حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر13

اب میں آپ کو محمدﷺ کی ابتدائی زندگی کے بارے میں چند باتیں بتاتا ہوں۔ جو کچھ میں نے دیکھا سُنا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر کو غریب اور یتیم پیدا کیا۔ اُن کے والد عبداللہ نے کبھی اپنے فرزندِ جلیل کو گود میں نہیں اٹھایا۔ محمدﷺ ابھی شکمِ مادر ہی میں تھے کہ عبداللہ کا انتقال ہو گیا۔ اپنے بیٹے کے لئے انہوں نے جو ترکہ چھوڑا وہ بھی کیا تھا۔ پانچ نحیف و نزار اونٹ اور چند بھیڑیں!

محمدﷺ عام الفیل میں واقعہ فیل سے پچاس یا پچپن دن بعد مکے میں پیدا ہوئے تھے۔ مجھ غلام کی پیدائش سے بارہ سال پہلے۔ صبح کا وقت تھا اور بہار کا موسم۔ ربیع الاول کی نویا بارہ تاریخ تھی۔ پیدائش کے دن کے متعلق انہوں نے میرے سامنے ایک اعرابی کو بتایا تھا کہ ان کی ولادت پیر کے دن ہوئی تھی۔ عیسوی تاریخ کے مطابق سن 570تھا یا 571عیسوی مہینے پر بھی اختلاف ہے۔ زیادہ لوگوں کا خیال ہے کہ اپریل کی آخری تاریخیں تھیں۔

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر 12 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

کہتے ہیں میلادِ محمدﷺ کی رات عرشِ الٰہی پر ایک جشن بپا ہوا تھا۔ کچھ لوگوں سے میں نے سنا کہ اُس رات انہوں نے آسمان پر قندیلیں روشن دیکھی تھیں۔ یہ بھی سنا ہے کہ اُس رات فرشتے نظر آئے تھے جو آسمان پر شادمانی کے گیت گا رہے تھے۔ سنا ہے لوگوں نے یہ بھی کہا کہ ولادت محمدﷺ کے ساتھ فارس کے ہزار سالہ قدیم آتش کدے کا دائمی شعلہ بجھ گیا۔ لوگوں سے یہ بھی سنا ہے کہ اُس رات فردوس بریں سے ایک کبوتر نیچے اُترا تھا جس کی منقار جواہرات سے مزین تھی۔

اُس نے حضرت آمنہؓ کے شکمِ مبارک پر اپنے پر رگڑے اور وہ زچگی کی تکلیف سے مامون ہو گئیں۔ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے موقع کی بھی ایسی بہت سی باتیں سنی ہیں۔ کہتے ہیں اُس رات آسمان پر ایک نیا ستارہ نمودار ہوا تھا جس نے تین بادشاہوں کو یروشلم کی راہ دکھائی تھی اور اس طرح وہ تینوں اُس کی رہبری میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پالنے تک پہنچ گئے تھے۔ یہ بھی سنا ہے کہ اُن تین کے علاوہ ایک ملکہ بھی تھی جو دیر سے یروشلم پہنچی تھی کیونکہ راستے میں اُس راہبر ستارے پر بادل کا ایک ٹکڑا آ گیا تھا جس کی وجہ سے وہ دیر تک نظروں سے اوجھل رہا لیکن اللہ کی اللہ ہی جانے۔

میں نے یہ بھی سُنا ہے کہ جب محمدﷺ کی عمر چار سال کی تھی تو دو فرشتوں نے اُن کا سینہ چاک کر کے اُن کا دل باہر نکالا اور اُسے گناہِ آدم سے پاک کر کے دوبارہ اُس کے مقام پر رکھ دیا۔ نہ انہیں کوئی تکلیف محسوس ہوئی نہ جسم پر کوئی نشان رہا۔ اس واقعے کاراوی ایک بچہ بتایا جاتا ہے جو اُس وقت محمدﷺ کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ یہاں میں پھر کہوں گا کہ واللہ اعلم بالصوّاب اللہ کی اللہ ہی جانے۔

چھ سال کے ہوئے تو اُن کی والدہ کا بھی انتقال ہو گیا۔ اُن کے دادا عبدالمطلب انہیں اپنے یہاں لے آئے اور اپنے بچوں کی طرح اُن کی پرورش کرنے لگے۔ دو ہی سال بعد عبدالمطلب بھی وفات پا گئے۔ پھر اُن کے بڑے بیٹے زبیر نے بنو ہاشم کے سربراہ کی حیثیت سے قبیلے کی باگ ڈور سنبھالی۔ محمدﷺ کی کفالت اور پرورش کی ذمے داری بھی سردار بنو ہاشم کی حیثیت سے انہوں نے ہی قبول کی۔ جب بیس اکیس سال کے ہوئے تو زبیر کی بھی وفات ہو گئی مگر اب وہ بیس اکیس سالہ نوجوان تھے۔ زبیر کے بعد ابو طالب بنو ہاشم کے سردار بن گئے اور محمدﷺ اُن کے یہاں منتقل ہو گئے۔

غربت اور کثرتِ اولاد کی وجہ سے ابو طالب کے حالات باقی بھائیوں جیسے نہ تھے مگر محمدﷺ کو اُن سے بہت محبت تھی۔ خود ابو طالب کو اُن سے بہت پیار تھا۔ ایک مرتبہ وہ انہیں ایک تجارتی قافلے میں اپنے ساتھ شام بھی لے گئے تھے۔ اس سفر کے بارے میں بھی کئی معجزات مشہور ہیں۔ کہتے ہیں اُن پر ایک بادل کا ٹکڑا سایہ کئے رہتا تھا۔ یہ بھی سنا ہے کہ بحیرہ نامی ایک عیسائی راہب نے جب یہ دیکھا تو اُسے حیرت ہوئی۔ پھر اُس نے اُن کے شانوں کے درمیان، مُہرِ نبوت دیکھی جو ایک بڑے سکّے کے برابر تھی۔ یہ آنے والے پیغمبر کی نشانیاں تھیں جو بحیرہ نے اپنی کتابوں میں پڑھی تھیں۔ یہ دیکھ کر اُس نے اُن کی نبوت کی پیش گوئی کر دی تھی۔

معجزات کے بارے میں، میں تو اتنا ہی کہوں گا جو قرآن میں تحریر ہے کہ وہ لوگ جو علم نہیں رکھتے، معجزوں سے اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں۔ دراصل انسان کی ہوس کبھی کبھی اُس کی ضرورتوں سے بڑھ جاتی ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اُس کی ضرورت اُتنا ہی جاننے کی ہے جو ان موقعوں کے بارے میں قرآن میں آیا ہے۔ نہ کم، نہ زیادہ۔ ویسے یوں بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک شخص کسی واقعے کو معجزہ کہتا ہے اور دوسرا اُسے محض ایک رمز یہ حکایت سمجھتا ہے، میں اکثر سوچتا ہوں کہ موسیٰ علیہ السلام کے سولہ معجزات جنہیں ہزاروں لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، کائنات میں ایک فوری اور دائمی انقلاب کیوں نہ لا سکے۔

میں سمجھتا ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب نازل فرما دی تو اُس نے مزید کسی معجزے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ قرآنِ حکیم ہی ایک مرکزی اعجاز تھا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا تھا۔ اُسی طرح جیسے پہلے عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے مرکزی اعجاز کی حیثیت رکھتے تھے۔

محمدﷺ نے مجھے بتایا کہ بچپن میں وہ گلہ بانی کیا کرتے تھے۔ صبح صبح بھیڑوں کے ریوڑ مکّے کی پہاڑیوں سے پرے لے جاتے تھے اور وہاں دن بھر اُن کے چارے کے لئے خود رو، خاردار جھاڑیوں کے سیاہی مائل پھل اکٹھے کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ہی مجھے بتایا کہ اپنے وقتوں میں سبھی پیغمبروں نے بھیڑیں چرائی ہیں۔ میرے خیال میں اس میں بھی قدرت کی مصلحت ہے۔ تنہائی انسان کو فطرت کے قریب کر دیتی ہے۔ انسان جب صحرا کی کھلی اور تازہ فضا میں تنہا اپنے چاروں طرف نظر دوڑاتا ہے تو اُسے لگتا ہے جیسے وہ سب مناظرصرف اُس کے لئے تخلیق ہوئے ہیں۔ اُس کے ذہن میں انسان کی اہمیت کا احساس جاگنے لگتا ہے۔

چار سُو پھیلے ہوئے فطرت کے بیکراں مناظر اُسے دعوتِ فکر دیتے ہیں۔ وہ اپنی ذات اور کائنات کے تعلق پر غور کرنے لگتا ہے اور بات خالقِ کائنات تک جا پہنچتی ہے۔ شہر سے دوری اس کے ذہن کو الجھنے نہیں دیتی۔ شہروں میں انسان وقت کی چیرہ دستیوں کاشکار ہو جاتا ہے۔ ماضی کی پرچھائیاں اور مستقبل کے سائے اُس کے حال پر چھائے رہتے ہیں اور وہ کسی عظیم مقصد کی جستجو کے قابل نہیں رہتا۔ شہروں کی مستقل آبادیاں، وہاں کے گلی کوچے رفتہ رفتہ انسان کی اخلاقی اور روحانی اقدار کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں اور وہ اپنے ماحول کا غلام بن کر اپنے اندر سمٹ کر رہ جاتا ہے۔ صحرا کی آزاد فضا یہ تمام بندھن توڑ دیتی ہے اور انسان کو کشادگی اور آفاقیت کا احساس دلاتی ہے۔

فطرت اپنی تمام تر معصومیت اور پاکیزگی کے ساتھ اپنی تمام تر قوت اور ہیبت کے ساتھ ہمیشہ سے صداقتوں کی علامت رہی ہے۔ یہ ایک راہ اور ایک مسلک بھی ہے جس میں ہر دور کے انسان نے پناہ پائی ہے۔ اس کی عظمت کا اندازہ یوں لگائیے کہ اگر ہمیں انسان کے بنائے ہوئے اعلیٰ سے اعلیٰ مدرسے اور فطرت کے مدرسہء ازلی کے درمیان انتخاب کرنا ہو تو ہم فطرت ہی کی درس گاہ کا انتخاب کریں گے۔ انسان کی بنائی ہوئی تمام چیزیں ختم ہو جائیں تب بھی فطرت کی تباہی کے مقابلے میں وہ ایک معمولی حادثہ ہو گا۔ صحراؤں میں گلہ بانی کرنے والے اسی مدرسہء فطرت کے طالب علم ہوتے ہیں۔

سرکارﷺ جب چودہ سال کے ہوئے تو اُن سے گلہ بانی چھڑا دی گئی۔ اب اُن کی عسکری تعلیم ہونا تھی۔ محمدؐ کم عمری کی وجہ سے تلوار نہیں چلا سکتے تھے، البتہ اپنے جدِّ امجد حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی طرح اُن کا رجحان تیر اندازی کی طرف تھا۔ اس عمر میں بھی انہوں نے اس فنِ حرب میں خاصی مہارت حاصل کر لی تھی۔ اس مہارت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُن کی نظر غیر معمولی طور پر تیز تھی۔ مکے میں مشہور تھا کہ وہ عقدِ ثریا کے بارہ ستارے گن سکتے تھے۔ پہلی جنگ جس میں وہ شریک ہوئے حرب الفجار تھی۔ یہ خوں ریز جنگ تین چار سال جاری رہی مگر لڑائی صرف پانچ دن ہوئی۔ حرب الفجار کی جس جنگ میں محمدﷺ شریک ہوئے تھے ایک دن کی تھی۔ اُس میں اُن کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ دشمن کے چلے ہوئے تیروں کو میدان جنگ سے اُٹھا اُٹھا کر جمع کریں اور اپنے تایا زبیر اور ابو طالب کو لا کر دیں۔ اُن کے ترکش خالی ہونے لگیں تو وہ مزید تیر جمع کر کے لائیں۔ سارا دن وہ چیختے چلاتے زخمیوں، لاشوں اور کٹے ہوئے انسانی اعضاء کے درمیان، تلواروں، نیزوں اور بھالوں کی زد سے اپنے آپ کو محفوظ کرتے گھوڑوں کی ٹانگوں سے بچتے بچاتے انسانی خون سے رنگے میدانِ کار زار میں دوڑ دوڑ کر تیر جمع کرتے رہے۔

اُن کو یہ دن اچھا نہیں لگا۔ وہ اسے اپنے ذہن سے محو کر دینا چاہتے تھے۔ میں نے ایک دن انہیں کہتے سُنا کہ کاش وہ دن کبھی طلوع ہی نہ ہوتا! کتنا خون بہا تھا اُس جنگ میں اور بات اتنی تھی کہ کنانہ کے ایک شرابی نے ہوازن کی شاخ بنو عامر کے ایک فرد کو سوتے میں قتل کر دیا تھا۔ قریش، کنانہ کے حلیف تھے۔ اس لئے اُن کی زیادتی کے باوجود اُن کا ساتھ دے رہے تھے۔(جاری ہے )

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر 14 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

موضوعات

تبصرے کیجئے

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.