حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر21

ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ جب عورتوں کو یہ اعزاز بخشا گیا تو وہ اس کا خیر مقدم کرتیں لیکن ہوا یہ کہ وہ بھی اللہ کے سرکاردوعالم ﷺ کے خلاف صف آراء ہو گئیں۔ گھر گھر بحث چھڑ گئی کہ اگر کسی کی چار سے زیادہ بیویاں ہیں تو جنہیں علیحدہ کیا جائے گا وہ کون ہوں گی۔ انہیں کون رکھے گا اپنے گھر۔ کون اُن کی کفالت کرے گا۔ کون اُن کی دیکھ بھال کرے گا۔

صحرائی زندگی میں کثرتِ ازواج کا رواج محض اس لئے نہیں تھا کہ مرد حریص تھے بلکہ اس لئے بھی کہ وہ فیاض تھے۔ یوں بیویوں کی تعداد پر پابندی کو شروع شروع میں عورتوں کے ساتھ زیادتی بلکہ سراسر ظلم کا نام دیا گیا۔

سرکاردوعالم ﷺ نے بات یہیں ختم نہیں کی بلکہ اُسے آگے بڑھایا کہ یہ فرمانِ الٰہی تھا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ عورتیں ہر چند مردوں سے ہیئت میں مختلف ہیں، پھر بھی وہ مردوں کے برابر ہیں، اُن کے مساوی حقوق رکھتی ہیں۔ انہوں نے تعلیم دی کہ عورتیں مردوں کی زینت ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے محافظ اور نگہبان ہیں، دونوں کو آخرت میں اپنا اپنا حساب دینا ہے اور وہاں بھی دونوں کے ساتھ یکساں سلوک ہو گا۔

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر20 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

آج لوگ ان سادہ اور منصفانہ خیالات پرسرکاردوعالم ﷺ سے محبت کرتے ہیں۔ اُس زمانے میں انہی باتوں پر لوگ اُن سے نفرت کرتے تھے۔ ایک دور ایک بات کا مذا ق اُڑاتا ہے، دوسرا اُسے قابلِ ستائش سمجھتا ہے۔ شاید اس لئے کہ پھل میٹھا ہونے سے پہلا کڑوا ہوتا ہے۔

میری دُعائیں

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کے بارے میں کُفّار کو اب کوئی غلط فہمی نہیں رہی تھی۔ جو تھوڑی بہت خوش فہمیاں تھیں، وہ بھی دُور ہو چکی تھیں۔ قریش کے تمام سرداروں پر اس پیغام کے مضمرات آشکار ہو چکے تھے اور اب براہِ راست تصادم ناگزیر تھا۔ اسلام کا کلمہ لا الہ الا اللہ ایک انتہائی انقلابی نعرہ تھا۔ نہایت مختصر لیکن اتنا عمیق اور دُور رس کہ اُس کی ضربِ کاری جاہلیت کی بنیادیں ہلانے کی طاقت رکھتی تھی۔ اس کلمہ پر ایمان رکھنے والا علی الاعلان پکار رہا تھا کہ اب اللہ وحدہ لاشریک کے علاوہ کسی کے سامنے سرِ تسلیم خم نہیں کیا جائے گا۔ کوئی ایسا نظام، کوئی ایسی طرزِ معاشرت قبول نہیں کی جائے گی جو غیر اللہ کی ایجاد ہو۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی حاکمیت تسلیم نہیں کی جائے گی۔ تمام فوق الانسانی حقوق ختم کر دئیے جائیں گے۔ نسلی، قومی اور قبائلی وحدتوں کی روایات، پجاری اور جاگیردار طبقوں کی امتیازی مراعات اور خود ساختہ مفروضوں پر قائم تمام عظمتیں اور بالادستیاں مٹا کر قافلہء انسانیت کو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اصولوں کے تحت فلاح و ارتقا کی راہ پرگامزن کیا جائے گا۔
انٹر بینک میں ڈالر مہنگا ہو گیا

یہ ایک نظریہء حیات تھا۔ ایک فلسفہ تھا جس کا جواب یہی ہونا چاہئے تھا کہ اس کے مقابلے پر ایک متبادل نظریہ پیش کیا جاتا اور دلائل سے اُس کی فوقیت تسلیم کرائی جاتی لیکن یہ نہ ہوا اور وہ زچ ہو کر کھلم کھلا ظلم پر کمربستہ ہو گئے۔

رسول اللہ ﷺ نے جب معاذ بن جبلؓ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تھا تو رخصت کے وقت انہیں سب سے بڑی نصیحت یہ کی تھی:

’’معاذ! مظلوموں کی بددعا سے ڈرتے رہنا۔ یاد رکھنا کہ اُنکے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہے‘‘۔

لیکن ظالم شاید یہ نکتہ نہیں سمجھتے۔

آج میں ضعیف اور قریبِ مرگ ہوں لیکن آج بھی ظلم پر میرا خون کھول اٹھتا ہے۔ مجھے ظلم سے بہت نفرت ہے۔ میں بلال جس نے بہتوں سے زیادہ ظلم سہے ہیں، ظلم سے محفوظ رہنے کے لئے دعائیں مانگتا رہتا ہوں۔ بلالِ حبشی کی یہ دعا ہے:

’’یا اللہ! ظالم کو مجبور کر دے کہ وہ اپنے آپ کو اُس بدن میں دیکھے جس پر وہ ظلم ڈھا رہا ہے‘‘۔

’یا اللہ! غلط فیصلے کرنے والوں کو اپنے فیصلوں کے نتیجے خود بھگتنے پڑیں۔‘

’یااللہ! عدل چاہنے والے مجبور کل خود کرسیِ عدل پر متمکن ہوں‘۔

’یا اللہ! کوئی منصف قانون کے معاملے میں من مانی نہ کرے کیونکہ دنیاوی قانون بھی تیری رحمت ہی سے بنے ہیں‘۔

’یااللہ! ہر ظالم کو اُس کے ظلم کی دہری سزا دے‘۔

’یااللہ! ظالم کو اُسی وقت سزا دے جب وہ ظلم کر رہا ہو‘۔

ایک اور چھوٹی سی دُعا جو میں ہر رات سونے سے پہلے مانگتا ہوں میرا زندگی بھر کا وظیفہ ہے:

’یا باری تعالیٰ مجھ سے میری برائیاں دُور کر دے اور مجھے بُری عادتوں سے چھٹکارا دلا دے۔‘

فجر کی اذان سے پہلے جب میں مسجدِ نبویؐ سے ملحق ایک چھت پر بیٹھا اذان کے وقت کا انتظار کیا کرتا تھا تو ہمیشہ یہ دعا مانگا کرتا تھا:

’اے اللہ میں تیری حمد کرتا ہوں اور قریشِ مکہ کے بارے میں تجھ سے مدد مانگتا ہوں کہ وہ تیرے دین کو قائم کریں‘

لیکن یہ مدینے کی دُعا ہے، اُس وقت مکےّ میں تو ہر وقت میری یہی دُعا تھی کہ اللہ تعالیٰ قریش کو نیکی کی ہدایت دے اور وہ اپنے ظلم سے باز رہیں۔(جاری ہے )

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر22 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

موضوعات

تبصرے کیجئے

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.