ابنِ خطاّب
حمزہؓ کے اسلام لانے کے بعد ابوجہل، ابولہب، اُمیہ ، عتبہ سب لوگ سناٹے میں آ گئے تھے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب مسلمانوں سے کیسے نمٹا جائے۔ بازار میں بھی جہاں دو آدمی کھڑے ہوتے گفتگو کا موضوع یہی ہوتا کبھی بآوازِ بلند، کبھی سرگوشیوں کے انداز میں۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ حمزہؓ سے ٹکر لے۔ تین روز ہو چکے تھے حمزہؓ کو اسلام لائے۔ ہمارے لئے یہ سکون کے دن تھے۔ یہ تو ہمیں پتہ تھا کہ یہ دور رہے گا نہیں۔ ہمارے دشمن ضرور کوئی نہ کوئی چال سوچ رہے ہوں گے مگر فی الوقت طوفان تھم گیا تھا۔ اگر کوئی راہ میں مل بھی جاتا تو طرح دے جاتا، منہ پھیر لیتا، ناک بھوں چڑھا لیتا مگر کہتا کچھ نہیں۔
غموں پر غم سہنے کی تو ہمیں عادت سی ہو گئی تھی مگر خوشی پر خوشی ہمارے لئے نئی بات تھی۔ ابھی ہم حمزہؓ کے قبول اسلام پر اللہ تعالیٰ کا شکر ہی ادا کر رہے تھے کہ مکے کی گلیوں میں ایک شخص نظر آیا۔ آنکھوں میں خون اُترا ہوا، ہاتھ میں ننگی تلوار لہراتا، اسلام اور رسول اسلامؐ کے خلاف زہر اُگلتا۔ وہ اعلان کر کے آیا تھا کہ آج وہ ایک ہی ضرب میں قریش مکہ کی ساری پریشانیاں دُور کر دے گا۔ یہ مہم جُو نوجوان اتنا طویل القامت تھا کہ کھڑے کھڑے اُچھل کر گھوڑے پر سوار ہو جاتا تھا۔ مزاج سنجیدہ مگر غصیلا، پیشہ مصالحوں کی تجارت، عمر چھبیس سال، نام عمر ابن خطاب۔
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر26 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جس وقت یہ نوجوان مکے کی گلیوں سے گزر رہا تھا، رسول اللہ ﷺ دارِارقم میں تھے۔ ابوقُبیس کی پہاڑی کے دامن میں، حرمِ کعبہ کے نزدیک، ارقمؓ کا گھر کچھ عرصے سے ہماری مسجد بھی تھا، ہماری پناہ گاہ بھی۔ چند صحابہ حضورﷺکے ساتھ بیٹھے تھے۔ میں کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا کہ مجھے وہ نظر آیا۔ اُس کی اسلام دشمنی کے تو پہلے ہی کئی وار سہہ چکے تھے۔ اس وقت اس کے یہ تیور دیکھے تو میں نے فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کیا۔ میرا خیال تھا وہ یہ خبر سنتے ہی فوراً کچھ حفاظتی انتظامات کا حکم دیں گے مگر انہوں نے نہایت دھیرج سے جواب دیا:
’’عمر کے مجھ تک پہنچنے کے وقت کا انتخاب اللہ تعالیٰ کرے گا‘‘۔
میں پھر دوڑ کر کھڑکی کے پاس گیا۔ وہ تلوار لئے چلا آ رہا تھا، سیدھا ہماری طرف۔ میں نے عرض کی:
’’یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے وقت کا انتخاب کر دیا ہے۔ عمر آ گیا ہے‘‘۔
یہ سن کر حمزہؓ نے کہا:
’’آنے دو۔ اگر نیک نیتی سے آیا ہے تو خیر ورنہ اُسی کی تلوار سے اُس کا سر قلم کر دیا جائے گا‘‘۔
سب لوگ چوکنے ہو کر بیٹھ گئے۔ میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ چولہے پر ایک دیگچا رکھا تھا جس میں پانی کھول رہا تھا۔ میں نے دل میں سوچا کہ اگر خدانخواستہ ضرورت پڑی تو شاید یہ بھی کام آ جائے۔ ویسے مجھے ہی نہیں ہم سب کو حمزہؓ کی موجودگی سے بڑا حوصلہ تھا۔
میں پھر کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ وہ لمبا تڑنگا نوجوان اب ہمارے دروازے سے کوئی پچاس قدم کے فاصلے پر ہو گا۔ اُس کے اپنے حساب سے زیادہ سے زیادہ چالیس قدم۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ ایک ضعیف آدمی جس کی پشت ہماری جانب تھی، اُس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ مجھے لگا کوئی بھکاری ہے۔ یہ بھکاری بھی بھیک مانگتے وقت کوئی موقع محل نہیں دیکھتے۔ یہ شمشیر بکف نوجوان اپنی غصیلی طبیعت کے باوجود ایک مخیر انسان تھا لیکن اُس نے اس بوڑھے کو کچھ دینے کی بجائے، اُسے جھنجھوڑ کر راستے سے ہٹا دیا۔ پھر پتہ نہیں کیسی کیسی قسمیں کھا کر چلایا:
’’میں اُس بدنصیب عورت کے ٹکڑے کر ڈالوں گا‘‘۔
اس فقرے میں تانیث کا صیغہ سن کر مجھے گو نہ اطمینان ہوا۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ یکایک مڑا اور اُلٹے پاؤں اسی راستے پر چلا گیا جدھر سے آیا تھا۔ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا، لگتا تھا جیسے اُس کے اندر کوئی عفریت داخل ہو گیا ہے۔
بظاہر خطرہ ٹل گیا تھا مگر میرا دل گواہی دے رہا تھا کہ آج بات یہیں ختم نہیں ہو گی۔ میں اُس نوجوان سے واقف تھا۔ سارا مکہ اُسے جانتا تھا۔ وہ اُن لوگوں میں سے نہیں تھا جو کسی کام کا عزم کرنے کے بعد اُسے اُدھورا چھوڑ دیتے ہیں۔ چنانچہ میں کھڑکی کے پاس انتظار کرتا رہا۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ وہی بزرگ چلے آ رہے ہیں جنہوں نے عمر کا راستہ روکا تھا اور جنہیں میں دور سے بھکاری سمجھا تھا۔ یہ مکے کے ایک درمیانے درجے کے تاجر تھے۔ نعیم بن عبداللہؓ جو کچھ عرصہ پہلے مسلمان ہو چکے تھے۔ مگر ابھی اس کا اعلان نہیں کیا تھا۔ وہ دروازے سے داخل ہوتے ہی سیدھے حضورﷺ کے پاس جا کر بیٹھ گئے اور اُنہیں عمر سے اپنی ملاقات کا سارا ماجرا سنایا۔ کہنے لگے:
’’میں نے باہر گلی میں عمر کو ہاتھ میں تلوار لئے ادھر آتے دیکھا تو پوچھا کہ تلوار کیوں میان سے نکال رکھی ہے۔ اُس نے جواب دیا اُس کو قتل کرنے کے لئے جس نے قریش میں تفرقہ ڈال رکھا ہے۔ میں نے کہا پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔ اس پر وہ نہایت غضب ناک ہو کر پوچھنے لگا کون سے گھر کی۔؟ میں اپنے مسلمان ساتھیوں کا راز فاش نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اس صورتِ حال میں مجھے اور کچھ نہ سوجھا۔ میں نے کہہ دیا اپنی ہمشیرہ اور بہنوئی کی جو محمدﷺکی رسالت پر ایمان لا چکے ہیں۔ یہ سنتے ہی اُس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اُس نے مجھے جھنجھوڑ کر پرے کیا اور اپنی ہمشیرہ کے گھر کی طرف مڑ گیا۔ شدید اشتعال کے عالم میں چیختا چلاتا اور اپنی ہمشیرہ کے قتل کی دھمکیاں دیتا اللہ ان دونوں میاں بیوی کو اپنے حفظ و امان میں رکھے!‘‘
عمرؓ کے اسی اشتعال کا مظاہرہ میں نے دور سے دیکھا تھا۔ نعیمؓ کی روداد سن کر ہم سب دل ہی دل میں اپنے ساتھیوں کی خیریت کی دعائیں مانگ رہے تھے کہ اتنے میں میں نے کھڑکی سے دیکھا کہ عمرؓ دوبارہ چلا آ رہے ہیں۔ کھنچی ہوئی تلوار اب بھی ہاتھ میں تھی۔ میں نے فوراً بھاگ کر دروازہ بند کر دیا اور چٹخنی لگا دی۔ رسول اللہ ﷺ نے صورتِ حال کا اندازہ لگا لیا۔ وہ فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور مجھے کہنے لگے:
’’دروازہ کیوں بند کر دیا بلال؟‘‘
میں نے کہا ’’عمر پھر آ رہا ہے تلوار لہراتا ہوا‘‘۔
سرکارﷺ نے ایک لمحے کے لئے مجھے خاموش نگاہوں سے دیکھا اور فرمایا:
’’پیغمبر کا دروازہ کسی کے لئے بند نہیں ہوتا۔ اللہ سے ڈرو بلال اور دروازہ کھول دو‘‘۔
یہ کہہ کر وہ کمرے کے وسط میں جا کر کھڑے ہو گئے، سارے صحابی بھی ساتھ ہی اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں حسبِ حکم دروازہ کھولنے کے لئے پہنچا ہی تھا کہ باہر سے دستک سنائی دی۔ عمرؓ تلوار کے دستے سے دروازہ کھٹکھٹا رہے تھے۔ میں نے فوراً چٹخنی اُتار کر دروازہ کھول دیا۔ اب جو میں نے دیکھا اس پر مجھے آج تک یقین نہیں آتا۔ وہ جھک کر دروازے سے داخل ہوئے۔ ان کے اندر قدم رکھتے ہی رسول اللہ ﷺ خود آگے بڑھے اور ان کا دامن جھٹک کر اُس سے پوچھا:
’’کیوں عمر، کس ارادے سے آئے ہو؟‘‘
ساری کائنات کی قوت سمٹ آئی تھی اس مختصر سے سوال میں۔ عمر سر سے پاؤں تک لرز گیا۔ وہ رسالت مآبؐ کی طرف دیکھتے رہ گئے۔ پھر پیچھے کھڑے حاضرین کی طرف دیکھا ۔ اُس کے بعد نظریں نیچی کر لیں اور اپنی تلوار کو دیکھا ۔ ان کے اندر ایک ہیجان برپا تھا، ایک لاوا تھا جو پھٹ پڑنے کو تیار تھا۔ ہم سب کی نظریں اُس پر جمی تھیں۔ یکایک اُنہوں نے تلوار ہاتھ سے گرا دی اور کہنے لگا:
’’میں اعلان کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں‘‘۔
یہ سنتے ہی رسولِ کریمؐ نے اور اُن کے ساتھ مل کر ہم سب نے اتنے زور سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا کہ ابوقبیس کی چٹانیں گونج اٹھیں۔
عمرؓ عورتوں مردوں میں اسلام لانے والے چالیسویں فرد تھے۔(جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر28 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
تبصرے کیجئے