے بہتر قائد اور کون ہو سکتا تھا کیونکہ غلام کے تو خون ہی میں فرار کی خواہش شامل ہوتی ہے۔ ایسی مہم کی کامیابی کا انحصار قائد کی صلاحیتوں کے علاوہ دو اور باتوں پر بھی ہوتا ہے۔ایک تو یہ کہ منزلِ مقصود کتنی خوش آئند اور پرکشش ہے اور دوسرے یہ کہ جس عذاب سے فرار مطلوب ہے وہ کس حد تک جان لیوا ہے۔ ہماری منزل مقصود مدینہ تھی۔ شمال کا ایک خوب صورت، شاداب شہر اور جس کے خوف سے ہم فرار چاہتے تھے وہ تھا۔ابوجہل۔ جب مہم کے لئے حالات اتنے سازگار ہوں تو میری کامیابی یقینی تھی۔ آگ اُگلتا ہوا، پھنکارتا ہوا ابوجہل جیسا ابلیس پیچھے لگا ہو تو کون ہے جو جان کی بازی نہیں لگا دے گا۔

مکے سے مسلمانوں کی ہجرت کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ سب کو مدینے جانا تھا۔ حکمتِ عملی یہ تھی کہ لوگ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی وقت صحرا میں نکل جائیں اور الگ الگ راستوں سے ہوتے ہوئے مدینہ پہنچ جائیں۔ ہر ٹولی کی ہجرت کی رات اور وقت رسولِ کریمؐ خود متعین فرماتے تھے۔ یہ سب کام انتہائی احتیاط اور رازداری سے کیا جا رہا تھا۔ حضور مہاجرین کی ہمت بڑھاتے تھے اور اُن کے زادِ سفر کا انتظام کرتے تھے۔ اُن کو سب سے بڑا خدشہ یہ تھا کہ دشمن کہیں صحرا میں مسلمانوں کو گھیر کر اُن کا قتلِ عام نہ کر دیں۔ ہمیں حکم تھا کہ ہماری ٹولیاں فاصلے فاصلے سے چلیں اور جب تک یہ اطمینان نہ ہو جائے کہ اب دشمن کی دسترس سے باہر ہیں تب تک کسی جگہ اکٹھے نہ ہوں۔ ہر ٹولی کا ایک قائد مقرر کیا جاتا تھا۔ مجھے بھی حضورؐ نے ایک ٹولی کا قائد بنا دیا۔ چھ مرد، دو عورتیں اور تین بچے۔ رحمتِ دو عالمؐ نے خود ایک بچے کو گود میں اٹھایا اور ایک میل تک ہمارے ساتھ مکے سے باہر آئے اور ہمیں دعاؤں کے ساتھ رخصت کر کے واپس لوٹ گئے۔ میں سوچتا ہوں حضورؐ نے مجھ پر بڑا اعتماد فرمایا تھا۔ خوشی کے مارے میرے پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے تھے۔ مجھ میں وہ جرأت پیدا ہو گئی تھی کہ اگر شیر بھی سامنے آتا تو میں نہتّا اُس سے لڑ پڑتا۔ میں غلام ابنِ غلام بلال انسانوں کا سربراہ بنا دیا گیا تھا۔

مکے سے مدینہ تقریباً دو سو پچاس میل دور ہے۔ گرمیاں ہو تو اونٹوں پر یہ سفر نو دس دن کا ہے، بچے ساتھ ہوں تو گیارہ بارہ دن کا۔ دونوں شہروں کا درمیانی صحرا قرن ہاقرن سے قافلوں کی رہ گزر ہے، کروڑوں انسان یہاں سے گزر چکے ہیں اور ہواؤں نے سب کے نقشِ قدم ریت سے ڈھانپ دئیے ہیں مگر ہوائیں ہمارے قدموں کے نشان کبھی نہ مٹا سکیں۔ ہم اور تھے، سب سے مختلف، سب سے جُدا۔ ہم خاص لوگ تھے۔ ہم اپنے ساتھ تجارت کا سامان نہیں اللہ کی سونپی ہوئی ذمے داری لے کر جا رہے تھے۔ جب تک دنیا میں گھڑیاں چلتی رہیں گی، جب تک وقت کی گردش جاری رہے گی۔ ہمارے نقشِ قدم قائم رہیں گے۔ ہواؤں کے تیز سے تیز جھکڑ بھی انہیں نہیں مٹا سکیں گے، اس لئے کہ ہم اسلامی تقویم کے پہلے سال کے نقیب تھے۔ وقت کی ابتدا ہی ہمارے قدموں کی چاپ سے ہوئی۔

سخت گرمی کا مہینہ تھا۔ صحرائی سفر کے لئے سال کے بدترین دن مگر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے یہ سفر آسان کر دیا تھا۔ کوئی بادِ سموم کا جھونکا ہم تک نہیں پہنچا، کوئی طوفانِ باد ہم سے نہیں ٹکرایا، کسی نے ہمارا پیچھا نہیں کیا۔ مطلع صاف رہا اور ستارے ہماری رہنمائی کرتے رہے۔ پانچویں دن ہمیں دُور افق کے پاس چند بدوی نظر آئے۔ تین یا چار جو فوراً ہی نگاہوں سے اوجھل ہو گئے۔ ایک دن بچوں نے ریت پر بیٹھے ہوئے ایک شتر مرغ کو اٹھا دیا۔ میں اُس کے پیچھے لپکا کہ شکار کر کے کھائیں گے مگر اُس کے تعاقب میں، میں ریت پر گر گیا اور وہ غائب ہو گیا۔ بچے دیر تک میری حالت پر قہقہے لگاتے رہے بس اس کے علاوہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوئی۔ چھوٹی چھوٹی بیماریاں لگی رہیں۔ گرمی کے سفر میں کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہی ہے۔ تینوں بچے باری باری بیمار پڑتے رہے لیکن بیماری میں جب ہم انہیں اپنے کندھوں پر اٹھا کر چلتے تو ساری بیماری بھول جاتے۔

ہمارے ایک ساتھی کے پاؤں میں زخم تھا جو خاصا بگڑ چکا تھا۔ تین دن تک وہ پیدل چلتا رہا اور اُس نے اپنی تکلیف ہم سے چھپائے رکھی۔ چوتھے دن میں نے اُس کے پاؤں کا درد اُس کی چال میں نہیں، اُس کی آنکھوں میں دیکھا۔ جیسے ہی اُسے یہ احساس ہوا کہ مجھے اُس کی تکلیف کا علم ہو گیا ہے، اُس نے تیز تیز قدم اٹھانے شروع کر دئیے، یہاں تک کہ وہ ہم سے بہت آگے نکل گیا۔

صبر و استقامت کے اس بے مثال مظاہرے میں اُس پر کیا گزری اللہ ہی جانتا ہے جو اپنے بندوں کے لئے ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے۔ ہمیں اُس کے پیچھے دوڑ کر اُس کی سماجت کرنا پڑی کہ وہ ہمارے ساتھ چلے۔ کسی میں ہمت نہیں تھی کہ اُس کے پاؤں کی تکلیف کا ذکر کرے لیکن جب ہم مدینے میں داخل ہوئے تو اُس کا ہاتھ میرے کندھے پر تھا اور وہ ایک ٹانگ سے اُچھل اُچھل کر چل رہا تھا۔

یہ تھی مکے سے میری رخصت، میری ہجرت!(جاری ہے)

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر35 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

موضوعات

تبصرے کیجئے

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.