حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر20

ابتدائے انقلاب

ابولہب، اُمیہ، عُتبہ اور تمام مشرکینِ مکہ کا سرغنہ ابوجہل معمولی لوگ نہیں تھے۔ یہ سب نہایت سیانے، سنجیدہ لوگ تھے۔ انہیں ابتدا ہی سے اندازہ ہو گیا تھا کہ اسلام کوئی عارضی، جزوقتی تحریک نہیں ہے بلکہ ایک انقلاب ہے۔ محمدﷺ صرف اللہ ہی کا ایک نیا تصور لے کر نہیں آئے ہیں بلکہ وہ انسان کا بھی ایک نیا تصور پیش کر رہے ہیں۔ اسلام اپنے نظامِ زکوٰۃ کی وجہ سے چھوٹی بڑی ہر جائیداد اور ملکیت کے لئے ان کی نظر میں خطرہ تھا۔ جو صاحبِ نصاب ہیں وہ غریبوں کو اپنی دولت میں شریک کریں۔ یہ انقلاب نہیں تھا تو اور کیا تھا۔ اسلام غریبوں کی داد رسی پر ہی اکتفا نہیں کرتا تھا اُن کے حقوق بھی جتاتا تھا۔ اسلام یہ بھی تسلیم نہیں کرتا تھا کہ حسب نسب کے اعتبار سے کچھ قبیلوں کو دوسرے قبیلوں پر پیدائشی برتری حاصل ہے۔ اسلام کا مساوات کا سبق عرب کی ساری معاشرتی اقدار کے لئے چیلنج تھا۔ عرب ایسے قوانین کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔

ابوجہل نے کوشش کی، ابوسفیان اور ابولہب نے بہت سر مارا کہ محمدﷺ راہِ راست پر آ جائیں۔ راہِ راست سے اُن کی مراد یہ تھی کہ وہ مشرکین کے نکتہ نظر کو تسلیم کر لیں اور اپنے دین کی اشاعت سے باز آ جائیں۔ انہوں نے اُنہیں رشوت، منصب، اختیار، یہاں تک کہ کعبے کی آمدنی کا حصہ تک پیش کیا۔ وہ بے وقوف شاید یہ سمجھتے تھے کہ رسالت زمین سے نکلنے والی دھاتوں کے عوض خریدی جا سکتی ہے۔ سارے حربے بے اثر ہوئے اور ایک دن مکے کے طول و عرض میں محمدﷺ کا یہ اعلان گونج اٹھا:

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر19 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

’’اگر تم میرے دائیں ہاتھ پر سورج لا کر رکھ دو اور بائیں ہاتھ پر چاند تب بھی میں پیغامِ الٰہی کی تبلیغ سے باز نہیں آؤں گا۔‘‘

ہر شخص اس اعلان کی بات کر رہا تھا۔ کوئی علی الاعلان اور کوئی سرگوشیوں میں اس بیان کی قطعیت پر تبصرہ کر رہا تھا۔ مشرکینِ مکہ نے جب محمدﷺکے منہ سے یہ الفاظ سُنے تو وہ ہکا بکا رہ گئے۔ ان کو لگا جیسے ساری بساط ہی اُلٹتی جا رہی ہے۔ یہ کہتے ہوئے محمدﷺ کو اُن پر ترس بھی آیا کہ وہ کیوں اس سادہ سی حقیقت کو سمجھ نہیں پا رہے۔ چلتے چلتے انہوں نے مشرکین سے یہ بھی کہا:

’’اور تم اپنی اولاد کے قتل سے باز رہو!‘‘

اولاد کے قتل سے کیا مراد ہے، یہ میں آپ کو بتاتا ہوں۔ دراصل محمدﷺ کی تعلیمات نے گزشتہ تیس سال میں دنیا کو اس تیز رفتاری سے آگے بڑھایا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ ہم ابھی تک زمین پر کیسے موجود ہیں۔ زمانے کی برق رفتاری نے کرۂ ارض سے ہمارے پاؤں اُکھاڑ کر ہمیں کسی اور سیارے پر کیوں نہیں پھینک دیا۔ اولاد کا قتل صرف تیس سال پرانی بات ہے لیکن محسوس یہ ہوتا ہے جیسے کسی صدیوں پرانے رواج کا ذکر ہو رہا ہو۔

جب نّبیِ کریمﷺ نے یہ الفاظ کہے تھے تو اُن کا بعینہ یہی مطلب تھا۔ اسلام سے پہلے صحرائے عرب میں بچے کے مستقبل کا فیصلہ شکمِ مادر سے باہر آتے ہی ہو جاتا تھا۔ لڑکا ہے تو اُسے زندہ رہنے دیا جائے گا۔ اُس کی ولادت پر جشن ہو گا۔ لڑکی ہے تو مستقبل تاریک۔ اُس پر سرگوشیاں ہوں گی۔ اگر خاندان میں پہلے ہی لڑکیاں کافی ہیں یا قبیلے کے خیموں میں اُن کی خاطر خواہ تعداد موجود ہے تو نوزائیدہ لڑکی کو پیدا ہوتے ہی صحرا میں لے جایا جائے گا اور اُس پر ریت ڈال کر اُسے زندہ دفن کر دیا جائے گا۔

اُن کے پاس اس بہیمانہ رسم کے باقاعدہ جواز تھے۔

’ہم زندگی کو محفوظ رکھنے کے لئے زندگی کو ختم کرتے ہیں۔‘

’لڑکیوں کا قتل دراصل صحرائی معیشت کا تقاضا ہے، اُن کا اپنا فیصلہ نہیں ہے‘۔

’غربت میں بچی کو زندہ رکھنے کا مطلب یہی ہے کہ ایک بھوکے پیٹ کا اور اضافہ ہو گیا‘۔

’لڑکی آبادی میں مزید اضافے کا باعث ہوتی ہے‘۔

’ہم لڑکیوں کو قتل کر کے لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان اپنے خداؤں کے پیدا کئے ہوئے عدم توازن کو درست کرتے ہیں کیونکہ ہمارے یہاں لڑکے کم اور لڑکیاں زیادہ پیدا ہوتی ہیں‘۔

اُن کی باتیں سُن کر دکھ ہوتا تھا۔ قدرت کے عملِ تخلیق کی اُن کے ذہن میں کوئی تقدیس نہیں تھی۔ کچھ اور برائیاں بھی تھیں ان کے معاشرے میں مثلاً سُود، جُواء، شراب خوری، عورتوں کے بارے میں ان کا غیر منصفانہ رویہ، غلاموں کے ساتھ انتہائی بہیمانہ سلوک، جانوروں سے بے رحمی کا برتاؤ وغیرہ۔ لیکن یہ برائیاں محض باہر سے آنے والوں کو نظر آتی تھیں۔ اہلِ مکہ کے مزاج میں یہ اس قدر راسخ ہو چکی تھیں کہ انہیں ان کے شر کا احساس تک نہیں تھا۔

لیکن اس حمام میں کچھ اور لوگ بھی ننگے تھے۔ جب عربستان میں محمدﷺ مردوں اور عورتوں کو مساوات کی تعلیم دے رہے تھے تو انہی دنوں فرانس میں عیسائی بشپوں کی ایک کانفرنس ہو رہی تھی۔ اس کانفرنس میں زیرِ بحث موضوع یہ تھا کہ عورتیں روح رکھتی ہیں یا نہیں۔ یہ پتہ نہیں کہ بالآخر فیصلہ کیا ہوا۔ یہاں شام میں باتیں تو سب پہنچ جاتی ہیں لیکن تفصیلات نہیں ملتیں۔

اُن کے خداؤں سے انکار پر بھی انہیں غصہ تھا۔ بچوں کو زندہ درگور کرنے سے منع کرنے پر بھی وہ معترض تھے لیکن اب تو غصے کی ایک اور وجہ پیدا ہو گئی تھی۔ محمدﷺ نے بیویوں کی تعداد محدود کر دی تھی۔ اب تک رواج یہ تھا کہ لوگ اپنی خواہش اور مالی وسائل کے مطابق جتنی چاہیں شادیاں کر لیتے تھے۔ بعض کے تو دس دس بیس بیس بیویوں بھی تھیں۔ اسلام نے بیویوں کو چار تک محدود کر دیا، جس فرمان کے تحت یہ تعداد مقرر ہوئی اُس کی رُو سے آسانیاں ایک ہی بیوی کے رکھنے میں تھیں۔ حکم یہ تھا کہ سب بیویوں کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھا جائے اور اُن کے حقوق کی ادائیگی میں کسی کو کسی پر فوقیت نہ دی جائے اور اگر مرد یہ نہ کر سکے تو پھر وہ ایک ہی بیوی رکھے۔(جاری ہے )

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر21 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

موضوعات

تبصرے کیجئے

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.