حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر17

نزولِ قرآن

طلوعِ اسلام کے اولین شاہدوں کی حیثیت سے ہم قابلِ رشک ہیں مگر کئی لحاظ سے ہم قابل رحم بھی ہیں، ہم ہمہ وقت اس خوف سے لرزہ براندام رہتے تھے کہ ایسا نہ ہو ہمارے ذہنوں میں اس نئے علم کو سمجھنے کی گنجائش ہی نہ ہو۔ نوح علیہ السلام بھی تو اسی الہامی علم کی روشنی سے خوف زدہ ہو کر چھپ گئے تھے۔ ہم محدود صلاحیتوں کے لوگ تھے۔ ہم تو ایک جماعت ترتیب دینے کے بھی اہل نہیں تھے چہ جائیکہ ہم اُن عظیم روحانی صداقتوں کو جو ہمارے دلوں میں اُتر چکی تھیں، خانوں خانوں میں رکھ کر اُن کو کوئی نام دیتے اور اُن کو نفس مضمون کے اعتبار سے کسی منطقی ضابطے میں لاتے۔ دل سے کسی الہامی سچائی کو محسوس کر لینا اور بات ہے اور دماغ سے اُس کی جزئیات کو سمجھنا اور اس پر عمل پیرا ہو کر اُسے جزوِ حیات بنا لینا دوسری بات۔ یہ رسالتمآب ﷺکا ہی کام تھا کہ انہوں نے ایک الہامی پیغام کو ایک معاشرتی حقیقت بنا دیا۔ آجکل کے نوجوان بڑے سیانے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں علم کے انبار لگے ہیں۔ ہمارے پاس کیا تھا۔ ہماری ذہنی تاریکیاں اور پہلی پہلی آیتوں کے چھوٹے چھوٹے چراغ

قل ھو اللّٰہ احد

اللّٰہ الصّمد

لمہ یلد و لمہ یولد

ولمہ یکن لہ کفواً احدہ

لیکن میرے خیال میں اللہ تعالیٰ کا اوّلین مقصد اپنی مخلوق کی حفاظت کرنا ہے، اُسے خارجی علوم سکھانا نہیں ہے۔ اللہ کی ذات کا واسطہ حکمت اور ابدیت سے ہے، خارجی اور ثانوی علوم سے نہیں۔ یہ علوم اللہ تبارک تعالیٰ کی ازلی حکمت کو سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں، اُس کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کی اسی حکمت اور ابدیت کا صحیفہ ہے۔ مادّی نفسیات سے بلند تر اور عینِ حقیقت۔ میرے خیال میں اس کے رموز و اسرار کا انسانی منطق پر پورا پور ا اُترنا لازم نہیں ہے کیونکہ یہ عین حقیقت کائنات کے دل کی دھڑکن ہے جو مرکز و محورِ کائنات سے اُبھرتی ہے۔ قرآنِ کریم کا ہر لفظ ایک حوالہ ہے جس سے رشد و ہدایت کے کبھی نہ خشک ہونے والے سوتے پھوٹتے رہتے ہیں۔ کائنات کی بیرونی حدود پر بسنے والے انسان اگر قرآنی الفاظ کا مکمل ادراک نہ بھی کرسکیں تب بھی یہ حقیقت عظمیٰ اپنی جگہ مسلم رہتی ہے۔

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر 16 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

قرآنِ کریم کے ذریعے منشائے الٰہی کی فہم ہم میں سے ہر ایک کو محمدﷺکی ذات سے حاصل ہوئی۔ عائشہؓ نے ایک بار فرمایا تھا کہ وہ قرآنِ ناطق ہیں۔ اُن کے قول و فعل سے ہم پیغامِ الٰہی کے رموز جاننے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ جو میری سمجھ میں آیا وہ یہ ہے کہ انسان دنیاوی حرص و ہوس سے کنارہ کش ہو کر ذاتِ الٰہی سے منسلک ہو جائے۔ اگر اُسے اللہ کی ذات کا اس حد تک ادراک نہیں ہو پاتا کہ وہ اُس سے عشق کر سکے تو کم از کم اتنا ضرور ہو کہ وہ اُس کے جلال و ہیبت سے آشنا ہو جائے۔

مجھے جیسے چھوٹے چھوٹے ذہنوں کے کم مایہ لوگ ماورائی حقیقتوں کو سمجھنے کے لئے مادی علامتوں کا سہارا لیتے ہیں۔ میں جب خود کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں کسی بلند و بالا، برف پوش پہاڑ پر تنہا، گہرے گہرے سانس لے کر برف سے دھلی صبح کی شفاف اور پاکیزہ فضا کو اپنے وجود میں جذب کر رہا ہوں۔ تازہ فضا سے میرا سینہ کشادہ ہوتا جا رہا ہے اور اس طرح شرحِ صدر اور کشادگی کے راستے سے اللہ تعالیٰ کا نور میرے اندر سرائیت کرتا جا رہا ہے اور پھر جتنا کچھ اس مٹی کے کوزے میں سما جائے، اس کی کثافت جتنی لطافت سمیٹ سکے، یہی میرے نزدیک قربِ الٰہی ہے جس کی ترغیب اور توفیق دونوں ذاتِ الٰہی سے ملتی ہیں اور جو انسان کو انسانوں کی آقائیت سے نجات دلاتا ہے۔

ہند سچ ہی کہتی تھی۔ میں تو واقعی واعظ بنتا جا رہا ہوں۔

میں نے بار ہا رسول اللہ ﷺ کو نزولِ وحی کے وقت دیکھا ہے۔ وہ بیٹھے بیٹھے، کھڑے کھڑے، لیٹے لیٹے یا جس حال میں بھی ہوں، کانپنے لگتے تھے اور اِدھر اُدھر کوئی تخلیہ تلاش کرنے لگتے تھے۔ سرد ترین راتوں میں، میں نے اُن کا چہرہ پسینے سے شرابور دیکھا ہے۔ ایک بار نہیں کئی بار میں نے وہ کرب محسوس کیا ہے جس میں وہ مبتلا ہو جاتے تھے۔ سارے بدن پر لرزہ، پریشانی کے عالم میں اپنی پسلیوں کو زور زور سے بھینچتے تھے۔ کبھی ایک ایک گھنٹہ خاموش لیٹے رہتے نہ خود کچھ کہتے۔ نہ ہمیں کچھ عرض کرنے کی جرات ہوتی تھی۔

نزولِ وحی اچانک ہوتا تھا۔ رسولِ کریمﷺ کو پہلے سے کوئی اشارہ نہیں ملتا تھا۔کبھی گفتگو کے دوران میں، کبھی اپنے گھر کے اندر چلتے پھرتے، کبھی اونٹ پر بیٹھے بیٹھے۔ ایسے موقعوں پر وہ فوراً اونٹ سے اُتر آتے تھے اور اپنے آپ کو اپنی عبا میں چھپا لیتے تھے۔ نزولِ وحی کے وقت کبھی انہیں گھنٹیاں سی سنائی دیتیں، کبھی پروں کے پھڑپھڑانے کی آواز، کبھی زنجیروں کی جھنکار۔

ایک فرشتہ اُن کی خدمت میں حاضر ہو کر اُن سے ہم کلام ہوتا لیکن ہم جو اُن سے صرف ایک ہاتھ کے فاصلے پر بیٹھے ہوتے تھے نہ سُن سکتے تھے، نہ کچھ دیکھ سکتے تھے۔

رسول پاکﷺ اس روحانی تجربے کے کرب سے باہر آنے کے بعد اُس الہام کو بیان فرماتے تھے۔ اس پیغام کا ایک ایک لفظ، ایک ایک حرف، ایک ایک زیر زبر، من و عن ارشادِ الٰہی کے مطابق۔ اس کے بعد یہ آیات ربانی کسی کھال پر یا چھال پر یا کسی صاف ہڈی پر جو بھی اُس وقت موجود ہو لکھ کر محفوظ کر لی جاتی تھیں۔ بعینہ جیسے جبریل علیہ السلام انہیں لے کر آتے تھے۔

ایسے موقعوں پر جب میں اُن کے کرب کی کیفیت دیکھتا تو مجھ سے برداشت نہ ہوتا۔ کبھی کبھی اُن کی محبت، کلام الٰہی کی افادیت پر غالب آنے لگتی۔ میرا جی چاہتا کہ میں اُن کے پاس جاؤں اور اُن کو اس تکلیف سے نجات دلاؤں لیکن میرے پاؤں من من بھر کے ہو جاتے، بندے کی کیا مجال کہ وہ اللہ کے کاموں میں دخل دے۔ ایک بار انہوں نے ہمیں بتایا کہ نزولِ وحی کے وقت ہر بار انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی طاقت اُن کی روح کو ان سے نوچے لئے جا رہی ہے۔

وحی کے بعد وحی نازل ہوتی رہی، یہاں تک کہ ہمارا دین مکمل ہو گیا۔

یہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت تھی کہ اُس نے اپنا پیغام نازل کرنے کے لئے ایک ایسے شخص کو نبوت سونپی جو امّی تھا۔ نہ لکھ سکتا تھا، نہ پڑھ سکتا تھا۔ اللہ کا منشا شاید یہ تھا کہ اُسکی آیات کا پیغامبر الفاظ کے اُن ناقص تلازمات میں نہ اُلجھا رہے جو ہمیشہ لکھے ہوئے الفاظ کے پس منظر میں سر اٹھاتے رہتے ہیں اور جن سے نفسِ مضمون کبھی بکھر جاتا ہے، کبھی مجروح ہو جاتا ہے۔ وہ ایسا شخص نہ ہو جس نے بحرِ علم کے چند موتی چن رکھے ہوں جن کی چمک دمک اُس کی نگاہوں کو خیرہ کئے رکھتی ہے اور وہ اپنی نیم علمی کو اتنی اہمیت نہ دے بیٹھے کہ اصلِ علم کی حقیقت تک نہ پہنچ سکے۔(جاری ہے )

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر 18 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

موضوعات

تبصرے کیجئے

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.