حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر15

اُس وقت جب رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کے حقوق کا اعلان نہیں فرمایا تھا، مکے میں انسان اور انسان کے درمیان تفاوت شرم ناک حد تک بڑھا ہوا تھا۔ چند کھاتی پیتی خواتین کا معززینِ شہر میں شمار ہوتا تھا جیسے خدیجہؓ اور ابوسفیان کی بیوی ہند، لیکن باقی غربت اور بے چارگی کی چکی میں بُری طرح پس رہی تھیں۔ وہ مردوں کی ہوس اور ظلم تلے روندی جا رہی تھیں۔ مرد انہیں اپنا مال اسباب سمجھتے تھے، مال مویشی کی طرح۔ عنترہ جیسا شاعر بھی اب نہیں رہا تھا جو اپنے اشعار میں اُن کی حالتِ زار پر اشک بہایا کرتا تھا۔

مکہ اس لحاظ سے عجیب شہر تھا کہ یہاں ایک طرف تو لات، منات اور عزّیٰ کی صورت میں عورتوں کی پرستش ہوتی تھی اور دوسری طرف عورتوں کو تسکینِ ہوس کا سامان بنا کر انہیں بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کیا ہوا تھا۔

یہ باتیں میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ آپ کو اندازہ ہو جائے کہ خدیجہؓ کی صورت میں اللہ جل شانہ، نے اپنے رسولﷺ کو کتنا بڑا تحفہ دیا تھا۔ ان دونوں کے مراسم کی ابتداء تو عجیب حالات میں ہوئی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ تعلق بڑھتا گیا اور خوشگوار سے خوش گوار تر ہوتا گیا۔ پہلے پہل خدیجہؓ نے محمدﷺ کو اپنے تجارتی قافلے کا سالاربنایا۔ اُن کا یہ قافلہ تجارت کے لئے شام آتا جاتا رہتا تھا۔ اُس وقت جب وہ پہلی بار خدیجہؓ کے تجارتی قافلے شمال کی طرف لے گئے، اُن کی عمر چوبیس سال تھی۔

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر 14 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

ایک ایسے ہی قافلے کا تصور کیجیے۔ ریگستان کی رات میں چلتے ہوئے اونٹوں کے قدموں کی دھب دھب، کسی حدی خواں کے نغمے کی دلسوز آواز، ہر قدم پر نزدیک آتی منزل کا تصور، جانور اور انسان سب ایک مقصد کی خاطر سر نیہوڑائے رواں دواں، اطراف میں دُور دُور تک پھیلا ہوا بے نشان ریگ زار مگر اوپر آسمان پر ستاروں کی قندیلیں جو نہ صرف انہیں ان کی منزل کا راستہ بتا رہی ہیں بلکہ کئی نئی منزلوں کی بھی نشان دہی کر رہی ہیں، ان گنت جہانوں کی جو اُن سے پرے آباد ہیں۔ انسان اپنا سر اٹھاتا ہے اور فطرت کی بیکراں پہنائیوں میں گم ہو جاتا ہے۔

جب یہ قافلہ دمشق پہنچا تو سار بانوں نے شہر کے روایتی شراب خانوں میں اپنی پیاس اور تھکن دُور کرنے کا پروگرام بنایا۔ محمدﷺ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور شہر کے باہر ہی اپنے اونٹوں کے ساتھ ٹھہر گئے۔ انہیں شاید علم تھا کہ ملاح سمندروں میں کم اور ساحلوں پر زیادہ ڈوبتے ہیں۔ یہ سفر انہوں نے نہایت ذمے داری کے ساتھ پورا کیا اور خدیجہؓ کو اُن کی توقع سے کہیں زیادہ منافع لا کر دیا۔ جب وہ سفر کی روداد سنا رہے تھے تو خدیجہؓ اُن کو غور سے دیکھ رہی تھیں۔ اسی وقت اُن کی ذکاوت نے انہیں محمدﷺ کی ذات میں اپنے ہونے والے شوہر کی جھلک دکھا دی۔

خدیجہؓ نے ایک رشتے کروانے والی خاتون نُفَسیہ کو بلوایا اور اُسے کہا کہ ذرا اپنے طور پر محمدﷺ کا عندیہ تو لو کہ شادی کے بارے میں اُن کا کیا خیال ہے۔ نُفَسیہ نے بات چھیڑی تو انہوں نے کہا:

’’میرے پاس ہے کیا جو میں شادی کا سوچوں۔‘‘

’’بھلا غربت بھی کوئی بہانہ ہے۔ فرض کیجئے آپ کی کسی ایسی خاتون سے شادی ہو جائے جس کے پاس اتنا ہو جو دونوں کے لئے کافی ہو!فرض کیجئے آپ کو کسی ایسی خاتون کا رشتہ مل جائے جو حسین ہو، جس کے پاس دولت ہو، عزت ہو، جو کسی باوقار گھر کی مالکہ ہو تو؟‘‘

محمدﷺ نے کہا’’یہ بھی تو دیکھنا ہو گا کہ وہ خاتون خود کیسی ہے‘‘۔

’’یقینا۔ یقینا‘‘

’’ایسی کون سی خاتون ہے‘‘

’’خدیجہؓ‘‘

وہ یہ نام سوچ بھی نہیں سکتے تھے،فرمایا’’یہ کیسے ہو سکتا ہے‘‘

نُفَسیہ نے کہا: ’’سب مجھ پر چھوڑ دیجیے‘‘

خدیجہؓ اُس وقت چالیس سال کی تھیں۔ دو مرتبہ بیوہ ہو چکی تھیں۔ محمدﷺ کی عمر پچیس سال تھی۔ یہاں دمشق میں، میں نے چند لوگوں کو یہ کہتے سُنا ہے کہ اس عقد میں خدیجہؓ کا زیادہ فائدہ ہوا لیکن وہ کم عقل کچھ نہیں جانتے۔ انہیں کیا معلوم کہ اس تعلق میں محمدﷺ نے کیا پایا۔ یہ شادی ہر لحاظ سے اتنی مکمل اور کامیاب تھی کہ لگتا تھا یہ انسان کی نہیں کسی فرشتے کی تجویز تھی۔ دراصل یہ رشتہ اُن کے مشن کی تکمیل کا پہلا مرحلہ تھا۔ خدیجہؓ نے ہر پریشانی میں انہیں دلاسہ دیتیں۔ ایک دفعہ میں نے رسالتماب ﷺکو کہتے ہوئے سُنا:

’’جب سب مجھے کاذب کہتے تھے تو صرف خدیجہ مجھ پر یقین کرتی تھی‘‘۔

خدیجہؓ سب سے پہلے اُن کے مشن پر ایمان لائیں، سب مردوں سب عورتوں سے پہلے، اس وقت جب خود سرورِ کائناتﷺ بھی پریشان تھے۔ محمدﷺ اور خدیجہؓ کی شادی ایک مثالی شادی تھی، اتنی خوش گوار اور کامیاب کہ اس کے ذریعے گویا اللہ نے بندوں کو ایک ثبوت فراہم کر دیا کہ مرد کی بہترین ساتھی صرف عورت ہی ہو سکتی ہے۔(جاری ہے)

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر 16 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

موضوعات

تبصرے کیجئے

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.